پیٹھ میں ایرانی چھرا
آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ اگر امریکہ ایران سے اپنی "دشمنی" نبھا رہا ہے:۔
ڈالروں اور یورو سے بھرے بکسے دے کر،
مجہول سی ایٹمی ڈیل کی آڑ لے کر نام نہاد پابندیاں ہٹا کر اور فریز ہوئے اربوں ڈالررہا کر کے،
ایران مخالف (صدام، لیبیا، افغانستان میں)حکومتوں کو گرا کر،
اور ایران کی حمایت یافتہ(ظالم او ر وحشی بشار الاسد ہو یا یمنی حوثی یا لبنانی دہشت گرد حزب اللہ وغیرہ) حکومتوں اور گروہوں کی مدد کرکے،،(حملہ نہ کر کے)۔
تو دوسری طرف ایران بھی بدلہ چکانے کی کی اپنی مقدور بھر کوشش کر رہا ہے۔
Afghanistan seeks speedy development of Iranian port
عراق میں بات پھر بھی سمجھ آتی ہے کہ اگرچہ ایک امریکی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے، مگر کیوں کہ ایک شیعہ حکومت ہے لہذا اس کی مدد اور تعاون کا کچھ نہ کچھ جواز بمشکل گھڑا جا سکتا ہے،مگر افغانستان میں تو ایسی کوئی صورت حال نہیں، اور افغان حکومت کی مدد کرنا سیدھا سیدھا امریکا کی مدد کرنا ہے۔جس قسم کی دشمنی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اس کے مطابق تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایران امریکی کٹھ پتلی حکومت کو ختم کرنے پر ایڑی چوٹی کا زورصرف کر رہا ہوتا، لیکن اگر بوجوہ ایسا ممکن نہیں، تو اس حکومت کے ساتھ کھلا تعاون اور مدد کی کوئی گنجائش ہر گز نہیں نکلتی(یاد رہے مشہور زمانہ امریکی مقولے کے مطابق یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمنوں کے)۔ اور صرف مدد نہیں، بلکہ بھارت کے ذریعے سے مدد، چہ معنی دارد؟۔یاد رہے ٹرمپ کی نئی پالیسی کے مطابق جہاں پاکستان کو کھڈے لائن لگانا ہے، وہیں انڈیا کو افغانستان میں ذیادہ سے ذیادہ رول دینا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ انڈیا کی کوئی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں لگتی، اور پاکستان کسی صورت بھی انڈیا کو راہداری دے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مار سکتا۔چنانچہ انڈیا کو افغانستان تک راہداری دینا، براہ راست امریکی منصوبے میں رنگ بھرنا ہے۔قصہ مختصر یہ کہ ہندوستان کو راہداری دے کر ایران نہ صرف پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے، بلکہ اپنی امریکہ سے دشمنی کا بھی بھانڈا پھوڑ رہا ہے۔ ِ
خدا ہمیں دوست اور دشمن کی پہچان نصیب فرمائے، خصوصا آستین کے سانپوں کے شر سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔