عدلیہ میں باقی سرکاری اداروں سے زیادہ ایماندار لوگ مل سکتے ہیں. کیونک اس ادارے میں سیاستدانوں کی کم دخل اندازی ہوتی ہے. جبک باقی سرکاری اداروں میں سیاستدانوں کے بھڑووں اور دلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے
عدلیہ میں باقی سرکاری اداروں سے زیادہ ایماندار لوگ مل سکتے ہیں. کیونک اس ادارے میں سیاستدانوں کی کم دخل اندازی ہوتی ہے. جبک باقی سرکاری اداروں میں سیاستدانوں کے بھڑووں اور دلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے
جس ...می کو ٹکٹ نہیں ملتا یا اس .... زادے بھڑوے کو عبوری سی ایم یا وزیر نہیں بنایا جاتا ہر وہ ...می نسل فوج کے خلاف بھونکنا شرو کر دیتا نیہ وہ .... زادے ہیں جو اس ملک اور قوم کی خاطر شہید ہونے والوں اور غازیوں کو گالیاں دیتے ہیں فوج کے خلاف بھونک کر اپنی ناکامیوں اور ناکام خاہشوں کا غصہ پوری فوج، پورے ادارے کے خلاف بھونک کر کرتے ہیں لیکن ان .... زادوں نے اگر کسی بھی جنرل یا جنرلز کے کسی غلط قدم کے خلاف بھونکنا ہے ضرور بھونکو گالیاں دو لعنت بھیجو مگر .... زادو پوری فوج کے خلاف بھونک کر کیوں ہمارے شہیدوں غازیوں کا مذاق اڑاتے ہو ...،. زادو جو بھونکنا ہے بھونکو اپنی ٹکٹ کی خاطر جو اپنی .... کے ساتھ برا بھلا کرانا ہے کرا و جس جنرل یا جنرلز سے تمہیں کوئی تکلیف ہے اسکے خلاف بھونکو پوری فوج کے خلاف بھونکنا بند کرو
Lets not forget that what is happening in the country is an example of open and public rigging . Anyone who assist and help these forces during their dirty game is equally responsible for what ever disaster is waiting for the country in future . And don't be too infantile by suggesting that the previous Government has not done anything against these undemocratic forces. The last 5 years of continue sit inns and the implementation of unrest in the country was the direct result of conflict between the civilian Government and the Corrupt mafia . It all started from the Musharraf's trial and his subsequent release under tremendous pressure which end up the Judiciary becoming once again a partner with boots .
Mohakma-e-zaraat is ruining this country.
This noon league was harvested by them and now they are burning the crops.
They did the same with Altaf and the same with taliban.
mahakma-e-zaraat starts one project to ruin pakistan. They then terminate the project and start another one.
The dilemma is awam dont even realize the misadventures of mohakma-e-zaraat and considers them as their best friends.
ڈان ایک ایسا غیر سرکاری اخبار ہے جو کاروباری حضرات، سفارتکاروں اور فوجی افسران کے لیے ناگزیر ہے، اور یہ اپنے بااثر اداریوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے
ذرا تصور کریں آپ نیویارک میں ایک صبح بیدار ہوں اور نیویارک ٹائمز نہ ہو، اخباروں کے سٹال بند ہوں اور ہاکر سڑکوں پر نہ ہوں۔
کچھ ایسا ہی کئی پاکستانیوں کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار ڈان ان کی ناشتے کی میز پر نہیں آ رہا۔
پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے بڑے پیمانے پر ٹی وی چینلوں، اخبارات اور سوشل میڈیا کی سینسرشپ کا سٹیج ترتیب دیا جا رہا ہے۔
بعض صحافیوں، سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے سابق سربراہ نواز شریف کے مطابق میڈیا اور بعض سیاسی جماعتوں کو فوج اور عدلیہ پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ اتحاد چلا رہا ہے۔
فوج اور عدلیہ اس الزام کو مسترد کرتی ہیں۔
تاہم یہ ڈان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جنگ ہے جس نے سب کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لی ہے۔
ڈان ایک ایسا غیر سرکاری اخبار ہے جو کاروباری حضرات، سفارتکاروں اور فوجی افسران کے لیے ناگزیر ہے، اور یہ اپنے بااثر اداریوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
انگریزی اخبار ڈان کو ایک خاص مقام بھی حاصل ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے تقسیم سے قبل اس وقت رکھی تھی جب برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے پاس نو آبادیاتی طاقتوں سے رابطہ کرنے کے لیے کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔
اس وقت سے ڈان کو ایک طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کا اخبار سمجھا جاتا رہا۔
لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ڈان نے پابندی، صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، ہر شہر میں فوجی چھاؤنیوں میں اخبار کی تقیسم پر پابندی، کیبل ٹی وی چینلز پر نشریات کی بندش، اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن میں کمی جیسے واقعات کا سامنا کیا ہے۔
گذشتہ سال صوبہ بلوچستان میں بھی ڈان اخبار کئی ہفتوں تک دستیاب نہیں تھا۔
دوسری جانب میڈیا سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات کو پراسرار نقاب پوش افراد کی جانب سے اغوا، جسمانی تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی بھی صحافی ان افراد کے نام نہیں لیتا لیکن ہر صحافی کو اس بات کا یقین ہے کہ ان افراد کا تعلق فوج کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔
تاہم ڈان نے خود سے فوج کے خلاف شکایات یا اپنے اوپر بیتے واقعات پر کئی ماہ تک خاموشی کے بعد حال ہی میں ایک کاٹ دار اداریہ شائع کیا جس میں کھل کر بات کی گئی تھی۔
یہ اداریہ اس کی اہم اور نواز شریف کی حکومت کے دوران فوج اور سول حکام کے درمیان رنجش کے بارے میں حقیقی رپورٹنگ کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران ڈان کے اس رویے، اور اپنی کہانی کے ذرائع کو تحفظ دینے پر اصرار نے فوج کو برہم کیا جبکہ یہ دنیا بھر میں صحافت کا بنیادی اصول ہے۔
ڈان کے اس اداریے میں لکھا گیا ہے : ’ڈان اور اس کے عملے کے خلاف غلط معلومات کی مہم، توہین اور بہتان تراشی، نفرت انگیزی اور تشدد پر بھڑکانے نے لازم کر دیا کہ بعض معاملات کو ریکارڈ پر لایا جائے‘۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ’ریاست کے کچھ حصے یا ان کے کچھ عناصر‘ آئین میں دی گئی آزادیاں نہیں دے پا رہے ہیں۔
ڈان کا کہنا ہے کہ وہ 2016 سے زیرِ عتاب ہے لیکن اس سب میں ’شدید تیزی‘ رواں سال مئی سے آئی ہے۔
پاکستانی فوج پریس کے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو بارہا مسترد کر چکی ہے
گذشتہ سال اردو کے ایک بڑے اخبار جنگ اور اس سے وابستہ ٹی وی چینل جیو کو دھمکیاں دی گئی اور ایسا ہی مالی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے ملازمین کو تین ماہ تک تنخواہیں ادا نہیں کر سکا۔
ڈان کے برخلاف اس کے سینیئر مدیر بظاہر فوج کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔
ان سے ہٹ کر جو افراد نشانہ بنے وہ سوشل میڈیا بلاگرز ہیں جو اپنے بلاگز میں وہ سب لکھتے ہیں جسے فوج ریاست مخالف پراپیگینڈا قرار دیتی ہے۔
دریں اثنا پاکستانی فوج پریس کے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو بارہا مسترد کر چکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو آزاد اور شفاف کرانے کے لیے پرعزم ہے، تاہم وہ سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کی تصدیق کر چکی ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو اس کی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان کی اپنی ہی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک شدت پسند رہنما کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا ان کی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔
اہل سنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی اب سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ان کی جماعت نے اب نام تبدیل کر لیا ہے اور ان سے وابستہ درجنوں امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
دوسری جانب ایک اور شدت پسند گروپ لشکرِ طیبہ سے وابستہ سینکروں امیدوار نئے انتخابی نام کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
پالیسی میں ایسی تبدیلی کو نہ تو کوئی تسلیم کر رہا ہے اور نہ ہی اس کی توجیح پیش کی جا رہی ہے۔ فوج، عدلیہ اور نگران حکومت کسی نے بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ت معروف خاتون بلاگر گل بخاری کے لاہور میں لاپتہ ہونے کے بعد سے پریس، شدت پسند گروپوں کی کیوں حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور انھیں کیوں تحفظ دیا جا رہا ہے جیسے مسلے پر بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔
معروف خاتون بلاگر گل بخاری کے لاہور میں لاپتہ ہونے کے بعد سے پریس، شدت پسند گروپوں کی کیوں حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور انھیں کیوں تحفظ دیا جا رہا ہے جیسے مسلے پر بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔
انتخابات کے دوران مائیکرومینجمنٹ بھی پراسرار، نا معلوم ہے کہ آیا اسے کون چلا رہا ہے اور یہ کیوں ہو رہا ہے۔
جب تک صحافیوں کو حقائق بیان کرنے پر ہراساں کیا جانا دھمکیاں دینا بند نہیں ہوتا، پاکستانیوں کو ناشتہ کرتے ڈان اخبار پڑھنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔