دیکھا جاۓ تو پاکستان میں انتخابی سیاست کا راج ہی چلتا ہے .بھٹو صا�*ب شاید بہت خوش قسمت تھے جو انھیں سیاسی خلاء پورا کرنے کا موقع ملا اور عوام میں ان کی انقلابی سیاست نے پزیرائی �*اصل کی . پیپلز پارٹی پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوے کامیاب ہو گئی تھی . اس کے بعد پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کامیاب نہ ہو سکی . جہاں جہاں لوگوں نے اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کا دامن تھام لیا تو پھر ڈکٹیٹر شپ ہو یا انقلاب ہو وہاں لوگوں کی راۓ تبدیل نہ ہو سکی اور روایتی سیاسی جماعتیں ہی کامیاب ہوتی رہیں دیکھا جاۓ تو پچھلے تین الیکشن ایک ہی پیٹرن پر ہوتے اۓ ہیں
مسلم لیگ (قاف ہو یا نون) یا پیپلز پارٹی نتیجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا. اتنا سا فرق پڑا کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی �*کومت تھی وہ وہاں سے مظبوط تر ہو گئی جہاں �*کومت نہیں تھی وہاں کمزور تر ہوتی چلی گئی . ت�*ریک انصاف بھی تین چار پارٹیوں کو ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب رہی لیکن الیکشن کے نتیجے میں انتخابی سیاست کا پلڑا ہی بھاری رہا اور انقلابی سیاست ناکام ہوتی دکھائی دی
پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام کی نظر اپنے �*لقے کے امیدوار پر ہی ہوتی ہے جس سے وہ اپنے کام نکلوا سکیں . یہ چوہدرانہ نظام بے �*د پرانا نظام ہے جہاں پرانے زمانے میں چوہدری منتخب ہوتا تھا اب �*لقے کا ایم این اے یا ایم پی اے وہ کام کرتا ہے اس لیے روایتی لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ لسانی تقسیم اور صوبائیت کی بنیاد پر بھی کچھ علاقے کی جماعتوں کا دوسرے علاقے میں سیاست کرنا نا ممکن ہوتا ہے اس لیے پوری قوم کی مختلف گروہوں میں تقسیم کی بنیاد پر انقلابی سیاست کا کامیاب ہونا نا ممکن ہے
ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگ اپنی برادری کے بندے کو چھوڑ کر یا ایک علاقائی سیاسی گرو کو چھوڑ کر کسی اور کو کامیاب کروائیں . مشرف دور میں بھی اس کی انقلابی قاف لیگ پورا پاکستان جیتنے میں ناکام رہی ، اسی طر�* بی بی کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی سادہ اکثریت �*اصل نہ کر سکی اور پچھلے الیکشن میں پوری لہر ہونے کے باوجود اور قاف لیگ کا ووٹ اپنے اندر ضم کرنے کے ساتھ ساتھ دھاندلی کے باوجود نون لیگ کو سادہ اکثریت نہیں مل سکی تھی اس کی وجہ صرف و صرف انتخابی سیاست کا کامیاب ہونا ہے صرف و صرف تگڑے امیدوار ہی پارٹیوں کو کامیاب کروا سکتے ہیں اور ایک ہی پارٹی کے پاس سارے تگڑے امیدوار ہوں ایسا نا ممکن ہے
آئندہ انتخابات میں بھی روایتی سیاست ہی کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے اگر روایتی امیدواروں کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوے اگلے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو کوئی بھی پارٹی ایک تہائی اکثریت چھوتی نظر نہیں آتی ویسے بھی الیکشن کا سکوپ صرف سنٹرل پنجاب اور ساوتھ پنجاب تک ہی م�*دود ہو کر رہ گیا ہے باقی سندھ اور بلوچستان میں باہر کی پارٹیوں کا کوئی سکوپ نہیں اسی طر�* اپر پنجاب اور جی ٹی رود نون لیگ کا گڑھ بن چکا ہے کے پی کے میں سیٹوں کی تعداد اتنی نہیں جو کوئی فیصلہ کن بات ہو سکے اس لیے اگلے انتخابات کے بعد �*کومت ایک سے زیادہ پارٹیوں کی ہی بنتی نظر آتی ہے
مسلم لیگ (قاف ہو یا نون) یا پیپلز پارٹی نتیجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا. اتنا سا فرق پڑا کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی �*کومت تھی وہ وہاں سے مظبوط تر ہو گئی جہاں �*کومت نہیں تھی وہاں کمزور تر ہوتی چلی گئی . ت�*ریک انصاف بھی تین چار پارٹیوں کو ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب رہی لیکن الیکشن کے نتیجے میں انتخابی سیاست کا پلڑا ہی بھاری رہا اور انقلابی سیاست ناکام ہوتی دکھائی دی
پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام کی نظر اپنے �*لقے کے امیدوار پر ہی ہوتی ہے جس سے وہ اپنے کام نکلوا سکیں . یہ چوہدرانہ نظام بے �*د پرانا نظام ہے جہاں پرانے زمانے میں چوہدری منتخب ہوتا تھا اب �*لقے کا ایم این اے یا ایم پی اے وہ کام کرتا ہے اس لیے روایتی لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ لسانی تقسیم اور صوبائیت کی بنیاد پر بھی کچھ علاقے کی جماعتوں کا دوسرے علاقے میں سیاست کرنا نا ممکن ہوتا ہے اس لیے پوری قوم کی مختلف گروہوں میں تقسیم کی بنیاد پر انقلابی سیاست کا کامیاب ہونا نا ممکن ہے
ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگ اپنی برادری کے بندے کو چھوڑ کر یا ایک علاقائی سیاسی گرو کو چھوڑ کر کسی اور کو کامیاب کروائیں . مشرف دور میں بھی اس کی انقلابی قاف لیگ پورا پاکستان جیتنے میں ناکام رہی ، اسی طر�* بی بی کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی سادہ اکثریت �*اصل نہ کر سکی اور پچھلے الیکشن میں پوری لہر ہونے کے باوجود اور قاف لیگ کا ووٹ اپنے اندر ضم کرنے کے ساتھ ساتھ دھاندلی کے باوجود نون لیگ کو سادہ اکثریت نہیں مل سکی تھی اس کی وجہ صرف و صرف انتخابی سیاست کا کامیاب ہونا ہے صرف و صرف تگڑے امیدوار ہی پارٹیوں کو کامیاب کروا سکتے ہیں اور ایک ہی پارٹی کے پاس سارے تگڑے امیدوار ہوں ایسا نا ممکن ہے
آئندہ انتخابات میں بھی روایتی سیاست ہی کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے اگر روایتی امیدواروں کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوے اگلے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو کوئی بھی پارٹی ایک تہائی اکثریت چھوتی نظر نہیں آتی ویسے بھی الیکشن کا سکوپ صرف سنٹرل پنجاب اور ساوتھ پنجاب تک ہی م�*دود ہو کر رہ گیا ہے باقی سندھ اور بلوچستان میں باہر کی پارٹیوں کا کوئی سکوپ نہیں اسی طر�* اپر پنجاب اور جی ٹی رود نون لیگ کا گڑھ بن چکا ہے کے پی کے میں سیٹوں کی تعداد اتنی نہیں جو کوئی فیصلہ کن بات ہو سکے اس لیے اگلے انتخابات کے بعد �*کومت ایک سے زیادہ پارٹیوں کی ہی بنتی نظر آتی ہے