Bubber Shair
Chief Minister (5k+ posts)
یہ بھیانک ترین واردات انڈیا سے بیک ڈور چینل مذاکرات کے تھرو کی گئی۔ جی ہاں ان مذاکرات میں ملٹری اسٹیبلشمینٹ مشرف دور سے ایکٹیو تھی اور انڈیا کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پنہچنے کیلئے ایسی ایسی شرمناک شرائط ماننے پر بھی رضامندی ظاہر کی گئی جس سے کشمیریوں کی ستر سالہ جدوجہد کو خاک میں ملا دیا گیا۔ پاکستان کا دانشور طبقہ گذشتہ کئی سالوں سے یہ سوچتا آیا ہے کہ جو مسئلہ ستر سال میں کسی سے حل نہ ہوا وہ مشرف نے کیسے حل کرلیا جس پر انڈیا بھی رضامند ہوگیا؟ انڈیا تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا آیا ہے پھر کیا ہوا کہ وہ مشرف کے فارمولے پر رضامند ہوگیا؟
اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ مودی نے جو کشمیر کی حیثیت بدل کر اسے انڈیا کا ایک حصہ بنا دیا ہے اس کے پیچھے وہی مشرفی فارمولہ تھا جس پر مشرف کے جانے کے بعد بھی بات ہوتی رہی اور بالاآخر موجودہ کٹھ پتلی پاکستانی حکومت کو استعمال کرتے ہوے ملٹری اسٹیبلشمینٹ نے انڈیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی اجازت اپنی مکمل رضامندی کے ساتھ دے دی۔ اور بدلے میں جان کی امان پای۔جلد اس خفیہ سودے بازی کے ڈاکومینٹری ثبوت بھی سامنے آجائیں گے اور یہ انڈیا کی طرف سے کیا جاے گا۔ انڈیا سے خفیہ مذاکرات کا کوی فائدہ نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ ہی آئیندہ ہوگا بلکہ موجودہ دھشت گردی کی اچانک لہر کے بعد اسٹبلشمینٹ کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے اگر وہ واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں
قارعین کو یاد ہوگا کہ شاہ محمود کے ایک انٹرویو کے دوران عوامی نبض کو ٹٹولنے کیلئے ایک عدد پلانٹڈ سوال رکھا گیا تھا جس کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ تین سو ستر کا قانون ختم کرنا انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ سخت عوامی ری ایکشن کے بعد استیبلشمینٹ نے دوبارہ اس سودے بازی یا معاہدے پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔
شاہ محمود کی اس بات سے اندازہ کرنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ مودی جو کچھ بھی کررہا ہے پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کی رضامندی سے کررہا ہے۔ عمران خان نے اس مسئلے پر جو سٹینڈ لیا ہے وہ اسٹیبلشمینٹ کے خفیہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے جس سے شک گزرتا ہے کہ ایسا کوی معاہدہ عمران خان کے علم میں لاے بغیر ہی طے پاگیا تھا۔
ایک اور اہم بات یہ کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی پارلیمینٹ میں ہو کا عالم طاری تھا اور کوی بات کرنے کو تیار نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پابندی سول حکومت کا کام نہیں اور نہ ہی عمران حکومت کی اتنی حیثیت ہے کہ وہ تمام آٹھ سو اراکین اسمبلی کے منہ بند کروا سکتی اور کوی ایک ممبر بھی اس موضوع پر منہ نہ کھولتا یہ خاموشی تو کسی اور ہی طاقت کی تلقین کا نتیجہ تھی۔
انڈیا کے سامنے اس قدر چاپلوسی کا مظاہرہ کرنا اور پاکستانی علاقے اس کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کو انڈیا کا حصہ مان کر اس کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دینا پھر تمام عوامی نمائیندوں کو اس موضوع پر بات کرنے سے روک دینا بتا رہا ہے کہ کشمیر پر انڈیا کے اٹھاے گئے اقدامات دراصل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کی رضامندی سے اٹھاے گئے ہیں۔
اسٹیبلشمینٹ کے جو بڑے بڑے مہرے ہیں ان کے اپنے بزنس امریکہ اور انڈیا سے جڑے ہوے ہیں اوربہت سارے مالی مفادات و ضروریات کی وجہ سے انہوں نے کشمیر دشمنی کا ثبوت دیتے ہوے یہ گھناونا جرم کیا ہے
تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور پاکستانی عوام ان کو پکڑ پکڑ کر پھانسیوں پر لٹکائیں گے
کشمیر کا سودا انڈیا کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے ذریعے ہوا ہے.اور پاکستانی عوام اس کو پاوں کی ٹھوکر سے نامنظور کرتی ہے
اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ مودی نے جو کشمیر کی حیثیت بدل کر اسے انڈیا کا ایک حصہ بنا دیا ہے اس کے پیچھے وہی مشرفی فارمولہ تھا جس پر مشرف کے جانے کے بعد بھی بات ہوتی رہی اور بالاآخر موجودہ کٹھ پتلی پاکستانی حکومت کو استعمال کرتے ہوے ملٹری اسٹیبلشمینٹ نے انڈیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی اجازت اپنی مکمل رضامندی کے ساتھ دے دی۔ اور بدلے میں جان کی امان پای۔جلد اس خفیہ سودے بازی کے ڈاکومینٹری ثبوت بھی سامنے آجائیں گے اور یہ انڈیا کی طرف سے کیا جاے گا۔ انڈیا سے خفیہ مذاکرات کا کوی فائدہ نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ ہی آئیندہ ہوگا بلکہ موجودہ دھشت گردی کی اچانک لہر کے بعد اسٹبلشمینٹ کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے اگر وہ واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں
قارعین کو یاد ہوگا کہ شاہ محمود کے ایک انٹرویو کے دوران عوامی نبض کو ٹٹولنے کیلئے ایک عدد پلانٹڈ سوال رکھا گیا تھا جس کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ تین سو ستر کا قانون ختم کرنا انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ سخت عوامی ری ایکشن کے بعد استیبلشمینٹ نے دوبارہ اس سودے بازی یا معاہدے پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔
شاہ محمود کی اس بات سے اندازہ کرنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ مودی جو کچھ بھی کررہا ہے پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کی رضامندی سے کررہا ہے۔ عمران خان نے اس مسئلے پر جو سٹینڈ لیا ہے وہ اسٹیبلشمینٹ کے خفیہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے جس سے شک گزرتا ہے کہ ایسا کوی معاہدہ عمران خان کے علم میں لاے بغیر ہی طے پاگیا تھا۔
ایک اور اہم بات یہ کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی پارلیمینٹ میں ہو کا عالم طاری تھا اور کوی بات کرنے کو تیار نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پابندی سول حکومت کا کام نہیں اور نہ ہی عمران حکومت کی اتنی حیثیت ہے کہ وہ تمام آٹھ سو اراکین اسمبلی کے منہ بند کروا سکتی اور کوی ایک ممبر بھی اس موضوع پر منہ نہ کھولتا یہ خاموشی تو کسی اور ہی طاقت کی تلقین کا نتیجہ تھی۔
انڈیا کے سامنے اس قدر چاپلوسی کا مظاہرہ کرنا اور پاکستانی علاقے اس کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کو انڈیا کا حصہ مان کر اس کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دینا پھر تمام عوامی نمائیندوں کو اس موضوع پر بات کرنے سے روک دینا بتا رہا ہے کہ کشمیر پر انڈیا کے اٹھاے گئے اقدامات دراصل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کی رضامندی سے اٹھاے گئے ہیں۔
اسٹیبلشمینٹ کے جو بڑے بڑے مہرے ہیں ان کے اپنے بزنس امریکہ اور انڈیا سے جڑے ہوے ہیں اوربہت سارے مالی مفادات و ضروریات کی وجہ سے انہوں نے کشمیر دشمنی کا ثبوت دیتے ہوے یہ گھناونا جرم کیا ہے
تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور پاکستانی عوام ان کو پکڑ پکڑ کر پھانسیوں پر لٹکائیں گے
کشمیر کا سودا انڈیا کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے ذریعے ہوا ہے.اور پاکستانی عوام اس کو پاوں کی ٹھوکر سے نامنظور کرتی ہے
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2016/07/5784996336e88.jpg