asadrehman
Chief Minister (5k+ posts)
آج جمعے کی رات ہے۔ اپنی باقی ماندہ ٹیم کی مانند پیر کی صبح سے ہی مجھے اس شام کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ انتظار طویل بھی ہو جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہفتہ شروع نہیں ہوا اور ختم بھی ہو گیا۔ میری ٹیم میں تین لوگ کام کرتے ہیں اور تینوں کو ہی شدت سے ویک اینڈ کا انتظار رہتا ہے۔
یہ آصف ہے جس میں صبر نام کا نہیں، یہ جمعرات کی رات کو ہی شور ڈال دیتا ہے کہ کل جمعہ ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جمعرات کی شام کے انتظار میں زندہ ہے۔ بھئی آرام سے صبر سے ایسی بھی کیا جلدی لیکن یہ اس شہر میں پردیسی ہے اور دوستوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اس لیے یہ جمعرات کی شام سے ہی اپنا بیگ باندھنا شروع ہو جاتا ہے۔ روزگار نے اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچپن کے دوستوں سے دور رہنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ اس کی ماں کو بیماری ہے۔ کونسی بیماری ہے یہ اس نے کبھی بتایا نہیں، وہ کھانستی بہت ہے، عمر بھی ذیادہ ہو گئی ہے اور اکثر بیمار بھی رہتی ہے۔ بہت خوش رہنے آنے والا آصف اکثر ویران آنکھیں لیے سوچتا نظر آتا ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے ڈرتا ہوں مبادہ ان ویرانیوں کی خاموشی مجھے نگل نہ جائے۔ بہت خوش رہنے والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
یہ طاہر ہے، اونچا لمبا قد، سلیقے سے بنے ہوئے بال اور سلائی جیسے مونچھیں۔ باتیں بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ایک سے بات کر رہا ہو تو فوراً دوسرے کو بھی باتوں میں گھسیٹ لے گا، اپنے لیے چائے بنائے گا تو دوسرے کے لیے بھی بنائے گا اور چائے بناتے بناتے چائے کی ایک قسم سے دوسی قسم اور دوسری سے تیسری قسم پہ آتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی پہ بات شروع کر دے گا۔ جمعے والے دن آفس جلد ہی پہنچ جاتا ہے تا کہ شام میں جلدی نکل جائے۔ اس کی شام کی مصروفیات کا کسی کو نہیں پتا۔ اس کا خود کا کہنا ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ رات گئے باہر رہتا ہے اور ہر ہفتے کسی نئے ریستوران کو ڈھونڈنا ان کا مشغلہ ہے۔ کبھی کبھار یہ چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا ہے اور یہ کبھی کبھار مہینے کے آخری دنوں میں آتا ہے۔ کرائے کے مکان میں رہنے والے کو اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد محنت اس کی عادت نہیں فطرت بن چکی ہے۔ اسے کبھی کسی نے خاموش نہیں دیکھا۔ بہت بولنے والے بہت اکیلے ہوتے ہیں،اور اُن کے بہت بولنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے متعلق بولنے کا موقع نہیں دینا چاہتے شاید سامنے والا ان کی تنہائی میں مخل نا ہو جائے۔
توصیف ہم سب سے مختلف ہے۔ ہمیشہ ٹپ ٹاپ سے رہتا ہے۔ اس کی جینز اگرچہ پرانی ہیں اور کئی جگہوں سے گھس بھی چکی ہے لیکن یہ انہیں کو پسند کرتا ہے۔ بقول اس کے یہ نئے دور کا فیشن ہے۔ رنگ برنگی ٹی شرٹس، کبھی زرد، کبھی لال، کبھی دھاریوں والی اور کبھی پرنٹڈ۔ دنیا کا ہر برانڈ اس کی نوکِ زبان پہ ہے۔ زارا سے لیکر لوئی وٹان اور پیرس سے لیکر لندن تک ہر جدید فیشن، اُس کے رنگ ڈھنگ اور جدت طرازی سے اسے واقفیت حاصل ہے۔ کئی طرح کی خوشبوؤں میں بسے توصیف کا ایک شوق نئی نئی فلمیں دیکھنا بھی ہے۔ کام کرتے کرتے یہ لیٹسٹ ہٹ گانے بھی گنگناتا رہتا ہے۔ کبھی کبھار فرمائش پہ گانا بھی گاتا ہے لیکن میں نے اکثر اسے تنہا اپنے آپ سے باتیں کرتا دیکھا ہے۔ اپنے آپ سے باتیں کرنے والے پریشان ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر دم اپنے آپ کو ایسے کاموں میں مصروف رکھتے ہیں جس سے دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم سے ذیادہ بے فکرا اس دور میں کوئی نہیں۔ اس نے اپنی پریشانی کبھی شئیر نہیں کی لیکن میں جانتا ہوں کہ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی کی پریشانی کا سبب کیا ہے۔
اور یہ میں ہوں، یہ سب مجھ سے پرانے اس جگہ کام کرتے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں یہ عام سی نوکری بھی غنیمت ہے۔ میرے لیے یہ عام سی نوکری بھی بہت خاص ہے۔ بھلا اکیلے بندے کا خرچہ ہے بھی کیا۔ مجھے ہر دم مذاق کی عادت ہے، لیکن میں نے کبھی کسی محسوس نہیں ہونے دیا کہ یہ مذاق میں خود کا اڑاتا ہوں۔ سب کے سامنے تو مجھے ویک اینڈ کا شدت سے انتظار رہتا ہے لیکن میں ویک اینڈ پہ آفس سے نکلنے والا آخری بندہ ہوتا ہوں کیونکہ مجھے کبھی ایسی مصروفیت نہیں سوجھی جو میری اداسی کو کم کر سکے۔ اکثر مذاق کرنے والے باتوں باتوں میں اپنا مذاق اڑا کر زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ان کا دل زندگی کی رمق سے عاری ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دھڑکنوں کو الفاظ میں سمو کر کسی کے حوالے کر دیا تھا، اُس کے بعد مجھے سینے کی خالی کوٹھری میں سنسناتی ہوائیں تو سنائی دیتی ہیں لیکن دھڑکن نہیں۔
لیکن کل جمعے کی رات کچھ مختلف تھی۔ میں اپنے کمرے میں جا کر اکیلا بیٹھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے بائیک کو کک لگائی اور خود کو بلامقصد آوارہ گردی پہ ڈال دیا۔ ایسے ہی گھومتے گھوماتے مجھے آصف نظر آ گیا۔ رات کے اس پہر اسے گودام سے نکلتا دیکھ کر میں نے اس کے قریب بائیک روکی تو چند لمحوں کے لیے وہ حیران رہ گیا پھر کھسیانی سی ہنسی ہنس کر میری موجودگی کے متعلق سوال کرنے لگا۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس وقت اپنے شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ چوپال میں چارپائی پہ بیٹھا شہر میں گزارے ہفتے کی روداد سنا سنا کر لوٹ پوٹ ہو رہا ہو گا لیکن وہ میرے سامنے موجود تھا۔ پھر آہستگی سے بولا کہ اس کی ماں کو شوگر ہے، روز روز کی دوائی اور ڈاکٹر کی فیس کو پورا کرنے کے لیے اِس گودام میں ویک اینڈ پہ چوکیداری کرتا ہے،
ہر ہفتے وہ بیگ بند کر کے یہاں آ جاتا ہے اور ویک اینڈ گزار کر واپس دوستوں کے پاس فلیٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اسے اپنے شہر گئے ہوئے ایک سال سے ذیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔وہ کرائے کے پیسے بھی بچا کر اپنی ماں کو بھیج دیتا ہے اور اس کی صحت یابی کے متعلق ہی سوچتا رہتا ہے۔ غربت بھی ایسی بیماری ہے جو ماں باپ سے اولاد کو لگ جاتی ہے۔ بچپن میں ماں، بچے کی بیماری کے لیے پیسے بچاتی رہتی ہے اور بڑھاپے میں اولاد بیمار ماں باپ کے لیے ایک ایک روپیہ جوڑتی رہتی ہے لیکن بیماری اور غربت بھی بھلا کبھی ختم ہوتی ہے۔
(نا مکمل)
مکمل کرنے کو دل نہیں کیا اور لکھتے لکھتے اداسی بھی بہت ہو گئی ہے۔
:(
اسد
یہ آصف ہے جس میں صبر نام کا نہیں، یہ جمعرات کی رات کو ہی شور ڈال دیتا ہے کہ کل جمعہ ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جمعرات کی شام کے انتظار میں زندہ ہے۔ بھئی آرام سے صبر سے ایسی بھی کیا جلدی لیکن یہ اس شہر میں پردیسی ہے اور دوستوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اس لیے یہ جمعرات کی شام سے ہی اپنا بیگ باندھنا شروع ہو جاتا ہے۔ روزگار نے اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچپن کے دوستوں سے دور رہنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ اس کی ماں کو بیماری ہے۔ کونسی بیماری ہے یہ اس نے کبھی بتایا نہیں، وہ کھانستی بہت ہے، عمر بھی ذیادہ ہو گئی ہے اور اکثر بیمار بھی رہتی ہے۔ بہت خوش رہنے آنے والا آصف اکثر ویران آنکھیں لیے سوچتا نظر آتا ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے ڈرتا ہوں مبادہ ان ویرانیوں کی خاموشی مجھے نگل نہ جائے۔ بہت خوش رہنے والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
یہ طاہر ہے، اونچا لمبا قد، سلیقے سے بنے ہوئے بال اور سلائی جیسے مونچھیں۔ باتیں بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ایک سے بات کر رہا ہو تو فوراً دوسرے کو بھی باتوں میں گھسیٹ لے گا، اپنے لیے چائے بنائے گا تو دوسرے کے لیے بھی بنائے گا اور چائے بناتے بناتے چائے کی ایک قسم سے دوسی قسم اور دوسری سے تیسری قسم پہ آتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی پہ بات شروع کر دے گا۔ جمعے والے دن آفس جلد ہی پہنچ جاتا ہے تا کہ شام میں جلدی نکل جائے۔ اس کی شام کی مصروفیات کا کسی کو نہیں پتا۔ اس کا خود کا کہنا ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ رات گئے باہر رہتا ہے اور ہر ہفتے کسی نئے ریستوران کو ڈھونڈنا ان کا مشغلہ ہے۔ کبھی کبھار یہ چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا ہے اور یہ کبھی کبھار مہینے کے آخری دنوں میں آتا ہے۔ کرائے کے مکان میں رہنے والے کو اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد محنت اس کی عادت نہیں فطرت بن چکی ہے۔ اسے کبھی کسی نے خاموش نہیں دیکھا۔ بہت بولنے والے بہت اکیلے ہوتے ہیں،اور اُن کے بہت بولنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے متعلق بولنے کا موقع نہیں دینا چاہتے شاید سامنے والا ان کی تنہائی میں مخل نا ہو جائے۔
توصیف ہم سب سے مختلف ہے۔ ہمیشہ ٹپ ٹاپ سے رہتا ہے۔ اس کی جینز اگرچہ پرانی ہیں اور کئی جگہوں سے گھس بھی چکی ہے لیکن یہ انہیں کو پسند کرتا ہے۔ بقول اس کے یہ نئے دور کا فیشن ہے۔ رنگ برنگی ٹی شرٹس، کبھی زرد، کبھی لال، کبھی دھاریوں والی اور کبھی پرنٹڈ۔ دنیا کا ہر برانڈ اس کی نوکِ زبان پہ ہے۔ زارا سے لیکر لوئی وٹان اور پیرس سے لیکر لندن تک ہر جدید فیشن، اُس کے رنگ ڈھنگ اور جدت طرازی سے اسے واقفیت حاصل ہے۔ کئی طرح کی خوشبوؤں میں بسے توصیف کا ایک شوق نئی نئی فلمیں دیکھنا بھی ہے۔ کام کرتے کرتے یہ لیٹسٹ ہٹ گانے بھی گنگناتا رہتا ہے۔ کبھی کبھار فرمائش پہ گانا بھی گاتا ہے لیکن میں نے اکثر اسے تنہا اپنے آپ سے باتیں کرتا دیکھا ہے۔ اپنے آپ سے باتیں کرنے والے پریشان ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر دم اپنے آپ کو ایسے کاموں میں مصروف رکھتے ہیں جس سے دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم سے ذیادہ بے فکرا اس دور میں کوئی نہیں۔ اس نے اپنی پریشانی کبھی شئیر نہیں کی لیکن میں جانتا ہوں کہ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی کی پریشانی کا سبب کیا ہے۔
اور یہ میں ہوں، یہ سب مجھ سے پرانے اس جگہ کام کرتے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں یہ عام سی نوکری بھی غنیمت ہے۔ میرے لیے یہ عام سی نوکری بھی بہت خاص ہے۔ بھلا اکیلے بندے کا خرچہ ہے بھی کیا۔ مجھے ہر دم مذاق کی عادت ہے، لیکن میں نے کبھی کسی محسوس نہیں ہونے دیا کہ یہ مذاق میں خود کا اڑاتا ہوں۔ سب کے سامنے تو مجھے ویک اینڈ کا شدت سے انتظار رہتا ہے لیکن میں ویک اینڈ پہ آفس سے نکلنے والا آخری بندہ ہوتا ہوں کیونکہ مجھے کبھی ایسی مصروفیت نہیں سوجھی جو میری اداسی کو کم کر سکے۔ اکثر مذاق کرنے والے باتوں باتوں میں اپنا مذاق اڑا کر زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ان کا دل زندگی کی رمق سے عاری ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دھڑکنوں کو الفاظ میں سمو کر کسی کے حوالے کر دیا تھا، اُس کے بعد مجھے سینے کی خالی کوٹھری میں سنسناتی ہوائیں تو سنائی دیتی ہیں لیکن دھڑکن نہیں۔
لیکن کل جمعے کی رات کچھ مختلف تھی۔ میں اپنے کمرے میں جا کر اکیلا بیٹھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے بائیک کو کک لگائی اور خود کو بلامقصد آوارہ گردی پہ ڈال دیا۔ ایسے ہی گھومتے گھوماتے مجھے آصف نظر آ گیا۔ رات کے اس پہر اسے گودام سے نکلتا دیکھ کر میں نے اس کے قریب بائیک روکی تو چند لمحوں کے لیے وہ حیران رہ گیا پھر کھسیانی سی ہنسی ہنس کر میری موجودگی کے متعلق سوال کرنے لگا۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس وقت اپنے شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ چوپال میں چارپائی پہ بیٹھا شہر میں گزارے ہفتے کی روداد سنا سنا کر لوٹ پوٹ ہو رہا ہو گا لیکن وہ میرے سامنے موجود تھا۔ پھر آہستگی سے بولا کہ اس کی ماں کو شوگر ہے، روز روز کی دوائی اور ڈاکٹر کی فیس کو پورا کرنے کے لیے اِس گودام میں ویک اینڈ پہ چوکیداری کرتا ہے،
ہر ہفتے وہ بیگ بند کر کے یہاں آ جاتا ہے اور ویک اینڈ گزار کر واپس دوستوں کے پاس فلیٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اسے اپنے شہر گئے ہوئے ایک سال سے ذیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔وہ کرائے کے پیسے بھی بچا کر اپنی ماں کو بھیج دیتا ہے اور اس کی صحت یابی کے متعلق ہی سوچتا رہتا ہے۔ غربت بھی ایسی بیماری ہے جو ماں باپ سے اولاد کو لگ جاتی ہے۔ بچپن میں ماں، بچے کی بیماری کے لیے پیسے بچاتی رہتی ہے اور بڑھاپے میں اولاد بیمار ماں باپ کے لیے ایک ایک روپیہ جوڑتی رہتی ہے لیکن بیماری اور غربت بھی بھلا کبھی ختم ہوتی ہے۔
(نا مکمل)
مکمل کرنے کو دل نہیں کیا اور لکھتے لکھتے اداسی بھی بہت ہو گئی ہے۔
:(
اسد
Last edited: