Mojo-jojo
Minister (2k+ posts)
ان کا اور ہمارا جشنِ آزادی
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام
آئندہ برس پاکستان کی سترویں سالگرہ ہےہر قوم تاریخ کے اہم موڑ یاد رکھنے کے لیے یادگاریں تعمیر کرتی ہے۔ ان میں تاریخ ساز شخصیات کے مزارات، اہم واقعات کی یاد میں دلکش پارکس، میوزیم، مونومنٹس اور عوامی و سرکاری استعمالات کی عمارات شامل ہیں۔ واشنگٹن میموریل، ماسکو کا ریڈ اسکوائر، لندن کا ٹریفالگر سکوائر، پیرس کی محرابِ فتح، ڈہاکہ کی یادگارِ شہدا، تہران کا میدانِ ژالے، انقرہ میں اتاترک کا مقبرہ، دلی میں گاندھی جی کی سمادھی، غرض پوری دنیا میں یہاں سے وہاں تک اہرامِ مصر کے دور سے آج تلک ایک سے ایک یادگار موجود ہے۔
لیکن اکیسویں صدی میں کسی بھی قومی واقعہ اور شخصیت کو یاد رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ شاید یہ ہو کہ ایسے منصوبے مکمل کیے جائیں جن سے ریاستی سطوت و سرکاری عزم کا اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا بھی کچھ بھلا ہو۔
اس معاملے میں سب سے بہتر مثال چین ہے۔ وہاں کیمونسٹ انقلاب کی دسویں سالگرہ کے موقع پر بدلا ہوا چین متعارف کرانے کے لیے انیس سو انسٹھ کے دس ماہ میں بیجنگ میں دس نئے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے گئے۔ ان میں تئین آن من سکوائر کا عظیم عوامی ہال، نیا بیجنگ ریلوے سٹیشن، ورکرز سٹیڈیم، نیشنل میوزیم، ملٹری میوزیم، قومیتوں کا ثقافتی محل، قومی زرعی نمائش کا ہال، غیر ملکی مہمانوں کے لیے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس اور دو بڑے ہوٹل شامل تھے۔
اسی طرح جب ملکہِ برطانیہ کی حکمرانی کے پچیس برس مکمل ہوئے تو لندن انڈر گراؤنڈ ریلوے نے عوام الناس کی آمدو رفت میں مزید سہولت کے لیے جوبلی لائن کی تعمیر کا تحفہ دیا۔ نیویارک میں نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاورز کی تباہی کے بعد اگلے چودہ برس میں نہ صرف اس مقام پر آٹھ ایکڑ کا پارک اور میموریل میوزیم تعمیر ہوا بلکہ باون منزلہ چھوٹے ٹاور سے ایک سو چار منزلہ بڑے ٹاور تک سات کمرشل ٹاور مکمل ہوئے۔گو نیا ورلڈ ٹریڈ سنٹر اب دنیا کی سب سے اونچی عمارت تو نہیں البتہ تیسری بلند عمارت ضرور ہے۔
پاکستان بننے کے بعد اگرچہ مینارِ پاکستان، مزارِ قائد اور اسلام آباد کا کنول کی پنکھڑیوں جیسا پاکستان مونومنٹ یادگار قومی سمبل کے طور پر تعمیر ہوئے جو بہرحال ایک اجتماعی جذبے کا اظہار ہے۔ مگر ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں ملک کے متعدد شہروں میں چاغی مونومنٹس اور میزائیل چوک بھی قائم ہوئے اور پہلے سے موجود بیسیوں شاہراہوں کے اصل نام بدل کر انھیں نئی یادگار بنانے کی بھی کوشش ہوئی۔
کسی کو خیال کیوں نہیں آیا کہ قیامِ پاکستان کی سلور جوبلی ملک کے مختلف علاقوں میں سلور جوبلی نئے سپتالوں، درسگاہوں، پارکوں، شاہراہوں اور سستی رہائشی سکیموں کی تکمیل کر کے یا پہلے سے موجود منصوبوں اور اداروں کو اور جدید اور فعال کر کے بھی منائی جاسکتی تھی۔گولڈن جوبلی پر پاکستان کے استحکام و سلامتی کی دعائیں مانگنے، جھنڈیاں لہرانے اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کا سیمیناری اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ممکن تھا کہ عام آدمی سمیت وہ تمام لوگ جنھوں نے اس ملک کے بننے کے بعد مثالی مالی ترقی کی، ان کے چندے سے پاکستانیوں کی فلاح کے پچاس چھوٹے بڑے گولڈن جوبلی منصوبے مکمل کر لیے جاتے۔ فائدہ یہ ہوتا کہ ہر فیضیاب شہری نہ صرف گولڈن جوبلی یاد رکھتا بلکہ بیدار مغز حکمرانوں کو اس صدقہ ِ جاریہ کے بدلے دعائیں بھی دیتا۔
شاید ہم میں سے بہت سوں نے سنا ہو کہ مسلم لیگ کے سرکردہ بانی سر آغا خان سوم نے جب انیس سو چھیالیس میں اپنی اسماعیلی امامت کی ڈائمنڈ جوبلی منائی تو دنیا بھر میں پھیلی اسماعیلی کمیونٹی نے آغا خان کو ہیروں اور سونے میں تولا۔ آغا خان نے یہ پورا وزن فروخت کر کے اسے پیسے میں بدلا اور اس پیسے سے ہنزہ سے جنوبی افریقہ تک اسماعیلی کمیونٹی سنٹرز اور ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی زنجیر قائم کی۔ سابق ریاست ہنزہ میں اگر آج خواندگی کا تناسب پچانوے فیصد سے زائد ہے تو یہ معجزہ انھی ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی دین ہے۔
اگلے برس چودہ اگست کو پاکستان ستر برس کا ہو جائے گا۔ تو کیا اس موقع کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے کچھ ٹھوس یادگاری کام بھی شروع کیے جائیں گے یا علی الصبح اکتیس توپیں داغنے، بابا کے مزار پے پھولوں کی چادر چڑھا کے قومی اتحاد و یکجہتی کے سائیکلو اسٹائیل پیغامات جاری کر کے، جلوس نکالتے ہوئے، قومی پرچم کی فیس پینٹنگ کروا کے ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں کا کورس گاتے گاتے بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکلوں کی گھوں گھوں کے ساتھ ہی سترہویں جشنِ آزادی کا اختتام ہوگا یا قوم کو ستر چھوٹے بڑے پائیدار تحفے بھی ملیں گے ؟
چلیے ستر تحفے نہ سہی، پر یہ تو ممکن ہے کہ ہر سال یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر ایک ایسے تعمیراتی ہدف کا اعلان کیا جائے جو اگلی سالگرہ تک مکمل بھی ہوجائے۔ اگر یہ بھی مشکل ہے تو پھر آسان کیا ہے ؟
BBC URDU
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام

آئندہ برس پاکستان کی سترویں سالگرہ ہےہر قوم تاریخ کے اہم موڑ یاد رکھنے کے لیے یادگاریں تعمیر کرتی ہے۔ ان میں تاریخ ساز شخصیات کے مزارات، اہم واقعات کی یاد میں دلکش پارکس، میوزیم، مونومنٹس اور عوامی و سرکاری استعمالات کی عمارات شامل ہیں۔ واشنگٹن میموریل، ماسکو کا ریڈ اسکوائر، لندن کا ٹریفالگر سکوائر، پیرس کی محرابِ فتح، ڈہاکہ کی یادگارِ شہدا، تہران کا میدانِ ژالے، انقرہ میں اتاترک کا مقبرہ، دلی میں گاندھی جی کی سمادھی، غرض پوری دنیا میں یہاں سے وہاں تک اہرامِ مصر کے دور سے آج تلک ایک سے ایک یادگار موجود ہے۔
لیکن اکیسویں صدی میں کسی بھی قومی واقعہ اور شخصیت کو یاد رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ شاید یہ ہو کہ ایسے منصوبے مکمل کیے جائیں جن سے ریاستی سطوت و سرکاری عزم کا اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا بھی کچھ بھلا ہو۔
اس معاملے میں سب سے بہتر مثال چین ہے۔ وہاں کیمونسٹ انقلاب کی دسویں سالگرہ کے موقع پر بدلا ہوا چین متعارف کرانے کے لیے انیس سو انسٹھ کے دس ماہ میں بیجنگ میں دس نئے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے گئے۔ ان میں تئین آن من سکوائر کا عظیم عوامی ہال، نیا بیجنگ ریلوے سٹیشن، ورکرز سٹیڈیم، نیشنل میوزیم، ملٹری میوزیم، قومیتوں کا ثقافتی محل، قومی زرعی نمائش کا ہال، غیر ملکی مہمانوں کے لیے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس اور دو بڑے ہوٹل شامل تھے۔
اسی طرح جب ملکہِ برطانیہ کی حکمرانی کے پچیس برس مکمل ہوئے تو لندن انڈر گراؤنڈ ریلوے نے عوام الناس کی آمدو رفت میں مزید سہولت کے لیے جوبلی لائن کی تعمیر کا تحفہ دیا۔ نیویارک میں نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاورز کی تباہی کے بعد اگلے چودہ برس میں نہ صرف اس مقام پر آٹھ ایکڑ کا پارک اور میموریل میوزیم تعمیر ہوا بلکہ باون منزلہ چھوٹے ٹاور سے ایک سو چار منزلہ بڑے ٹاور تک سات کمرشل ٹاور مکمل ہوئے۔گو نیا ورلڈ ٹریڈ سنٹر اب دنیا کی سب سے اونچی عمارت تو نہیں البتہ تیسری بلند عمارت ضرور ہے۔
پاکستان بننے کے بعد اگرچہ مینارِ پاکستان، مزارِ قائد اور اسلام آباد کا کنول کی پنکھڑیوں جیسا پاکستان مونومنٹ یادگار قومی سمبل کے طور پر تعمیر ہوئے جو بہرحال ایک اجتماعی جذبے کا اظہار ہے۔ مگر ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں ملک کے متعدد شہروں میں چاغی مونومنٹس اور میزائیل چوک بھی قائم ہوئے اور پہلے سے موجود بیسیوں شاہراہوں کے اصل نام بدل کر انھیں نئی یادگار بنانے کی بھی کوشش ہوئی۔
کسی کو خیال کیوں نہیں آیا کہ قیامِ پاکستان کی سلور جوبلی ملک کے مختلف علاقوں میں سلور جوبلی نئے سپتالوں، درسگاہوں، پارکوں، شاہراہوں اور سستی رہائشی سکیموں کی تکمیل کر کے یا پہلے سے موجود منصوبوں اور اداروں کو اور جدید اور فعال کر کے بھی منائی جاسکتی تھی۔گولڈن جوبلی پر پاکستان کے استحکام و سلامتی کی دعائیں مانگنے، جھنڈیاں لہرانے اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کا سیمیناری اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ممکن تھا کہ عام آدمی سمیت وہ تمام لوگ جنھوں نے اس ملک کے بننے کے بعد مثالی مالی ترقی کی، ان کے چندے سے پاکستانیوں کی فلاح کے پچاس چھوٹے بڑے گولڈن جوبلی منصوبے مکمل کر لیے جاتے۔ فائدہ یہ ہوتا کہ ہر فیضیاب شہری نہ صرف گولڈن جوبلی یاد رکھتا بلکہ بیدار مغز حکمرانوں کو اس صدقہ ِ جاریہ کے بدلے دعائیں بھی دیتا۔
شاید ہم میں سے بہت سوں نے سنا ہو کہ مسلم لیگ کے سرکردہ بانی سر آغا خان سوم نے جب انیس سو چھیالیس میں اپنی اسماعیلی امامت کی ڈائمنڈ جوبلی منائی تو دنیا بھر میں پھیلی اسماعیلی کمیونٹی نے آغا خان کو ہیروں اور سونے میں تولا۔ آغا خان نے یہ پورا وزن فروخت کر کے اسے پیسے میں بدلا اور اس پیسے سے ہنزہ سے جنوبی افریقہ تک اسماعیلی کمیونٹی سنٹرز اور ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی زنجیر قائم کی۔ سابق ریاست ہنزہ میں اگر آج خواندگی کا تناسب پچانوے فیصد سے زائد ہے تو یہ معجزہ انھی ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی دین ہے۔
اگلے برس چودہ اگست کو پاکستان ستر برس کا ہو جائے گا۔ تو کیا اس موقع کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے کچھ ٹھوس یادگاری کام بھی شروع کیے جائیں گے یا علی الصبح اکتیس توپیں داغنے، بابا کے مزار پے پھولوں کی چادر چڑھا کے قومی اتحاد و یکجہتی کے سائیکلو اسٹائیل پیغامات جاری کر کے، جلوس نکالتے ہوئے، قومی پرچم کی فیس پینٹنگ کروا کے ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں کا کورس گاتے گاتے بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکلوں کی گھوں گھوں کے ساتھ ہی سترہویں جشنِ آزادی کا اختتام ہوگا یا قوم کو ستر چھوٹے بڑے پائیدار تحفے بھی ملیں گے ؟
چلیے ستر تحفے نہ سہی، پر یہ تو ممکن ہے کہ ہر سال یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر ایک ایسے تعمیراتی ہدف کا اعلان کیا جائے جو اگلی سالگرہ تک مکمل بھی ہوجائے۔ اگر یہ بھی مشکل ہے تو پھر آسان کیا ہے ؟
BBC URDU
Last edited by a moderator: