اگر صدر قتل کردے تو۔۔۔

Jugnu786

MPA (400+ posts)
mujahidbrailvicopy2.jpg

لندن میں ہفتہ گزارنے کے بعد پاکستان لوٹا تو قطعی طور پر یہ طے کر بیٹھا تھا کہ۔۔۔ دسمبر کے اس خوشگوار موسم میں اپنے کالموں کو ہلکا پھلکا ہی رکھوں گا۔ کراچی پہنچ کر یہ موقع فراہم بھی ہوگیا کہ خوف و دہشت کے حوالے سے میڈیا کی دن رات کی ہڑا ہڑی کے باوجود۔۔۔ جہاں ایک طرف آرٹس کونسل میں چار روزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس کے چرچے تھے، وہیں ایکسپو سینٹر میں پانچ روزہ کتب میلہ بھی دھوم دھام سے شروع ہوچکا تھا۔ہفتہ آرٹس کونسل میں سارے ملک سے آئے ہوئے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور ان کے ہزاروں پرستاروں کے ساتھ گزرا تو اتوار کی صبح کا آغاز کتاب میلے سے کیا۔یقین جانیں ایکسپو سینٹر کے تین ہالوں میں کتاب خریدنے والوں کا سونامی آیا ہوا تھا۔۔۔ جی ہاں سونامی۔۔۔ کوئی ایسا اسٹال نہ تھا، جہاں باقاعدہ کیش دے کر کتاب خریدنے والوں کا ہجوم نہ ہو۔ سب سے زیادہ خوشگوار حیرت اور خوشی یہ ہوئی کہ اس سونامی میں اکثریت اسکول کالج کے بچے، بچیوں کی تھی۔
عموماً جب اپنے شہر بلکہ ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تو تاکید سے سارے اخبارات اپنے پڑھنے کی میز پر رکھنے کا کہہ جاتا ہوں۔ ایک تو سبب یہی ہے کہ یہ اچھی بری خبر خوشی اور سانحہ اگلے 24 گھنٹے بعد پرانا ہوجاتا ہے جس سے با خبر ہونا بہر حال ذاتی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے ضروری ہوتا ہے۔۔۔ جہاں تک سیاست دوراں کا تعلق ہے تو اس میں برسوں سے وہی ہے چال بے ڈھنگی۔۔۔ والی بات ہے۔
سو ابتداء ہی لکھ بیٹھا ہوں کہ اس بار قطعی ارادہ کرلیا تھا کہ لندن واپسی کے بعد کے دو ایک کالم لندن کے خوشگوار موسم اور وہاں کے پارکوں اور ادیبوں کی محفل آرائی کے بارے میں ہی ہوں گے۔۔۔ مگر۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ مگر اتوار کو حصہ اول پر ہی ایک خبر کی سرخی پر نظر رک گئی۔ اگر صدر قتل کردے تو۔۔۔؟ تفصیلی خبر یوں تھی کہ لاہور ہائیکورٹ میں صدر آصف علی زرداری کے ایک ساتھ دو عہدے رکھنے پر ایک محترم و مکرم جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ: اگر صدر قتل کردے تو۔۔۔ میرا خیال تھا کہ اگلی سطر میں سرکاری وکیل کا سیدھا اور دو ٹوک جواب یہی ہوگا کہ۔۔۔ قتل کوئی بھی کرے چاہے وہ صدر ہو، وزیر اعظم ہو یا گورنر، ہائیکورٹ بلکہ سپریم کورٹ کا جج بلکہ چیف جسٹس ہو قانونی، آئینی اور اخلاقی تقاضہ تو یہ ہے کہ اسے پھانسی کی سزا ہو۔۔۔ مگر سرکاری وکیل کا جج صاحب کے سوال کے جواب میں وہ جواب نہ تھا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ سرکاری وکیل بھلا یہ سوال کرتے بھی کیسے۔۔۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور ایسے ہی منہ پھٹ وکلاء کا انجام ان کے سامنے تھا جو سرکارسے تو گئے ہی، وکالت کے لائسنس تک جیسے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیے گئے۔ نہ کسی عدالت میں شنوائی ہوئی اور نہ ہی ملک کی کسی چھوٹی بڑی باروں کے جرأت و عظمت کے پیکر عہدیداروں میں سے کسی نے ان کے حق میں آواز بلند کی۔ جن میں سے کئی ہمارے ڈاکٹر اعوان کے ہاتھوں ان کی وزارت کے زمانے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے چیک وصول کر چکے تھے۔
تو اے میرے لاہور ہائی کورٹ کے محترم و مکرم جسٹس صاحب! آخر محض صدرآصف علی زرداری ہی کا نام کیوں آپ کی زبان پر بے ساختہ آیا۔۔۔ چلیں تسلیم کہ ماضی کے صدور کا ایسا کردار رہا جس کے پیش نظر آپ یہ کہہ بیٹھے کہ اگر صدر قتل کردے تو۔۔۔ مگر۔۔۔ محترم و مکرم جسٹس صاحب! آپ جس کرسی پر بیٹھے ہیں، شاید یہ مجھے بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ اس کرسی کے تقدس اور پھر انصاف کے ترازو کا یہ تقاضہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ایک لفظ تول کر بولا جائے۔ آخر ایک ہی سانس میں آپ کی زبان پر یہ کیوں نہیں آیا کہ چاہے صدر ہو یا وزیر اعظم جنرل ہو یا جج۔۔۔ اگر وہ قتل کردے تو پھر اس کی وہی سزا ہونی چاہیے جو ایک قاتل کی ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں آپ کی آزاد پاپولر باریں اور بینچیں حق و انصاف کی جو مثالیں قائم کر رہی ہیں اس کی نہ وطن عزیز میں پہلے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ وطن سے باہر پانچ ایک سال تو ہونے کو آرہے ہیں۔ سارے سیاستدان منتخب نمائندے، وزیر ، مشیر، سارے سیویلین بیوروکریٹ، کرپٹ، بد عنوان، چور، ڈاکو اور ساری بینچیں اور باریں اور ان کا بھونپو بنے پاپولر میڈیا کے سرخیل فرشتے دوہری شہریت پر پلاٹ اور پرمٹ لیتے ہیں۔ سیاستدان اور بیورو کریٹ کھڑے کھڑے ہتھکڑیاں ڈال کر جیل کی سلاخوں میں۔۔۔ اور آپ کی عدلیہ اور میڈیا۔۔۔ اس سے آزاد۔ اگر منتخب نمائندے، بیورو کریٹ، سفارتکار دوہری شہریت پر قابل تعزیز ٹھہرتے ہیں تو آخر جج صاحبان اور وکلاء کرام کے لیے یہ اعزاز کیوں؟ آپ ہی کی عدالتوں میں اس بات کی بازگشت سنائی دی گئی تھی کہ سترہ رکنی سپریم کورٹ کی بینچ میں سولہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے حلف اٹھانے کے باوجود اسلام آباد کے پر تعیش سیکٹر میں دو دو پلاٹ لیے ہیں، رہا میڈیا تو اس بارے میں خاموش ہی رہنا چاہتا تھا کہ لکھت پڑھت میں کوئی ثبوت نہیں مگر ان گناہگار آنکھوں اور کانوں نے دیکھا اور سنا کہ انگریزی اخبار ڈان کے چینل پر کثیر الاشاعت اخبار کے ایک مبلغ کالم نویس بھیگی بلی بنے یہ اعتراف کر رہے تھے کہ ان کے اور ان کے بھائی کے اسلام آباد میں پلاٹوں کی قرعہ اندازی میں جو پلاٹ نکلے ہیں وہ محض اتفاقیہ ہیں۔ جی ہاں، کارنرکے دونوں بھائیوں کے کم و بیش ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی مالیت کے قرعہ میں پلاٹ نکلنا محض اتفاقیہ ہے۔ اس پر موصوف کالم نویس کو یہ بھی کہتے سنا کہ یہ ان کا اور ان کے اللہ کا معاملہ ہے۔ (اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا)
یہ لیجیے! کسی اور کو کیا دوش دوں، خود میرا قلم بھی بے قابو ہوگیا آخر ہمارے محترم و مکرم جسٹس صاحب سے ایسا کون سا جملہ سر زد ہوگیا تھا جس پر قلم اتنا بے قابو ہوگیا!
صدر آصف علی زرداری نے بھی تو حد کردی ہے پورے پانچ سال سے صدر بنے بیٹھے ہیں اور مزید پانچ سال صدر رہنے کے لیے ایوان صدر میں شاطرانہ چالوں میں مصروف ہیں۔ بجا فرمایا، پانچ اداروں سے منتخب پانچ سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی اگلے پانچ سال کے لیے صدارت کا خواب دیکھنے والا واجب القتل ہی تو ہے۔

 

punjabi_tha

Councller (250+ posts)
مجھے نھیں پتا تھا کے یھ بھی زرداری کا چمچا ھے۔ بریلوی صاھب جس چیز کا مقدما چل رھا ھو تو اسی چیز کا ھوالا دیا جاے گا نا۔ اس وقت بات صدر کی ھو رھی ھے تو مثال بھی صدر کی ھی دی جاے گی نا کے کسی مودے قصای کی۔
 

Back
Top