لاہور (رپورٹ: نوید خان) دیہات میں مویشیوں کے گوبر سے گھریلو استعمال کی توانائی کا حصول جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور حکومتیں اس پر بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں لیکن بدترین توانائی کے بحران کا شکار پاکستان بائیو گیس حاصل کرنے کے اس آسان اور سستے ذریعے سے بھی فائدہ اٹھانے میں مایوس کن حد تک ناکام ہو رہا ہے کیونکہ افسران بالا کو یہ سن کر ہی شرم آتی ہے کہ جانوروں کے گوبر سے گیس بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2010ء میں (آبادی کے اعتبار سے) بائیو گیس پلانٹ کی تیز ترین رفتار نیپال میں رہی، دوسرے نمبر پر ویت نام اور تیسری تیز رفتار بنگلہ دیش کی رہی۔ کمبوڈیا اور انڈونیشیا میں بائیو گیس پیدا کرنے کی سادہ ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پا رہی ہے اسی سال میں ان ممالک میں بائیو گیس پلانٹس کی تعداد 61 ہزار ہے جس میں گزشتہ سال حوصلہ افزا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010ء میں چین میں بائیو گیس کے 50 لاکھ پلانٹ لگے۔ ان میں سے سال کے اختتام پر 40 لاکھ پلانٹ سے بائیو گیس پیدا کر کے کھانا پکانے، گھر کو روشن کرنے اور پنکھے چلانے کیلئے کام کرنے لگے تھے۔ بھارت میں 2010-11 کے مالی سال میں ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں بائیو گیس کے پلانٹ لگائے گئے۔ مارچ 2011ء میں بھارت کے کل بائیو گیس پلانٹس کی تعداد 44 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس نمائندے نے ملک میں توانائی کے گمبھیر بحران کے حوالے سے بائیو گیس ٹیکنالوجی کے فروغ پر جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق پاکستان دیہات کیلئے توانائی کے حصول کے اس ذریعے میں بھی ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان کونسل آف رینوایبل انرجی ٹیکنالوجی کے ذرائع کے مطابق ملک میں 5 ہزار بائیو گیس پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ بائیو گیس سے توانائی حاصل کرنے کیلئے بھارت کی سطح پر آنے کیلئے پاکستان میں 8 لاکھ بائیو پلانٹس ہونے چاہئیں۔ ایوب دور میں پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی میں بائیو گیس پلانٹس لگانے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی لیکن چند ہی برسوں میں یہ منصوبہ مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا۔ حالانکہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ بھی اس پروجیکٹ کو اسپانسر کررہی ہے اور اسے قابل اعتماد ذریعہ مانا جاتا ہے خاص طور سے دیہاتوں میں جہاں سیوریج کی لائنوں کا نظام نہیں ہے اور لوگ کنویں نما گٹر بناتے ہیں۔