ایمن الظواہری ki Islami countries me Minority ko target na karny ki hidayat...

salma

Politcal Worker (100+ posts)
th

.
.
.
19.gif

.

http://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2013/september/24-09-2013/frontpage/19.html
.
.

.

.
.
25.gif

.
.

 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
اس با بے کی اب کوئی سنتا ہے

جو قتل و غارت کا کھیل شروع ہو چکا ہے اس کے گناہ کا حصہ لو اب تو

رسول کریم کی امت کو بدنام کر دیا انہوں نے
 

Khuram Shehzad Jafri

Minister (2k+ posts)
isss ki koi sunta he nahi hai afghan taliban men tu... dhek lena america niklay ga tu iss ko wo kahen b nahi rakhen gey... yehi tha na jis ney pakistani men islami khilfat wala nizam lanay ki bat ki thi k dhamakay karo etc.... yeh bht bara dushman hai pakistan ka kameena insan...
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
مسلمانوں کو مارنے کی اجازت ہے (omg)

یہ لوگ گوشت کو خوب مسالہ لگا کر کھاتے ہیں

پہلے مسلمان کو منافق اور کا فر کہتے ہیں ، پھر مارتے ہیں

یہی بیماری ہماری ساری قوم میں پھیل گئی ہے

اس فورم پر بھی دیکھ لو ، لوگ ایک دوسرے کو کافر کہ ہے ہوتے ہیں
ایک دوسرے سے نفرت ٹپک رہی ہوتی ہے

یہ بیماری ساری امت میں پھل گئی ہے
 

barkat

Councller (250+ posts)
مسلمانوں کو مارنے کی اجازت ہے (omg)

jis din musalmanoon se mulla-parasti khatam ho jaay ge or wo mullaoon ko bura kahain gay dil ki gehrai se, tab musalmanoon ko aqal aa jaay gi or unki aankhain khul jain gi or koi surat nazar aay ge tarraqi ki,,,, warna tabahi he hamara muqaddar hai
 
Last edited by a moderator:

barkat

Councller (250+ posts)
یہ لوگ گوشت کو خوب مسالہ لگا کر کھاتے ہیں

پہلے مسلمان کو منافق اور کا فر کہتے ہیں ، پھر مارتے ہیں

یہی بیماری ہماری ساری قوم میں پھیل گئی ہے

اس فورم پر بھی دیکھ لو ، لوگ ایک دوسرے کو کافر کہ ہے ہوتے ہیں
ایک دوسرے سے نفرت ٹپک رہی ہوتی ہے

یہ بیماری ساری امت میں پھل گئی ہے

jis din musalmanoon se mulla-parasti khatam ho jaay ge or wo mullaoon ko bura kahain gay dil ki gehrai se, tab musalmanoon ko aqal aa jaay gi or unki aankhain khul jain gi or koi surat nazar aay ge tarraqi ki,,,, warna tabahi he hamara muqaddar hai
 
Last edited by a moderator:

Freedomlover

Minister (2k+ posts)

القاعدہ نے عالمی جہاد اور اسکے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرنے والا ہدایت نامہ جاری کردیا



نیوز رپورٹ: انصار اللہ اردو

qlee9.jpg



عالمی جہاد تحریک جماعت القاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے 14 ستمبر 2013 کو جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات پر مشتمل تحریری پیغام میں دنیا بھر میں جاری جہاد کے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرتے ہوئے بتایا کہ مجاہدین کا عسکری کام سے اولین ہدف عالمی کفر کا سردار امریکہ اور اس کا حلیف اسرائیل ہیں، جبکہ دوسرا ہدف اس کے مقامی حلیف يعنی ہمارے ملکوں کے حکمران ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ: امریکہ کو نشانہ بنانے کا مقصد اسے تھکا دینا اور مستقل ضربیں لگا کر رفتہ رفتہ کمزور کرنا ہے، تاکہ سوویت اتحاد کی طرح وہ بھی اپنے عسکری، افرادی اور اقتصادی نقصانات کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے، نتیجتاً ہماری سرزمینوں پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑجائے اور اس کے حلیف اور حاشیہ نشین بھی ایک ایک کر کے گرنے لگیں۔


انہوں نے ان دونوں اہداف پر توجہ مرکوز کرنے والی اس پالیسی کی اہمیت اور اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ: عرب انقلابات میں جو کچھ ہوا وہ امریکی نفوذ میں کمی کی واضح دلیل ہے۔ افغانستان اور عراق میں مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کی پٹائی اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے امریکہ کے داخلی امن و امان کو لاحق مستقل خطرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے مسلم عوام کو اپنے سینوں میں موجود غم و غصے کے جذبات کے اظہار کا کچھ رستہ دینے کا فیصلہ کیا، مگر عوامی غیض وغضب کا یہ آتش فشاں اس کے ایجنٹوں ہی پر پھٹ پڑا۔ ان شاء اللہ آنے والے مراحل میں امریکی اثرو رسوخ میں مزید کمی دیکھی جائے گی، اسے اپنی ہی فکر دامن گیر ہوجائے گی اور نتیجتاً اس کے حلیفوں کا تسلط بھی کمزور پڑنے لگے گا۔


شیخ ایمن الظواہری نے اسلامی ممالک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹ حکومتوں اور ان کی افواج کو ہدف بنانے سے متعلق پالیسی کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ: جہاں تک امریکہ کے مقامی ایجنٹوں کو ہدف بنانے کا معاملہ ہے تو ہر علاقے کا معاملہ دوسرے سے فرق ہے۔ اس مسئلے میں اصولی حکمتِ عملی یہی ہے کہ ان کے خلاف معرکہ نہ کھولا جائے، سوائے ان ممالک میں جہاں ان سے ٹکراؤ کے بغیر چارہ نہ ہو۔


پھر انہوں نے ہر ملک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹوں سے جاری جہاد کی وجوہات اور اہداف ومقاصد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ:


افغانستان میں ان مقامی ایجنٹوں سے معرکہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے تابع ہے۔


پاکستان میں ان سے معرکہ افغانستان کو امریکی قبضے سے آزادی دلانے کی جنگ کا تتمہ ہے، پھر اس سے پاکستان میں مجاہدین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا مقصود ہے، پھر اس محفوظ پناہ گاہ کو مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی سعی مطلوب ہے۔


عراق میں ان کے خلاف جاری معرکے کا ہدف امریکہ کے صفوی (رافضی شیعہ) جانشینوں کے قبضے سے اہلِ سنت کے علاقوں کو آزاد کروانا ہے۔


الجزائر، جہاں امریکی اثرورسوخ کافی کم بلکہ تقریباً غیر موجود ہے، وہاں مقامی حکمرانوں کے خلاف معرکے کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا اور مغربِ اسلامی کے علاقوں، افریقہ کے غربی ساحل پر واقع ممالک اور صحراء کے جنوبی علاقوں میں جہادی نفوذ کو بڑھانا ہے۔ نیز اب ان علاقوں میں بھی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے تصادم کی فضاء پیدا ہونے لگی ہے۔


جزیرۂ عرب میں ان کے خلاف معرکہ ان کے براہ راست امریکی ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے ہے۔


صومالیہ میں ان کے خلاف معرکے کا سبب ان کا وہاں قابض صلیبیوں کا ہر اول دستہ ہونا ہے۔


شام میں ان کے خلاف معرکے کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے حکمران، جہادی تو دور کی بات، کسی قسم کے اسلامی تشخص کے حامل وجود کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں اور اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے حوالے سے ان کی بھیانک خونی تاریخ کسی سے مخفی نہیں۔


بیت المقدس کے گرد وپیش میں بنیادی اور اصلی معرکہ یہود کے خلاف ہے، جبکہ اوسلو معاہدے کی پیداوار مقامی حکمرانوں کے مقابلے پر حتی الامکان صبر کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔


شیخ ایمن الظواہری نے جہاد کے ساتھ دعوت کے کام پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ: دعوتی کام کا اساسی ہدف یہ ہے کہ امت کو صلیبی حملے کے خطرے سے آگاہ کیا جائے، توحید کے اس پہلو کو اجاگر کیا جائے کہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اسلام کی بنیاد پر اخوت وبھائی چارہ قائم کرنے کا درس دیا جائے اور اسلامی سرزمینوں کو ملا کر ایک دارالاسلام بنانے کی اہمیت واضح کی جائے۔ اللہ نے چاہا تو یہ اقدامات خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا مقدمہ ثابت ہوں گے ۔


انہوں نے دعوتی کام کو سرانجام دیتے ہوئے دو محاذوں پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں محاذ یہ ہیں:


پہلا محاذ، گروہِ مجاہدین میں فکری آگہی کے فروغ اور ان کی دینی تربیت میں مزید بہتری لانے پر توجہ دینا، کیونکہ یہی امت کا وہ ہر اول دستہ ہیں جو آج بھی اپنے کاندھوں پر صلیبیوں اور ان کے حواریوں سے مقابلے کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اٹھائے رکھیں گے، یہاں تک کہ خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آجائے۔


دوسرا محاذ، مسلمان عوام میں فکری آگہی کے فروغ، انہیں تحریض دلانے اور اس امر پر انہیں متحرک کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں اور اسلام اور اسلام کی خاطر مصروفِ عمل لوگوں کے ساتھ آملیں۔


اس کے بعد ہدایت نامہ میں شیخ ایمن الظواہری نے تمام مجاہدین کو دنیا بھر میں دعوت وجہاد کے کام کرنے سے متعلق سیاست شرعیہ کی روشنی میں مصالح کے حصول اور مفاسد کے سد باب کی خاطر درج ذیل ہدایات کیں:


1- اپنی کوششوں کو مسلم معاشرے میں فہم و شعور کو فروغ دینے پر مرکوز کیا جائے تاکہ عوام الناس جمود توڑ کر حرکت میں آئیں، نیز گروہِ مجاہدین میں بھی فہم وشعور کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ پختہ فکرو عقیدے کی حامل ایک ایسی متحد ومنظم جہادی قوت تشکیل پاسکے جو اسلامی عقیدے پر ایمان رکھتی ہو، شرعی احکامات پر کاربند ہو اور مومنین کے لیے نرمی اور کافروں کے لیے سختی کا پیکر ہو۔ نیز اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جائے کہ جہادی تحریک کی صفوں میں سے علمی اور دعوتی صلاحیتوں کے حامل ایسے افراد نکلیں جو منہج کی حفاظت کے ضامن ہوں اور عام مسلمانوں میں بھی دعوت عام کرنے کا فرض نبھائیں۔


2- عسکری کام میں عالمی کفر کے امام (امریکہ) کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یہاں تک کہ وہ عسکری، اقتصادی اور افرادی سطح پر نقصانات سہتے سہتے اتنا نچڑ جائے کہ اللہ کے حکم سے جلد ہی سمٹتا سکڑتا واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوجائے۔


تمام مجاہد بھائیوں کے لیے اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مغربی صلیبی صہیونی اتحاد پر چوٹ لگانا ان کی اوّلین ذمہ داری ہے، اس لیے انہیں اس مقصد کی خاطر حتی المقدور کوشش صرف کرنی چاہیے۔


اسی کے ساتھ یہ ہدف بھی ترجیح میں رہنا چاہیے کہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمان اسیروں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے جس میں ان کی جیلوں پر دھاوا بولنے اور مسلمان ممالک کے خلاف یورش میں شریک ممالک کے لوگوں کو اغواء کرکے ان کے بدلے قیدیوں کو چھڑوانے جیسے وسائل شامل ہیں۔


نیز یہ واضح رہے کہ عالمی کفر کے امام پر توجہ مرکوز کرنے کی حکمتِ عملی اس بات کے منافی نہیں کہ مسلم عوام خود پر ظلم کرنے والوں کے خلاف زبان، ہاتھ اور ہتھیار سے جہاد کریں! چنانچہ ہمارے شیشانی بھائیوں کا حق ہے کہ وہ غاصب روسیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف جہاد کریں۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کا حق ہے کہ وہ مجرم ہندوؤں کے خلاف جہاد کریں۔ مشرقی ترکستان میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا حق ہے کہ وہ سرکش چینیوں کے خلاف جہاد کریں اور اسی طرح فلپائن، برما اور تمام عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہو، وہاں بسنے والے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان ظلم کرنے والوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کریں۔


3- مسلم خطوں پر مسلط حکومتوں کے خلاف مسلح جنگ سے گریز کیا جائے، سوائے اس صورت میں جب معاملہ اضطرار کے درجے تک پہنچ جائے، مثلاً جب مقامی فوج امریکی فوج ہی کا براہِ راست حصہ بن جائے جیسا کہ افغانستان کی صورت حال ہے، یا جب مقامی فوج امریکیوں کی نیابت میں مجاہدین کے خلاف جنگ کرے جیسا کہ صومالیہ اور جزیرۂ عرب میں ہے، یا جب وہ اپنے یہاں مجاہدین کا وجود تک برداشت کرنے سے انکاری ہو جیسا کہ مغربِ اسلامی، شام اور عراق کا معاملہ ہے۔


تاہم جب بھی ان کے خلاف جنگ سے بچنا ممکن ہو بچا جائے، اور اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر امت کے سامنے اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا جائے کہ ان کے خلاف جنگ دراصل صلیبی حملے کے خلاف امت کے دفاع ہی کا ایک حصہ ہے۔


نیز جب کبھی بھی مقامی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی موقع میسر ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسے ہر ممکن حد تک دعوت، بیان، تحریض، افرادی قوت کی بھرتی، اموال کے جمع کرنے اور معاونین و انصار بنانے میں صرف کیا جائے، کیونکہ ہمارا معرکہ بہت طویل ہے اور جہاد کو پرامن پناہ گاہوں کی اور افراد، اموال اور صلاحیتوں کی مستقل فراہمی کی ضرورت ہے۔


یہ حکمتِ عملی اس بات کے منفی نہیں کہ ہم صلیبی حملہ آوروں کی آلہء کار ان حکومتوں کو یہ باور کراتے رہیں کہ ہم ان کے لیے کوئی تر نوالہ نہیں! اور ان کے ہر عمل کا ردِ عمل بھی ضرور ہوگا چاہے کچھ عرصہ بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کی تطبیق ہر محاذ پر اس کی مخصوص صورتِ حال کی مناسبت سے کی جائے۔




جماعت قاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی طرف سے دنیا بھر کے مجاہدین اور القاعدہ سے وابستہ تمام ذیلی تنظیموں اور جماعتوں کے نام عمومی ہدایات اور رہنما سیاسی اصول پر مشتمل ہدایت نامہ کا مکمل متن تین زبانوں میں
 

seekers

Minister (2k+ posts)
ٹھیک فرما رھے ہیں ، ان کو خطرہ یہود،سعود و نصارا سے نہیں مسلمانوں بلخصوص شیعہ لوگوں سے ہے اسی لئے یہ سب سے زیادہ سارے ملکوں میں انھیں کو ٹارگٹ کرتے ہیں .
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
بلوں اور گٹروں میں زندگی گزارنے والا یہ بزدل چوہا ابھی مرا نہیں؟؟؟
 

Nadeem57

MPA (400+ posts)
Good and comprehensive paper . IK should read carefully this specially two paragraph . First about Pakistan and second in the last about making tactical peace with local govt to maintain safe havens. Pakistan is already safe haven for them . almost every country blame us that we are the hub of terrorism . This statement actually acceptance of this allegation . Are we ready to give them extension at the cost of our way of life and integrity of Pakistan ? Think twice . Lastly if you are Al qaida supporter you should not have ( freedom lover ID) as your organization is just against the freedom and will of people . you trust on guns not on people freedom .
 

Sher Dil

Councller (250+ posts)
ارے یار اب چچا الظواہری کی اتنی لمبی لمبی ہدایات کو پوسث کرنے کا ہمیں کیا فائدہ؟ انکی خالی خولی باتوں سے ہمارری صحت پر کیا فرق پڑنے والا ہے؟ یہ ہدایت تو انکے کارکنوں کے لئے ہونی چاہئے اگر موصوف کے چیلے ہی انکی ہدایات کو کوڑے کے ڈبے میں ڈال رہے ہیں تو ہم کیا اسکی تختی بنوا کر دیوار پر سچوالیں؟




القاعدہ نے عالمی جہاد اور اسکے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرنے والا ہدایت نامہ جاری کردیا



نیوز رپورٹ: انصار اللہ اردو

qlee9.jpg



عالمی جہاد تحریک جماعت القاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے 14 ستمبر 2013 کو جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات پر مشتمل تحریری پیغام میں دنیا بھر میں جاری جہاد کے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرتے ہوئے بتایا کہ مجاہدین کا عسکری کام سے اولین ہدف عالمی کفر کا سردار امریکہ اور اس کا حلیف اسرائیل ہیں، جبکہ دوسرا ہدف اس کے مقامی حلیف يعنی ہمارے ملکوں کے حکمران ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ: امریکہ کو نشانہ بنانے کا مقصد اسے تھکا دینا اور مستقل ضربیں لگا کر رفتہ رفتہ کمزور کرنا ہے، تاکہ سوویت اتحاد کی طرح وہ بھی اپنے عسکری، افرادی اور اقتصادی نقصانات کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے، نتیجتاً ہماری سرزمینوں پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑجائے اور اس کے حلیف اور حاشیہ نشین بھی ایک ایک کر کے گرنے لگیں۔


انہوں نے ان دونوں اہداف پر توجہ مرکوز کرنے والی اس پالیسی کی اہمیت اور اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ: عرب انقلابات میں جو کچھ ہوا وہ امریکی نفوذ میں کمی کی واضح دلیل ہے۔ افغانستان اور عراق میں مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کی پٹائی اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے امریکہ کے داخلی امن و امان کو لاحق مستقل خطرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے مسلم عوام کو اپنے سینوں میں موجود غم و غصے کے جذبات کے اظہار کا کچھ رستہ دینے کا فیصلہ کیا، مگر عوامی غیض وغضب کا یہ آتش فشاں اس کے ایجنٹوں ہی پر پھٹ پڑا۔ ان شاء اللہ آنے والے مراحل میں امریکی اثرو رسوخ میں مزید کمی دیکھی جائے گی، اسے اپنی ہی فکر دامن گیر ہوجائے گی اور نتیجتاً اس کے حلیفوں کا تسلط بھی کمزور پڑنے لگے گا۔


شیخ ایمن الظواہری نے اسلامی ممالک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹ حکومتوں اور ان کی افواج کو ہدف بنانے سے متعلق پالیسی کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ: جہاں تک امریکہ کے مقامی ایجنٹوں کو ہدف بنانے کا معاملہ ہے تو ہر علاقے کا معاملہ دوسرے سے فرق ہے۔ اس مسئلے میں اصولی حکمتِ عملی یہی ہے کہ ان کے خلاف معرکہ نہ کھولا جائے، سوائے ان ممالک میں جہاں ان سے ٹکراؤ کے بغیر چارہ نہ ہو۔


پھر انہوں نے ہر ملک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹوں سے جاری جہاد کی وجوہات اور اہداف ومقاصد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ:


افغانستان میں ان مقامی ایجنٹوں سے معرکہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے تابع ہے۔


پاکستان میں ان سے معرکہ افغانستان کو امریکی قبضے سے آزادی دلانے کی جنگ کا تتمہ ہے، پھر اس سے پاکستان میں مجاہدین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا مقصود ہے، پھر اس محفوظ پناہ گاہ کو مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی سعی مطلوب ہے۔


عراق میں ان کے خلاف جاری معرکے کا ہدف امریکہ کے صفوی (رافضی شیعہ) جانشینوں کے قبضے سے اہلِ سنت کے علاقوں کو آزاد کروانا ہے۔


الجزائر، جہاں امریکی اثرورسوخ کافی کم بلکہ تقریباً غیر موجود ہے، وہاں مقامی حکمرانوں کے خلاف معرکے کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا اور مغربِ اسلامی کے علاقوں، افریقہ کے غربی ساحل پر واقع ممالک اور صحراء کے جنوبی علاقوں میں جہادی نفوذ کو بڑھانا ہے۔ نیز اب ان علاقوں میں بھی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے تصادم کی فضاء پیدا ہونے لگی ہے۔


جزیرۂ عرب میں ان کے خلاف معرکہ ان کے براہ راست امریکی ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے ہے۔


صومالیہ میں ان کے خلاف معرکے کا سبب ان کا وہاں قابض صلیبیوں کا ہر اول دستہ ہونا ہے۔


شام میں ان کے خلاف معرکے کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے حکمران، جہادی تو دور کی بات، کسی قسم کے اسلامی تشخص کے حامل وجود کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں اور اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے حوالے سے ان کی بھیانک خونی تاریخ کسی سے مخفی نہیں۔


بیت المقدس کے گرد وپیش میں بنیادی اور اصلی معرکہ یہود کے خلاف ہے، جبکہ اوسلو معاہدے کی پیداوار مقامی حکمرانوں کے مقابلے پر حتی الامکان صبر کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔


شیخ ایمن الظواہری نے جہاد کے ساتھ دعوت کے کام پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ: دعوتی کام کا اساسی ہدف یہ ہے کہ امت کو صلیبی حملے کے خطرے سے آگاہ کیا جائے، توحید کے اس پہلو کو اجاگر کیا جائے کہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اسلام کی بنیاد پر اخوت وبھائی چارہ قائم کرنے کا درس دیا جائے اور اسلامی سرزمینوں کو ملا کر ایک دارالاسلام بنانے کی اہمیت واضح کی جائے۔ اللہ نے چاہا تو یہ اقدامات خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا مقدمہ ثابت ہوں گے ۔


انہوں نے دعوتی کام کو سرانجام دیتے ہوئے دو محاذوں پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں محاذ یہ ہیں:


پہلا محاذ، گروہِ مجاہدین میں فکری آگہی کے فروغ اور ان کی دینی تربیت میں مزید بہتری لانے پر توجہ دینا، کیونکہ یہی امت کا وہ ہر اول دستہ ہیں جو آج بھی اپنے کاندھوں پر صلیبیوں اور ان کے حواریوں سے مقابلے کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اٹھائے رکھیں گے، یہاں تک کہ خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آجائے۔


دوسرا محاذ، مسلمان عوام میں فکری آگہی کے فروغ، انہیں تحریض دلانے اور اس امر پر انہیں متحرک کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں اور اسلام اور اسلام کی خاطر مصروفِ عمل لوگوں کے ساتھ آملیں۔


اس کے بعد ہدایت نامہ میں شیخ ایمن الظواہری نے تمام مجاہدین کو دنیا بھر میں دعوت وجہاد کے کام کرنے سے متعلق سیاست شرعیہ کی روشنی میں مصالح کے حصول اور مفاسد کے سد باب کی خاطر درج ذیل ہدایات کیں:


1- اپنی کوششوں کو مسلم معاشرے میں فہم و شعور کو فروغ دینے پر مرکوز کیا جائے تاکہ عوام الناس جمود توڑ کر حرکت میں آئیں، نیز گروہِ مجاہدین میں بھی فہم وشعور کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ پختہ فکرو عقیدے کی حامل ایک ایسی متحد ومنظم جہادی قوت تشکیل پاسکے جو اسلامی عقیدے پر ایمان رکھتی ہو، شرعی احکامات پر کاربند ہو اور مومنین کے لیے نرمی اور کافروں کے لیے سختی کا پیکر ہو۔ نیز اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جائے کہ جہادی تحریک کی صفوں میں سے علمی اور دعوتی صلاحیتوں کے حامل ایسے افراد نکلیں جو منہج کی حفاظت کے ضامن ہوں اور عام مسلمانوں میں بھی دعوت عام کرنے کا فرض نبھائیں۔


2- عسکری کام میں عالمی کفر کے امام (امریکہ) کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یہاں تک کہ وہ عسکری، اقتصادی اور افرادی سطح پر نقصانات سہتے سہتے اتنا نچڑ جائے کہ اللہ کے حکم سے جلد ہی سمٹتا سکڑتا واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوجائے۔


تمام مجاہد بھائیوں کے لیے اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مغربی صلیبی صہیونی اتحاد پر چوٹ لگانا ان کی اوّلین ذمہ داری ہے، اس لیے انہیں اس مقصد کی خاطر حتی المقدور کوشش صرف کرنی چاہیے۔


اسی کے ساتھ یہ ہدف بھی ترجیح میں رہنا چاہیے کہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمان اسیروں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے جس میں ان کی جیلوں پر دھاوا بولنے اور مسلمان ممالک کے خلاف یورش میں شریک ممالک کے لوگوں کو اغواء کرکے ان کے بدلے قیدیوں کو چھڑوانے جیسے وسائل شامل ہیں۔


نیز یہ واضح رہے کہ عالمی کفر کے امام پر توجہ مرکوز کرنے کی حکمتِ عملی اس بات کے منافی نہیں کہ مسلم عوام خود پر ظلم کرنے والوں کے خلاف زبان، ہاتھ اور ہتھیار سے جہاد کریں! چنانچہ ہمارے شیشانی بھائیوں کا حق ہے کہ وہ غاصب روسیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف جہاد کریں۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کا حق ہے کہ وہ مجرم ہندوؤں کے خلاف جہاد کریں۔ مشرقی ترکستان میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا حق ہے کہ وہ سرکش چینیوں کے خلاف جہاد کریں اور اسی طرح فلپائن، برما اور تمام عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہو، وہاں بسنے والے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان ظلم کرنے والوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کریں۔


3- مسلم خطوں پر مسلط حکومتوں کے خلاف مسلح جنگ سے گریز کیا جائے، سوائے اس صورت میں جب معاملہ اضطرار کے درجے تک پہنچ جائے، مثلاً جب مقامی فوج امریکی فوج ہی کا براہِ راست حصہ بن جائے جیسا کہ افغانستان کی صورت حال ہے، یا جب مقامی فوج امریکیوں کی نیابت میں مجاہدین کے خلاف جنگ کرے جیسا کہ صومالیہ اور جزیرۂ عرب میں ہے، یا جب وہ اپنے یہاں مجاہدین کا وجود تک برداشت کرنے سے انکاری ہو جیسا کہ مغربِ اسلامی، شام اور عراق کا معاملہ ہے۔


تاہم جب بھی ان کے خلاف جنگ سے بچنا ممکن ہو بچا جائے، اور اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر امت کے سامنے اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا جائے کہ ان کے خلاف جنگ دراصل صلیبی حملے کے خلاف امت کے دفاع ہی کا ایک حصہ ہے۔


نیز جب کبھی بھی مقامی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی موقع میسر ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسے ہر ممکن حد تک دعوت، بیان، تحریض، افرادی قوت کی بھرتی، اموال کے جمع کرنے اور معاونین و انصار بنانے میں صرف کیا جائے، کیونکہ ہمارا معرکہ بہت طویل ہے اور جہاد کو پرامن پناہ گاہوں کی اور افراد، اموال اور صلاحیتوں کی مستقل فراہمی کی ضرورت ہے۔


یہ حکمتِ عملی اس بات کے منفی نہیں کہ ہم صلیبی حملہ آوروں کی آلہء کار ان حکومتوں کو یہ باور کراتے رہیں کہ ہم ان کے لیے کوئی تر نوالہ نہیں! اور ان کے ہر عمل کا ردِ عمل بھی ضرور ہوگا چاہے کچھ عرصہ بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کی تطبیق ہر محاذ پر اس کی مخصوص صورتِ حال کی مناسبت سے کی جائے۔




جماعت قاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی طرف سے دنیا بھر کے مجاہدین اور القاعدہ سے وابستہ تمام ذیلی تنظیموں اور جماعتوں کے نام عمومی ہدایات اور رہنما سیاسی اصول پر مشتمل ہدایت نامہ کا مکمل متن تین زبانوں میں
 

allahkebande

Minister (2k+ posts)

القاعدہ نے عالمی جہاد اور اسکے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرنے والا ہدایت نامہ جاری کردیا



نیوز رپورٹ: انصار اللہ اردو

qlee9.jpg



عالمی جہاد تحریک ’’جماعت القاعدۃ الجہاد‘‘ کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے 14 ستمبر 2013 کو ’’جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات‘‘ پر مشتمل تحریری پیغام میں دنیا بھر میں جاری جہاد کے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرتے ہوئے بتایا کہ مجاہدین کا عسکری کام سے اولین ہدف ’’عالمی کفر کا سردار امریکہ اور اس کا حلیف اسرائیل ہیں، جبکہ دوسرا ہدف اس کے مقامی حلیف يعنی ہمارے ملکوں کے حکمران ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ: ’’امریکہ کو نشانہ بنانے کا مقصد اسے تھکا دینا اور مستقل ضربیں لگا کر رفتہ رفتہ کمزور کرنا ہے، تاکہ سوویت اتحاد کی طرح وہ بھی اپنے عسکری، افرادی اور اقتصادی نقصانات کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے، نتیجتاً ہماری سرزمینوں پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑجائے اور اس کے حلیف اور حاشیہ نشین بھی ایک ایک کر کے گرنے لگیں۔‘‘


انہوں نے ان دونوں اہداف پر توجہ مرکوز کرنے والی اس پالیسی کی اہمیت اور اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’عرب انقلابات میں جو کچھ ہوا وہ امریکی نفوذ میں کمی کی واضح دلیل ہے۔ افغانستان اور عراق میں مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کی پٹائی اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے امریکہ کے داخلی امن و امان کو لاحق مستقل خطرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے مسلم عوام کو اپنے سینوں میں موجود غم و غصے کے جذبات کے اظہار کا کچھ رستہ دینے کا فیصلہ کیا، مگر عوامی غیض وغضب کا یہ آتش فشاں اس کے ایجنٹوں ہی پر پھٹ پڑا۔ ان شاء اللہ آنے والے مراحل میں امریکی اثرو رسوخ میں مزید کمی دیکھی جائے گی، اسے اپنی ہی فکر دامن گیر ہوجائے گی اور نتیجتاً اس کے حلیفوں کا تسلط بھی کمزور پڑنے لگے گا۔‘‘


شیخ ایمن الظواہری نے اسلامی ممالک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹ حکومتوں اور ان کی افواج کو ہدف بنانے سے متعلق پالیسی کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جہاں تک امریکہ کے مقامی ایجنٹوں کو ہدف بنانے کا معاملہ ہے تو ہر علاقے کا معاملہ دوسرے سے فرق ہے۔ اس مسئلے میں اصولی حکمتِ عملی یہی ہے کہ ان کے خلاف معرکہ نہ کھولا جائے، سوائے ان ممالک میں جہاں ان سے ٹکراؤ کے بغیر چارہ نہ ہو۔‘‘


پھر انہوں نے ہر ملک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹوں سے جاری جہاد کی وجوہات اور اہداف ومقاصد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ:


’’افغانستان میں ان مقامی ایجنٹوں سے معرکہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے تابع ہے۔‘‘


’’پاکستان میں ان سے معرکہ افغانستان کو امریکی قبضے سے آزادی دلانے کی جنگ کا تتمہ ہے، پھر اس سے پاکستان میں مجاہدین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا مقصود ہے، پھر اس محفوظ پناہ گاہ کو مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی سعی مطلوب ہے۔‘‘


’’عراق میں ان کے خلاف جاری معرکے کا ہدف امریکہ کے صفوی (رافضی شیعہ) جانشینوں کے قبضے سے اہلِ سنت کے علاقوں کو آزاد کروانا ہے۔‘‘


’’الجزائر، جہاں امریکی اثرورسوخ کافی کم بلکہ تقریباً غیر موجود ہے، وہاں مقامی حکمرانوں کے خلاف معرکے کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا اور مغربِ اسلامی کے علاقوں، افریقہ کے غربی ساحل پر واقع ممالک اور صحراء کے جنوبی علاقوں میں جہادی نفوذ کو بڑھانا ہے۔ نیز اب ان علاقوں میں بھی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے تصادم کی فضاء پیدا ہونے لگی ہے۔‘‘


’’جزیرۂ عرب میں ان کے خلاف معرکہ ان کے براہ راست امریکی ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے ہے۔‘‘


’’صومالیہ میں ان کے خلاف معرکے کا سبب ان کا وہاں قابض صلیبیوں کا ہر اول دستہ ہونا ہے۔‘‘


’’شام میں ان کے خلاف معرکے کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے حکمران، جہادی تو دور کی بات، کسی قسم کے اسلامی تشخص کے حامل وجود کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں اور اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے حوالے سے ان کی بھیانک خونی تاریخ کسی سے مخفی نہیں۔‘‘


’’بیت المقدس کے گرد وپیش میں بنیادی اور اصلی معرکہ یہود کے خلاف ہے، جبکہ ’’اوسلو معاہدے کی پیداوار‘‘ مقامی حکمرانوں کے مقابلے پر حتی الامکان صبر کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔‘‘


شیخ ایمن الظواہری نے جہاد کے ساتھ دعوت کے کام پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ: ’’دعوتی کام کا اساسی ہدف یہ ہے کہ امت کو صلیبی حملے کے خطرے سے آگاہ کیا جائے، توحید کے اس پہلو کو اجاگر کیا جائے کہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اسلام کی بنیاد پر اخوت وبھائی چارہ قائم کرنے کا درس دیا جائے اور اسلامی سرزمینوں کو ملا کر ایک دارالاسلام بنانے کی اہمیت واضح کی جائے۔ اللہ نے چاہا تو یہ اقدامات خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا مقدمہ ثابت ہوں گے ۔‘‘


انہوں نے دعوتی کام کو سرانجام دیتے ہوئے دو محاذوں پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں محاذ یہ ہیں:


’’پہلا محاذ، گروہِ مجاہدین میں فکری آگہی کے فروغ اور ان کی دینی تربیت میں مزید بہتری لانے پر توجہ دینا، کیونکہ یہی امت کا وہ ہر اول دستہ ہیں جو آج بھی اپنے کاندھوں پر صلیبیوں اور ان کے حواریوں سے مقابلے کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اٹھائے رکھیں گے، یہاں تک کہ خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آجائے۔


’’دوسرا محاذ، مسلمان عوام میں فکری آگہی کے فروغ، انہیں تحریض دلانے اور اس امر پر انہیں متحرک کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں اور اسلام اور اسلام کی خاطر مصروفِ عمل لوگوں کے ساتھ آملیں۔‘‘


اس کے بعد ہدایت نامہ میں شیخ ایمن الظواہری نے تمام مجاہدین کو دنیا بھر میں ’’دعوت وجہاد‘‘ کے کام کرنے سے متعلق سیاست شرعیہ کی روشنی میں مصالح کے حصول اور مفاسد کے سد باب کی خاطر درج ذیل ہدایات کیں:


1- اپنی کوششوں کو مسلم معاشرے میں فہم و شعور کو فروغ دینے پر مرکوز کیا جائے تاکہ عوام الناس جمود توڑ کر حرکت میں آئیں، نیز گروہِ مجاہدین میں بھی فہم وشعور کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ پختہ فکرو عقیدے کی حامل ایک ایسی متحد ومنظم جہادی قوت تشکیل پاسکے جو اسلامی عقیدے پر ایمان رکھتی ہو، شرعی احکامات پر کاربند ہو اور مومنین کے لیے نرمی اور کافروں کے لیے سختی کا پیکر ہو۔ نیز اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جائے کہ جہادی تحریک کی صفوں میں سے علمی اور دعوتی صلاحیتوں کے حامل ایسے افراد نکلیں جو منہج کی حفاظت کے ضامن ہوں اور عام مسلمانوں میں بھی دعوت عام کرنے کا فرض نبھائیں۔


2- عسکری کام میں عالمی کفر کے امام (امریکہ) کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یہاں تک کہ وہ عسکری، اقتصادی اور افرادی سطح پر نقصانات سہتے سہتے اتنا نچڑ جائے کہ اللہ کے حکم سے جلد ہی سمٹتا سکڑتا واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوجائے۔


تمام مجاہد بھائیوں کے لیے اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مغربی صلیبی صہیونی اتحاد پر چوٹ لگانا ان کی اوّلین ذمہ داری ہے، اس لیے انہیں اس مقصد کی خاطر حتی المقدور کوشش صرف کرنی چاہیے۔


اسی کے ساتھ یہ ہدف بھی ترجیح میں رہنا چاہیے کہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمان اسیروں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے جس میں ان کی جیلوں پر دھاوا بولنے اور مسلمان ممالک کے خلاف یورش میں شریک ممالک کے لوگوں کو اغواء کرکے ان کے بدلے قیدیوں کو چھڑوانے جیسے وسائل شامل ہیں۔


نیز یہ واضح رہے کہ عالمی کفر کے امام پر توجہ مرکوز کرنے کی حکمتِ عملی اس بات کے منافی نہیں کہ مسلم عوام خود پر ظلم کرنے والوں کے خلاف زبان، ہاتھ اور ہتھیار سے جہاد کریں! چنانچہ ہمارے شیشانی بھائیوں کا حق ہے کہ وہ غاصب روسیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف جہاد کریں۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کا حق ہے کہ وہ مجرم ہندوؤں کے خلاف جہاد کریں۔ مشرقی ترکستان میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا حق ہے کہ وہ سرکش چینیوں کے خلاف جہاد کریں اور اسی طرح فلپائن، برما اور تمام عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہو، وہاں بسنے والے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان ظلم کرنے والوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کریں۔


3- مسلم خطوں پر مسلط حکومتوں کے خلاف مسلح جنگ سے گریز کیا جائے، سوائے اس صورت میں جب معاملہ اضطرار کے درجے تک پہنچ جائے، مثلاً جب مقامی فوج امریکی فوج ہی کا براہِ راست حصہ بن جائے جیسا کہ افغانستان کی صورت حال ہے، یا جب مقامی فوج امریکیوں کی نیابت میں مجاہدین کے خلاف جنگ کرے جیسا کہ صومالیہ اور جزیرۂ عرب میں ہے، یا جب وہ اپنے یہاں مجاہدین کا وجود تک برداشت کرنے سے انکاری ہو جیسا کہ مغربِ اسلامی، شام اور عراق کا معاملہ ہے۔


تاہم جب بھی ان کے خلاف جنگ سے بچنا ممکن ہو بچا جائے، اور اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر امت کے سامنے اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا جائے کہ ان کے خلاف جنگ دراصل صلیبی حملے کے خلاف امت کے دفاع ہی کا ایک حصہ ہے۔


نیز جب کبھی بھی مقامی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی موقع میسر ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسے ہر ممکن حد تک دعوت، بیان، تحریض، افرادی قوت کی بھرتی، اموال کے جمع کرنے اور معاونین و انصار بنانے میں صرف کیا جائے، کیونکہ ہمارا معرکہ بہت طویل ہے اور جہاد کو پرامن پناہ گاہوں کی اور افراد، اموال اور صلاحیتوں کی مستقل فراہمی کی ضرورت ہے۔


یہ حکمتِ عملی اس بات کے منفی نہیں کہ ہم صلیبی حملہ آوروں کی آلہء کار ان حکومتوں کو یہ باور کراتے رہیں کہ ہم ان کے لیے کوئی تر نوالہ نہیں! اور ان کے ہر عمل کا ردِ عمل بھی ضرور ہوگا چاہے کچھ عرصہ بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کی تطبیق ہر محاذ پر اس کی مخصوص صورتِ حال کی مناسبت سے کی جائے۔




جماعت قاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی طرف سے دنیا بھر کے مجاہدین اور القاعدہ سے وابستہ تمام ذیلی تنظیموں اور جماعتوں کے نام ’’عمومی ہدایات اور رہنما سیاسی اصول‘‘ پر مشتمل ہدایت نامہ کا مکمل متن تین زبانوں میں

بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام
 

اداس ساحل

MPA (400+ posts)
Me aap ko kasoorwar nahi samajhta dajjjali media ke chatri ke saiy talay log so rahay hin

ایمان الزواہری کو کس نے اس بات کا ٹھیکا دیا ہے کہ وہ جسے چاہے کافر قرار دے کر اس کے خلاف اپنا جہاد شروع کردے - اسلام کا پیغام دعوت و تبلیغ ہے یا پھر قتل و غارت ؟
 

Freedomlover

Minister (2k+ posts)
ایمان الزواہری کو کس نے اس بات کا ٹھیکا دیا ہے کہ وہ جسے چاہے کافر قرار دے کر اس کے خلاف اپنا جہاد شروع کردے - اسلام کا پیغام دعوت و تبلیغ ہے یا پھر قتل و غارت ؟

Ossay kisi ne theka nahi diay balke ye zimadari Allah:subhanahu: ne har musalman par lazim ke hi ke wo zulam ke khilaf aur aazadi ke liay jidojihad karay. Aap bhe ye kar saktay hin agar Allah:subhanahu: par emaan hi