حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف مطالبے پر معاہدے کیلئے اقدامات کرنے اور متعدد بار قرضے کی قسط کیلئے معاہدہ اب تک تعطل کا شکار ہے اور معاہدہ اب تک تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آرہا جبکہ معاشی ماہرین کی طرف سے بھی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ماہر معیشت فرحان بخاری نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام دی رپورٹر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے متعدد بار کہا گیا کہ معاہدہ ہونے کے قریب ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اب تک نہیں کہا گیا کہ معاہدہ ہونے والا ہے تو ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں؟ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی جائے تو عوام کی مشکلات میں کمی نہیں آئے گی بلکہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا، بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
فرحان بخاری کا ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے بڑا خدشہ ملک ڈیفالٹ کرنے کا ہے، اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم اب آخری امید ہے لیکن مالی سال ختم ہونے میں بہت کم دن بچے ہیں، مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت پورا سچ نہیں بولتی۔ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے تو حالات بہتر ہو رہے تھے، آئی ایم ایف کی آخری قسط بھی ان کی موجودگی میں آئی جس سے معیشت بہتری کی طرف گئی۔ اسحاق ڈار آئے تو معیشت پھر تباہی کی طرف چلی گئی جو اب تک بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ حکومت معاشی بحالی کا کہے گی تو لوگ سوال کریں گے کہ پھر ہمارے حالات بہتر کیوں نہیں ہو رہے؟
انہوں نے کہا کہ شرح سود بڑھا کر کمر توڑ دی گئی، ملک میں گاڑیوں کا کاروبارتباہ ہو چکا، پہلے مڈل کلاس طبقہ بھی گاڑی قسطوں پر لے لیتا تھا لیکن اب ایسا ناممکن ہو چکا، اتنے شرح سود پر قرضہ لیکر کون گزارا کر سکتا ہے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں، معیشت چلے گی تو ہی ملک کے ایئرپورٹس چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے تو مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی حکومت ریونیو کا ہدف حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن موجودہ بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ ریونیو ہدف رکھا گیا ہے۔ معیشت اگر ایسے ہی سست روی کا شکار رہی تو موجودہ حکومت آئندہ برس ہدف کیسے حاصل کر سکے گی؟