atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
انڈیا: 'آر ایس ایس کے سکولوں میں عدم رواداری کا سبق'
انڈيا میں اس وقت سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی نظریات کی حامل جماعت بی جے پی اقتدار میں ہے
انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کی حکومت نے سخت گير ہندو تنظیم آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ سکولوں میں متنازع نصاب پڑھانے پر اعتراض کرتے ہوئے سکولوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
حکومت کے مطابق آر ایس ایس کے ماتحت سکولوں میں عدم رواداری پر مبنی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔
حکومت نے مذہبی عدم برداشت کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ریاست کے ایسے 125 سکولوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
آر ایس ایس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس کے ماتحت سکولوں کو نشانہ بنانے کے بجائے تیزی سے بڑھتے ہوئے مدارس اور عیسائی مشنری کے تحت چلنے والے سکولوں پر لگام لگانی چاہیے۔
مغربی بنگآل کی حکومت کا کہنا ہے کہ جن سکولوں میں مذہبی عدم برداشت اور نفرت پر مبنی نصاب پا یا گیا ان کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
آر ایس ایس کے سکولوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہیںآر ایس ایس کے سکولوں سے نصاب کی فہرست محکمہ تعلیم کے حوالے کرنے کو کہا گيا ہے تاکہ اس کی جائزہ لیا جا سکے۔
حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن اسمبلی مانس مکھرجی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے اس معاملے میں کارروائی کی۔
جن سکولوں کو نوٹس بھیجا گیا ہے، ان میں سے بیشتر كوچ بہار، شمالی دیناج پور، نادیہ اور مغرب مدنا پور جیسے اضلاع کے دیہی علاقوں میں چل رہے ہیں۔
ریاست کے وزیر تعلیم پارتھ چٹرجی کہتے ہیں: 'ہم نے ایسے سکولوں سے اپنا نصاب بھیجنے کو کہا ہے تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ قصوروار پائے جانے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔'
وزير تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیم کے نام پر مذہبی عدم برداشت کو فروغ دینے والی سرگرمیاں قطعی طور پر برداشت نہیں کی جائیں گی۔
بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس معاملے پر حکومت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے
حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے سکولوں کو سرکاری نصاب پر عمل کرنا لازمی ہے۔
اس مسئلے کو اجاگر کرنے والے سی پی ایم رہنما مانس مکھرجی کہتے ہیں: 'ریاست میں ایسے سکولوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں نے حکومت سے ایسے اسکولوں کی شناخت کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کی اپیل کی ہے۔'
لیکن آر ایس ایس کے رہنما ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تنظیم کے ترجمان جش بوس کہتے ہیں: 'پہلے ریاست کی بایاں محاذ والی حکومت نے بھی ان سکولوں کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ترنمول کانگریس کی حکومت بھی اسی راہ پر چل رہی ہے۔ یہ حکومت بنگال کو بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔'
ریاست مغربی بنگال میں مدرسے بھی کافی بڑي تعداد میں پائے جاتے ہیں
آر ایس ایس کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی حکومت کے اس رویے پر تنقید کی ہے۔
بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کا کہنا ہے: 'حکومت ان سکولوں کو نوٹس کس طرح بھیج سکتی ہے؟ تمام سکول حکومت کی اجازت سے ہی چل رہے ہیں۔ دراصل، حکومت ریاست میں آر ایس ایس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔'
بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس معاملے پر حکومت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
بی جے پی کے رہنما گھوش کہتے ہیں: 'آر ایس ایس کے سکولوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کو مدرسوں اور مشنری سکولوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔'
http://www.bbc.com/urdu/regional-39315409

انڈيا میں اس وقت سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی نظریات کی حامل جماعت بی جے پی اقتدار میں ہے
انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کی حکومت نے سخت گير ہندو تنظیم آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ سکولوں میں متنازع نصاب پڑھانے پر اعتراض کرتے ہوئے سکولوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
حکومت کے مطابق آر ایس ایس کے ماتحت سکولوں میں عدم رواداری پر مبنی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔
حکومت نے مذہبی عدم برداشت کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ریاست کے ایسے 125 سکولوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
آر ایس ایس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس کے ماتحت سکولوں کو نشانہ بنانے کے بجائے تیزی سے بڑھتے ہوئے مدارس اور عیسائی مشنری کے تحت چلنے والے سکولوں پر لگام لگانی چاہیے۔
مغربی بنگآل کی حکومت کا کہنا ہے کہ جن سکولوں میں مذہبی عدم برداشت اور نفرت پر مبنی نصاب پا یا گیا ان کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

آر ایس ایس کے سکولوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہیںآر ایس ایس کے سکولوں سے نصاب کی فہرست محکمہ تعلیم کے حوالے کرنے کو کہا گيا ہے تاکہ اس کی جائزہ لیا جا سکے۔
حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن اسمبلی مانس مکھرجی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے اس معاملے میں کارروائی کی۔
جن سکولوں کو نوٹس بھیجا گیا ہے، ان میں سے بیشتر كوچ بہار، شمالی دیناج پور، نادیہ اور مغرب مدنا پور جیسے اضلاع کے دیہی علاقوں میں چل رہے ہیں۔
ریاست کے وزیر تعلیم پارتھ چٹرجی کہتے ہیں: 'ہم نے ایسے سکولوں سے اپنا نصاب بھیجنے کو کہا ہے تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ قصوروار پائے جانے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔'
وزير تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیم کے نام پر مذہبی عدم برداشت کو فروغ دینے والی سرگرمیاں قطعی طور پر برداشت نہیں کی جائیں گی۔

بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس معاملے پر حکومت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے
حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے سکولوں کو سرکاری نصاب پر عمل کرنا لازمی ہے۔
اس مسئلے کو اجاگر کرنے والے سی پی ایم رہنما مانس مکھرجی کہتے ہیں: 'ریاست میں ایسے سکولوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں نے حکومت سے ایسے اسکولوں کی شناخت کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کی اپیل کی ہے۔'
لیکن آر ایس ایس کے رہنما ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تنظیم کے ترجمان جش بوس کہتے ہیں: 'پہلے ریاست کی بایاں محاذ والی حکومت نے بھی ان سکولوں کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ترنمول کانگریس کی حکومت بھی اسی راہ پر چل رہی ہے۔ یہ حکومت بنگال کو بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔'

ریاست مغربی بنگال میں مدرسے بھی کافی بڑي تعداد میں پائے جاتے ہیں
آر ایس ایس کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی حکومت کے اس رویے پر تنقید کی ہے۔
بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کا کہنا ہے: 'حکومت ان سکولوں کو نوٹس کس طرح بھیج سکتی ہے؟ تمام سکول حکومت کی اجازت سے ہی چل رہے ہیں۔ دراصل، حکومت ریاست میں آر ایس ایس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔'
بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس معاملے پر حکومت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
بی جے پی کے رہنما گھوش کہتے ہیں: 'آر ایس ایس کے سکولوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کو مدرسوں اور مشنری سکولوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔'
http://www.bbc.com/urdu/regional-39315409