
کچھ نوجوان، خواتین اور بچے جو کسی سیاسی رہنما کی باتوں میں آگئے، جذبات میں آکر بہہ گئے ان کا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے: سابق وزیراعظم
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام ندیم ملک لائیو میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور نااہلی کی مدت 5 سال ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں محمد نوازشریف ملک واپس آتے ہیں تو اپنی نااہلی اور سزا کے حوالے سے عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا حالانکہ پاکستان میں اس وقت نوازشریف کیلئے ایک قانون اور عمران خان کیلئے قانون اور ہے۔
https://twitter.com/x/status/1673364541844119553
انہوں نے کہا کہ پاکستان آنے پر انہیں جیل ہی جانا ہو گا لیکن ہائیکورٹ کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس اپیلیں دائر ہیں جن کا انہیں فیصلہ کرنا چاہیے۔ نئے قانون بنانے کی ضرورت ہی پڑتی اگر سپریم کورٹ خود سمجھ لیتا کہ اس نے غلطی کی ہے۔
نوازشریف کی تاحیات نااہلی کیلئے آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت جو تشریح کی گئی وہ غلط تھی، ایسا کس قانون کے تحت ہوا؟ آج اس غلطی کو درست کرنا ضروری ہے۔
عمران خان کے فوجی عدالت میں ٹرائل کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں کسی سیاسی رہنما کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن وہ بھی مشکل کام ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی سیاسی رہنما 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہے تو اس کا پبلک ٹرائل ہونا چاہیے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنمائوں کا پبلک ٹرائل اس لیے بھی ہونا چاہیے تاکہ عوام کے سامنے پتہ چلے کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر ایسے مقدمات سن سکتی ہیں لیکن اس کیلئے شواہد ہونا ضروری ہے۔
https://twitter.com/x/status/1673363620280045568
کچھ نوجوان، خواتین اور بچے جو کسی سیاسی رہنما کی باتوں میں آگئے، جذبات میں آکر بہہ گئے ان کا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ان کی سزائوں پر غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کو عام معافی ملنی چاہیے سوائے ان لوگوں کے جن کے حوالے سے آپ کے پاس واضح ثبوت ہیں کہ وہ کسی پر حملے یا توڑ پھوڑ میں ملوث ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سے لوگ وہاں چلے گئے تھے جو حملوںیا توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث نہیں تھے انہیں سزا نہیں ملنی چاہیے۔