تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی مسائل کا شکار ہے, مہنگائی اور دیگر مشکلات سے لڑ رہے ہیں,ایسے میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ریلیف کا کوئی انتظام نہیں,وفاقی وزارت خزانہ نے عالمی مالیاتی ادارہ کے ایگزیکٹیو بورڈ میں قرض پروگرام کی منظوری سے قبل تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کو مشکل قرار دے دیا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو تنخواہ دار طبقے کے لیے ممکنہ ریلیف سے متعلق آپشنز سے آگاہ کیا جاچکا ہے,اب آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا,تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ممکنہ ریلیف دینے کے معاملے پر وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت دیگر متعلقہ ادارے پریشان ہیں کیونکہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر عائد کردہ ٹیکس کی فوری واپسی میں مشکلات درپیش ہیں, 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد غور کیا جا سکتا ہے۔
حکومت تنخواہ دار طبقے کو ریلیف کے لئے کوشاں ہے جس کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کی مشاورت سے ہی ہوگا, اگر آئی ایم ایف کو اعتماد میں لے لیا جاتا ہے تو اس صورت میں ریلیف ممکن ہوسکے گا لیکن اس کے لیے بھی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ہوگی اور ٹیکس واپس ہونے کی صورت میں ایک لاکھ تنخواہ والوں کو سالانہ 15 ہزار روپے کا ریلیف ملنے کا امکان ہے۔
کم تنخواہ والے سلیب کو 40 ارب روپے کا ریلیف دیے جانے کی تیاریاں جاری ہیں,حکومت نے رواں مالی سال سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ کمانے والوں کا انکم ٹیکس 5 فیصد کیا ہے۔ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدن پر انکم ٹیکس 5 فیصد کر دیا گیا ہے.
دوسری جانب وفاقی وزیرخزانہ محموداورنگزیب نے کہا ہے کہ "ملکی برآمدات کو ماہانہ 4 ارب ڈالر تک لے جانا ہوگا ،جو چیزیں 75 سال سے نہیں ہوئیں، اب ہم وہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں"۔