انگریزی ذریعۂ تعلیم: شیوۂ غلامی
سلیم منصور خالد
بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔
اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دباؤ اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔
اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟
پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘
دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ہائی اسکول، ۱۱۰۳گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔
حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (no permission isrequired from any authority for this purpose)
یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔
بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔
پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔
وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظم نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔
اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔ اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔
سلیم منصور خالد
بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔
اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دباؤ اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔
اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟
پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘
دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ہائی اسکول، ۱۱۰۳گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔
حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (no permission isrequired from any authority for this purpose)
یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔
بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔
پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔
وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظم نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔
اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔ اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔