آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گا: معاشی ماہر

ishaqhaas.jpg


حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف مطالبے پر معاہدے کیلئے اقدامات کرنے اور متعدد بار قرضے کی قسط کیلئے معاہدہ اب تک تعطل کا شکار ہے اور معاہدہ اب تک تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آرہا جبکہ معاشی ماہرین کی طرف سے بھی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ماہر معیشت فرحان بخاری نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام دی رپورٹر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے متعدد بار کہا گیا کہ معاہدہ ہونے کے قریب ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1673720844596436992
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اب تک نہیں کہا گیا کہ معاہدہ ہونے والا ہے تو ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں؟ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی جائے تو عوام کی مشکلات میں کمی نہیں آئے گی بلکہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا، بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

فرحان بخاری کا ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے بڑا خدشہ ملک ڈیفالٹ کرنے کا ہے، اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم اب آخری امید ہے لیکن مالی سال ختم ہونے میں بہت کم دن بچے ہیں، مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت پورا سچ نہیں بولتی۔ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے تو حالات بہتر ہو رہے تھے، آئی ایم ایف کی آخری قسط بھی ان کی موجودگی میں آئی جس سے معیشت بہتری کی طرف گئی۔ اسحاق ڈار آئے تو معیشت پھر تباہی کی طرف چلی گئی جو اب تک بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ حکومت معاشی بحالی کا کہے گی تو لوگ سوال کریں گے کہ پھر ہمارے حالات بہتر کیوں نہیں ہو رہے؟

انہوں نے کہا کہ شرح سود بڑھا کر کمر توڑ دی گئی، ملک میں گاڑیوں کا کاروبارتباہ ہو چکا، پہلے مڈل کلاس طبقہ بھی گاڑی قسطوں پر لے لیتا تھا لیکن اب ایسا ناممکن ہو چکا، اتنے شرح سود پر قرضہ لیکر کون گزارا کر سکتا ہے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں، معیشت چلے گی تو ہی ملک کے ایئرپورٹس چلیں گے۔
https://twitter.com/x/status/1673780792634527744
انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے تو مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی حکومت ریونیو کا ہدف حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن موجودہ بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ ریونیو ہدف رکھا گیا ہے۔ معیشت اگر ایسے ہی سست روی کا شکار رہی تو موجودہ حکومت آئندہ برس ہدف کیسے حاصل کر سکے گی؟