شیطان کے پجاری، اہل دجّال جو اسرائیل، امریکہ اور یورپ پر قابض ہیں، یہ صرف وحدانیت کے دشمن ہی نہیں بلکہ یہ ہر اس مذہب ابراہیمی کے مخالف ہیں جہاں اللہ کو ربّ مانا جاتا ہے۔
یہ مت بھولیے کہ صلیبی جنگیں مسلّط کرنے والے بھی یہی شیطان تھے جو پہلے عیسائی آبادیوں پر خود حملے کرتے، تاکہ عیسائی مدد کے لیے ان شیطان کے پجاریوں کے پاس آئیں اور پھر ان کی حمایت سے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلّط کی جائیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئر بھی اسی طرح کا شیطان کا پجاری تھا جس نے نائن الیون 2001 کو امریکی عیسائیوں پر حملے کیے، الزام اپنے پالے ہوئے لوگوں پر لگایا اور افغانستان پر شب خون مارنے سے پہلے اس نے باقاعدہ صلیبی جنگ کے آغاز کا اعلان بھی کیا۔ یعنی اس نے مسلمانوں پر جنگ مسلّط کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان پر حملہ ویٹی کن سٹی کے پوپ کے حکم پر نہیں کیا گیا بلکہ جارج ڈبلیو بش جونیر دجّالی کے حکم پر کیا گیا۔ یقیناً اس کے پیچھے دجّالی صہیونیوں کا ہاتھ تھا۔
دو دن پہلے دجّالی ریاست کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو دھمکی دی کہ زیادہ چائنہ چائنہ مت کرو، ورنہ تمہاری 400 ملین ڈالرز کی امداد بند کر دیں گے۔ دھمکی سن کر ڈبلیو ایچ او کی چیخیں نکل گئیں۔ ٹرمپ کو اس لیے بھی برا لگا ہوگا کیوں کہ کسی ڈبلیو ایچ او والے نے دو فرانسیسی سائسندانوں کے نسل پرست اور انسان دشمن بیان پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس میں فرانسیسی گوری چمڑی نے کہا کہ کرونا ویکسین کو افریقیوں پر آزمایا جائے گا۔ افریقیوں کو یہ بات بری لگنی تھی، وہ بولے کہ یہ تو کولونیل مائنڈ سیٹ ہے۔
ہاں تو بات یہ ہے کہ 5، 6 کروڑ کے یورپی ملکوں میں کرونا اتنا پھیل گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوگئی ہیں، اور امریکہ کے اندر بھی ہلاکتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں جب کہ پاکستان اور ہندوستان میں اللہ کے کرم سے امن ہے۔ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی ایران کو ہٹا کر دیکھیں تو ہلاکتیں بہت ہی کم ہیں۔ پاکستان میں اب تک 65 افراد کرونا سے شہید ہوئے ہیں۔ کیا یہ اعداد و شمار دیکھ کر کوئی گھنٹی نہیں بجتی؟
کرونا وائرس کیا غریب ملکوں کے لیے نہیں بنایا گیا ہے؟ افریقی ممالک بھی اب تک اس کی شدت سے محفوظ ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ کرونا ان ملکوں میں عذاب بن کر نازل ہورہا ہے جہاں دجّالی حکومتیں ہیں اور اہل دجّال جان بوجھ کر ان لوگوں کو مار رہے ہیں جو ان کی معیشت پر بوجھ ہیں یا پھر وہ اتنے طاقتور نہیں کہ ان کی دجّالی فورس کا حصہ بن سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل دجّال کرونا وائرس کے ذریعے نائن الیون کی کہانی دہرانا چاہتے ہیں کہ پہلے اپنے شہری مرواؤ اور پھر دوسروں کے۔
ذرا سوچیے کل نہیں تو کچھ سالوں بعد اگر اس سے بھی زیادہ مہلک وائرس مارکیٹ میں آجائے اور اس بار وہ امریکہ اور یورپ کا رخ کرنے کے بجائے ان تمام ملکوں کی ایسی کی تیسی کر دے جن کے وسائل پر اہل دجّال قابض ہونا چاہتے ہوں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوجائیں، پاکستان جیسے ملکوں کی فوج اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کر پائے، تو کون بولے گا کہ یہ بائیولوجیکل حملہ ہے؟
امریکی اور یورپی بولیں گے کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ یہ ہورہا ہے، خود ہم بھی تو کرونا وائرس سے حال ہی میں بھگت کے نکلے ہیں۔
ویسے کتنی عجیب بات ہے۔ چینی، امریکی، یورپی لوگ سائنس اور ریسرچ کے نام پر اتنا خرچ کرتے ہیں، ہزاروں وائرس و بیکٹیریا پر تحقیق کرتے ہیں۔ مگر ان بے شرموں سے اتنا نہیں ہوتا کہ اتنے پیسوں میں سے کچھ پیسے الگ کر کے کوئی ویکسین ہی بنا لیں۔
ویکسین کیوں بنانے لگے؟ انہیں پاگل کتے نے کاٹا ہے؟ انہوں نے تو بائیولوجیکل ہتھیار بنانے ہیں۔ اہل دجاّل، اہل شیطان سے اور کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
یہ مت بھولیے کہ صلیبی جنگیں مسلّط کرنے والے بھی یہی شیطان تھے جو پہلے عیسائی آبادیوں پر خود حملے کرتے، تاکہ عیسائی مدد کے لیے ان شیطان کے پجاریوں کے پاس آئیں اور پھر ان کی حمایت سے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلّط کی جائیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئر بھی اسی طرح کا شیطان کا پجاری تھا جس نے نائن الیون 2001 کو امریکی عیسائیوں پر حملے کیے، الزام اپنے پالے ہوئے لوگوں پر لگایا اور افغانستان پر شب خون مارنے سے پہلے اس نے باقاعدہ صلیبی جنگ کے آغاز کا اعلان بھی کیا۔ یعنی اس نے مسلمانوں پر جنگ مسلّط کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان پر حملہ ویٹی کن سٹی کے پوپ کے حکم پر نہیں کیا گیا بلکہ جارج ڈبلیو بش جونیر دجّالی کے حکم پر کیا گیا۔ یقیناً اس کے پیچھے دجّالی صہیونیوں کا ہاتھ تھا۔
دو دن پہلے دجّالی ریاست کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو دھمکی دی کہ زیادہ چائنہ چائنہ مت کرو، ورنہ تمہاری 400 ملین ڈالرز کی امداد بند کر دیں گے۔ دھمکی سن کر ڈبلیو ایچ او کی چیخیں نکل گئیں۔ ٹرمپ کو اس لیے بھی برا لگا ہوگا کیوں کہ کسی ڈبلیو ایچ او والے نے دو فرانسیسی سائسندانوں کے نسل پرست اور انسان دشمن بیان پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس میں فرانسیسی گوری چمڑی نے کہا کہ کرونا ویکسین کو افریقیوں پر آزمایا جائے گا۔ افریقیوں کو یہ بات بری لگنی تھی، وہ بولے کہ یہ تو کولونیل مائنڈ سیٹ ہے۔
ہاں تو بات یہ ہے کہ 5، 6 کروڑ کے یورپی ملکوں میں کرونا اتنا پھیل گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوگئی ہیں، اور امریکہ کے اندر بھی ہلاکتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں جب کہ پاکستان اور ہندوستان میں اللہ کے کرم سے امن ہے۔ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی ایران کو ہٹا کر دیکھیں تو ہلاکتیں بہت ہی کم ہیں۔ پاکستان میں اب تک 65 افراد کرونا سے شہید ہوئے ہیں۔ کیا یہ اعداد و شمار دیکھ کر کوئی گھنٹی نہیں بجتی؟
کرونا وائرس کیا غریب ملکوں کے لیے نہیں بنایا گیا ہے؟ افریقی ممالک بھی اب تک اس کی شدت سے محفوظ ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ کرونا ان ملکوں میں عذاب بن کر نازل ہورہا ہے جہاں دجّالی حکومتیں ہیں اور اہل دجّال جان بوجھ کر ان لوگوں کو مار رہے ہیں جو ان کی معیشت پر بوجھ ہیں یا پھر وہ اتنے طاقتور نہیں کہ ان کی دجّالی فورس کا حصہ بن سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل دجّال کرونا وائرس کے ذریعے نائن الیون کی کہانی دہرانا چاہتے ہیں کہ پہلے اپنے شہری مرواؤ اور پھر دوسروں کے۔
ذرا سوچیے کل نہیں تو کچھ سالوں بعد اگر اس سے بھی زیادہ مہلک وائرس مارکیٹ میں آجائے اور اس بار وہ امریکہ اور یورپ کا رخ کرنے کے بجائے ان تمام ملکوں کی ایسی کی تیسی کر دے جن کے وسائل پر اہل دجّال قابض ہونا چاہتے ہوں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوجائیں، پاکستان جیسے ملکوں کی فوج اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کر پائے، تو کون بولے گا کہ یہ بائیولوجیکل حملہ ہے؟
امریکی اور یورپی بولیں گے کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ یہ ہورہا ہے، خود ہم بھی تو کرونا وائرس سے حال ہی میں بھگت کے نکلے ہیں۔
ویسے کتنی عجیب بات ہے۔ چینی، امریکی، یورپی لوگ سائنس اور ریسرچ کے نام پر اتنا خرچ کرتے ہیں، ہزاروں وائرس و بیکٹیریا پر تحقیق کرتے ہیں۔ مگر ان بے شرموں سے اتنا نہیں ہوتا کہ اتنے پیسوں میں سے کچھ پیسے الگ کر کے کوئی ویکسین ہی بنا لیں۔
ویکسین کیوں بنانے لگے؟ انہیں پاگل کتے نے کاٹا ہے؟ انہوں نے تو بائیولوجیکل ہتھیار بنانے ہیں۔ اہل دجاّل، اہل شیطان سے اور کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟