Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
یہ بات دھیان میں اکثر لوگوں کے آتی ہو گی کہ اگر گذشتہ انتخابات کے نتائج مختلف ہوتے تو کیا ہوتا۔ ایک لمحے کو فرض کریں کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں عمران خان کی واضح برتری ہوتی اور عمران خان کو قوم اسمبلی میں بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب کر لیا جاتا۔ وزارت عظمی کے سنبھالنے سے اب تک یعنی قریبا ساڑھے تین سال میں کیا کیا واقعات ہوتے اور آج نئے پاکستان کا نقشہ کیسا ہوتا۔
عمران خان حلف اٹھانے کے بعد برسوں سے ناآسودہ شیروانی زیب تن کیئے پردہ اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے اور قوم سے پہلے خطاب میں اپنی شادی کی نوید قوم کو سنا دی جاتی۔ نئے پاکستان کے قیام کی اصل وجہ بتا دی جاتی۔
تمام تر انگلش میڈیم اور سرکاری اسکولوں میں مدرسہ حقانیہ کا نصاب نافذ ہوتا۔ طلباء کو فارغ اوقات میں حربی تربیت بھی جاتی۔چھروں والی بندوقوں اور غلیلوں سے ڈرون گرانے والوں کو تمغہ شجاعت دیا جاتا۔

شیریں مزاری وزیر خارجہ ہوتیں اور بھارت سے کئی جنگیں ہو چکی ہوتیں۔ اکثر اوقات امریکہ کو بھی جنگ کی دھمکی دی جا چکی ہوتی۔
جہانگیر ترین وزیر خزانہ ہوتے او ر ملک میں شوگر ملوں کا تانتا بندھ چکا ہوتا۔ آف شور کمپنیاں قانونی قرار دی جا چکی ہوتیں اور قومی خزانے پر ایچی سن گروپ کا قبضہ ہوتا۔
وزیر اعظم کی صاف گو طبیعت کے پیش نظر قوم سے کوئی راز چھپایا نہ جاتا ۔ ہر تقریر میں قوم کا بتا دیا جاتا کہ ہمارے پاس کتنے ایٹم بم ہیں اور کہاں کہاں رکھے ہیں اور انکی صلاحیت کتنی ہے۔ بم چلانے کا بٹن کیسا ہے اور کس کے پاس اس کو چلانے کا اختیار ہے۔ ایٹم بم چلانے کا مصنوعی مظاہرہ ڈھول کی تھاپ پر ساری قوم کے سامنے متعدد بار کیا جاتا۔

سول ملٹری تعلقات نازک مرحلے پر ہوتے۔ پاک فوج سے کسی بھی بات پر اختلاف کی صوت میں فوج کے خلاف جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا دے دیا ہوتا۔احتجاجی کنٹینر کو قومی یادگار قرار دے دیا جاتا اور اسکی زیارت تمام وزیروں ، مشیروں پر فرض کر دی جاتی۔
نجم سیٹھی ملک بدر کر دئیے جاتے اور وزیر اعظم خود چیئر مین پی سی بی کا قلمدان سنبھال لیتے۔کرکٹ کو قومی کھیل قرار دے دیا جاتا۔ وزیر اعظم شام کو خود نوجوان کھلاڑیوں کو نیٹ پریکٹس کرواتے۔ بانوے کے ورلڈ کپ کے گروپ فوٹوز سے جاوید میانداد، وسیم اکرم، انضمام الحق اور مشتاق احمدکی تصاویر کھرچ دی جاتیں۔
الیکشن کمیشن والے افضل خان الیکشن کمیشن کے سربراہ ہوتے۔ انتخابات میں حکومتی جماعت کی کامیابی کے لیئے ہر ممکن اقدامات کیئے جاتے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں لڑائی مار کٹا ئی کی کھلی اجازت ہوتی۔ اس ہنگامہ پرشور کو بہادری اور آزادی اظہار سے تعبیر کیا جاتا۔

سوشل میڈیا کو ایک وزارت کا درجہ دے دیا جاتا۔معروف ٹوئیٹ کرنے والوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کی جاتی۔سوشل میڈیاپر سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لیئے ایک محکمہ قائم ہوتا ۔ نئی گالیاں ایجاد کرنے والوں کو انعام سے سرفراز کیا جاتا۔
نیب کا ادارہ ختم کردیاجاتااورپرویزخٹک کی سربراہی میں ایک نیا احتساب کمیشن بنادیاجاتااوراس کا نام احباب کمیشن رکھ دیا جاتا۔
عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیئے وزیر اعظم ہر شام دو گھنٹے قوم سے خطاب کرتے اور سب چینل براہ راست اس ریکارڈنگ کو نشر کرنے کے پابند ہوتے۔ البتہ حکومت کے مخالف چینل اور پروگرام زبردستی بند کر دیئے جاتے۔شاہ محمود قریشی کسانوں کے مطالبات جیب میں رکھے ایک منسٹری سے دوسری منسٹری میں اب تک کھجل ہو رہے ہوتے۔
ملک میں بیس ارب درخت لگانے کا قوم سطح پر اعلان کر دیا جاتا۔ مرد و زن بشمول زچہ بچہ اس کا م میں جت چکے ہوتے۔ چھوٹے چھوٹے ٹیوب ویلوں کا افتتاح وزیر اعظم خود کرتے اور ان کو قومی توانائی کے بڑے منصوبے بتایا جاتے۔

حکومتی جلسوں اور اسمبلی کے اجلاسوں میں خواتین کو تحفظ دینے کے لیئے خاردار جنگلے بنا دیئے جاتے۔ یہ خاردار جنگلے اور پنجرے بھاری قیمت پر افغانستان سے برآمد کروائے جاتے۔
وجیہ الدین، اکبر بابر، جاوید پاشمی اور عدنان رندھاوا کو قومی مجرم قرار دے دیا جاتا اور جگہ جگہ انکے پتلے جلائے جاتے۔ڈی جے بٹ کو پاکستان کی موسیقی کا واحد گھرانہ قرار دے دیا جاتا۔کینسر کے ہسپتال جگہ جگہ بن رہے ہوتے اور دیگر بیماریوں کو حکومت کے خلاف سازش قرار دے دیا جاتا۔
علی زیدی اور فیصل واوڈا کراچی کے مشترکہ مئیر ہوتے۔ وزیر اعظم کا کراچی میں قیام بوجوہ انکی رہائش گا ہ پر ہی ہوتا۔

ابتداء میں کابینہ میں ہر ماہ ردو بدل ہوتا لیکن رفتہ رفتہ یہ بات ہر روز تک پہنچ جانی تھی کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ پرفارمنس پر ہو گا اور اس کا فیصلہ نعیم الحق کر یں گے۔
نعیم الحق وزیر ثقافت ہوتے اور بہت سی خواتین کو پاکستان کا سب سے بڑا قومی اعزاز دے چکے ہوتے۔ خواتین کی ترقی کے لیئے وزارت ثقافت خصوصی اقدامات کر رہی ہو تی۔
مندرجہ بالا سب اقدامات خیال ہیں، گمان ہیں، مذاق ہیں، زیب داستان ہیں لیکن اندیشہ اس بات کا ہے ان میں سے بہت سے باتیں خدانخواستہ سچ بھی ہو سکتی تھیں۔
http://www.samaa.tv/urdu/blogs/2016/07/451612/