Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
سرتاج عزیز کے ساتھ بھارتیوں نے وہی کیا جس کا وہ مستحق تھا وہ اور بات ہے کہ یہ کرتے کرتے پڑوسی اپنا اصلی چہرا دیکھا گئے. لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں یہ ہمارا "پہلا" اور نہ "ہی" اخری تجربہ ہے.
جب لوہار ملک چلائے گا تو یہی ہوگا. ہمارے حکمران سویلین ہو یا چار ستارہ جرنیل سب کے ساتھ دنیا یہیں کرتی آرہی ہے لیکن مجال ہے کہ ہمیں "کچھ" بھی سمجھ آیا ہو اور نہ کھبی آئے گا. وہ پچھلے دو سال سے ہمیں ہر فورم پر بدنام کر رہے ہیں. وہ یہاں نہ اپنے کھلاڑی بیجھتے ہیں اور نا ہی کسی اور ملک بھیجنے دیتے ہیں. ان کا وزیراعظم کسی بھی ملک کا دورہ کرتے وقت پاکستان کو نہیں بھولتا. ہر روز بارڈر پر کوئی نہ کوئی شیلنگ کا واقعہ ہوتا ہے وہ سرحد پار اسٹرائیک کا دعواہ بھی کئی دن کرتے رہے لیکن ہم ہے کے ان سے ملنے کیلئے دل پشوری ہو رہے ہے. آج کوئی جنرل اقتدار میں ہوتا تو بھی یہیں سب* ہونا تھا ان کے کردار بھی ان سے مختلف نہیں.
وہ بھی یہی کا پانی پیتے ہے ان کو بھی دولت اور اقتدار سے اتنا ہی پیار ہے.* آگر یقین نہیں آتا تو سابق ڈکٹیٹر جنرل چوزے کی کتاب "ان دہ لائن آف ڈالر" دیکھئے سو فیصد یقین آجائے گا پچھلے دنوں ایک کالم دیکھا کہ جنرل اصف جنجوعہ صاحب امریکہ کے دورے پر تھے صدر تو درکنار وزیر خارجہ اور داخلہ نے بھی ملنے سے معذرت کرلی. آخر کار ایک دوسرے درجے کے خارجہ امور کے ملازم سے ملاقات نصیب ہوئی. اس نے بھی ہمارے چیف اف سٹاف کو لمبا انتظار کرانے کے بعد اندر بلایا اور حکم جاری کیا کہ مارشل لاء لگا دو. چیف صاحب نے کوشش کی کہ حضرت کو قائل کرسکے کہ مارشل لاء لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن "حکم" ٹلا نہیں اور چیف صاحب مارشل لاء کے انتظامات کرتے ہوئے دل کے دورے سے وفات پا گئے
(جنجوعہ شاید کمزور دل ہوتے ہونگے).
ہماری جی حضوری کے پیچھے صرف ہمارے قرضے نہیں اور بھی کئی وجوہات ہیں لیکن کیا فائدہ بتانے کا. اب تو ایران اور افغانستان انکھیں دکھانے لگے ہیں سرتاج عزیز کے بعد طارق فاطمی صاحب امریکہ میں اپنے جوتے اتروانے پہنچ رہے ہے. سمجھ نہیں آرہا ہمیں امریکہ جیسے بڑے ملک میں ایک ڈھنگ کا ادمی بھی نہیں ملا جو ہماری بات کرسکے. ان "گہری" باتوں کو سمجھنے کیلئے سمندر میں غوطہ خوری کی نہیں بس ساحل سمندر پر پاؤں گیلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ساحل پر 'واک" کرتے ہوئے ساحل کی ریت کی نرمی اور سمندر کی لہروں کی مستی میں سیکھنے کیلئے کئی راز پوشیدہ ہیں بس "سوچ" کی کمی ہے.
بے شرمی بے غیرتی اور بے حیائی کا یہ "دلچسپ" سفر لمبی مدت کیلئے جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ ہمارے "قومی لیڈروں" اور قابل احترام "جرنیلوں" میں کوئی "رہنمائی" کا قابل نہیں. اور جو دعواہ کرتے ہیں کہ ہم بدلے گے ان کے اردگرد "مداریوں" "نقالوں" اور "لگھڑ بگھڑوں" کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہیں کہ ان کی پالیسیاں کیا ہوگی.*قوم کی تقدیر صرف بولنے اور کہنے سے نہیں عمل سے بدلتی ہے.
"پورا" پڑھنے اور سمجھنے کے* بعد کمینٹ کرے* شکریہ*
جب لوہار ملک چلائے گا تو یہی ہوگا. ہمارے حکمران سویلین ہو یا چار ستارہ جرنیل سب کے ساتھ دنیا یہیں کرتی آرہی ہے لیکن مجال ہے کہ ہمیں "کچھ" بھی سمجھ آیا ہو اور نہ کھبی آئے گا. وہ پچھلے دو سال سے ہمیں ہر فورم پر بدنام کر رہے ہیں. وہ یہاں نہ اپنے کھلاڑی بیجھتے ہیں اور نا ہی کسی اور ملک بھیجنے دیتے ہیں. ان کا وزیراعظم کسی بھی ملک کا دورہ کرتے وقت پاکستان کو نہیں بھولتا. ہر روز بارڈر پر کوئی نہ کوئی شیلنگ کا واقعہ ہوتا ہے وہ سرحد پار اسٹرائیک کا دعواہ بھی کئی دن کرتے رہے لیکن ہم ہے کے ان سے ملنے کیلئے دل پشوری ہو رہے ہے. آج کوئی جنرل اقتدار میں ہوتا تو بھی یہیں سب* ہونا تھا ان کے کردار بھی ان سے مختلف نہیں.
وہ بھی یہی کا پانی پیتے ہے ان کو بھی دولت اور اقتدار سے اتنا ہی پیار ہے.* آگر یقین نہیں آتا تو سابق ڈکٹیٹر جنرل چوزے کی کتاب "ان دہ لائن آف ڈالر" دیکھئے سو فیصد یقین آجائے گا پچھلے دنوں ایک کالم دیکھا کہ جنرل اصف جنجوعہ صاحب امریکہ کے دورے پر تھے صدر تو درکنار وزیر خارجہ اور داخلہ نے بھی ملنے سے معذرت کرلی. آخر کار ایک دوسرے درجے کے خارجہ امور کے ملازم سے ملاقات نصیب ہوئی. اس نے بھی ہمارے چیف اف سٹاف کو لمبا انتظار کرانے کے بعد اندر بلایا اور حکم جاری کیا کہ مارشل لاء لگا دو. چیف صاحب نے کوشش کی کہ حضرت کو قائل کرسکے کہ مارشل لاء لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن "حکم" ٹلا نہیں اور چیف صاحب مارشل لاء کے انتظامات کرتے ہوئے دل کے دورے سے وفات پا گئے
(جنجوعہ شاید کمزور دل ہوتے ہونگے).
ہماری جی حضوری کے پیچھے صرف ہمارے قرضے نہیں اور بھی کئی وجوہات ہیں لیکن کیا فائدہ بتانے کا. اب تو ایران اور افغانستان انکھیں دکھانے لگے ہیں سرتاج عزیز کے بعد طارق فاطمی صاحب امریکہ میں اپنے جوتے اتروانے پہنچ رہے ہے. سمجھ نہیں آرہا ہمیں امریکہ جیسے بڑے ملک میں ایک ڈھنگ کا ادمی بھی نہیں ملا جو ہماری بات کرسکے. ان "گہری" باتوں کو سمجھنے کیلئے سمندر میں غوطہ خوری کی نہیں بس ساحل سمندر پر پاؤں گیلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ساحل پر 'واک" کرتے ہوئے ساحل کی ریت کی نرمی اور سمندر کی لہروں کی مستی میں سیکھنے کیلئے کئی راز پوشیدہ ہیں بس "سوچ" کی کمی ہے.
بے شرمی بے غیرتی اور بے حیائی کا یہ "دلچسپ" سفر لمبی مدت کیلئے جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ ہمارے "قومی لیڈروں" اور قابل احترام "جرنیلوں" میں کوئی "رہنمائی" کا قابل نہیں. اور جو دعواہ کرتے ہیں کہ ہم بدلے گے ان کے اردگرد "مداریوں" "نقالوں" اور "لگھڑ بگھڑوں" کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہیں کہ ان کی پالیسیاں کیا ہوگی.*قوم کی تقدیر صرف بولنے اور کہنے سے نہیں عمل سے بدلتی ہے.
"پورا" پڑھنے اور سمجھنے کے* بعد کمینٹ کرے* شکریہ*
Last edited by a moderator: