انصاف کو ترستی قوم
حکومتیں کفر پر تو چلائی جا سکتی ہیں مگر ناانصافی اور ظلم پر نہیں۔
( سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ)
کل سے جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔چاہیئے تو یہ تھاکہ اس رپورٹ کو عدلیہ اپنے رجسٹرار آفس کے زریعے عوام الناس کے لیئے شایع کرتی مگر رات کے اندھیرے میں اس رپورٹ کو وزیر اعظم ہاؤس اور وہاں سے ایک غدار میڈیا گروپ کو پراپیگنڈہ کے لیئے لیک کیا گیا۔
تاکہ خان اور اس کی پارٹی کو جی بھر کر گندا کیا جا سکے جو کہ ان شریف برادران کا پرانا ہتھیار ہے
(کہ اپنے مخالفین کی جی بھر کر بکاؤصحافیوں اور میڈیا سے کردار کشی کرواؤ)
قوم خواہ مخواہ اس جوڈیشیل کمیشن سے توقعات وابستہ کیئے بیٹھی تھی۔یہ عدلیہ اس قوم کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ اشرافیہ کبھی بھی اس ملک میں انصاف کا بول بالااور اس استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں چاہے گی۔کیونکہ اسی استحصالی نظام سے ان ججوں کا مال پانی لگا ہوا ہے۔
کیا ہماری کورٹس میں تاریخ پر تاریخیں نہیں دی جاتیں۔ مقدمات ایک ایک دو دو نسلوں تک چلتے ہیں مگر انصاف ندا رد۔
اسی لیئے دیہات میں آج بھی انصاف لینے کی بجائے اپنے مخالف کو پھڑکا دینے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ معاملہ کورٹ میں جا کر لٹک جائے گا۔
جن دہشت گردوں کو فوج نے پکڑ کر عدالت کے حوالے کیا ان کو ان ججوں نے رہا کر دیا۔ فوجیوں نے تنگ آکر نواز شریف سے زبردستی فوجی عدالتیں بنوائیں مگر ان ججوں نے اسے اپنی توہین سمجھ کر اسے سرد خانے میں ڈال دیا۔
زرداری کی کرپشن ہو یا ماڈل ایان علی کی رہائی، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر 14 عام پاکستانیوں کی پولیس کے ہاتھوں شہادت ہو یا کپتان کا انتخابی عمل میں دھاندلی کے لیئے انصاف کا مانگنا ان ججوں نے ہمیشہ ظالم استحصالی اشرافیہ کا ساتھ دیا ہے۔
شاید ابھی یہ قوم انصاف کے لیئے مزید ترسے یا ساری قوم اس ظلم پر مبنی نظام کو گرانے کے لیئے اکٹھی نکلے۔ورنہ خدا زیادہ دیر اپنی دھرتی پر ظلم برداشت نہیں کرتا۔
وی آئی پی مولوی
( سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ)
کل سے جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔چاہیئے تو یہ تھاکہ اس رپورٹ کو عدلیہ اپنے رجسٹرار آفس کے زریعے عوام الناس کے لیئے شایع کرتی مگر رات کے اندھیرے میں اس رپورٹ کو وزیر اعظم ہاؤس اور وہاں سے ایک غدار میڈیا گروپ کو پراپیگنڈہ کے لیئے لیک کیا گیا۔
تاکہ خان اور اس کی پارٹی کو جی بھر کر گندا کیا جا سکے جو کہ ان شریف برادران کا پرانا ہتھیار ہے
(کہ اپنے مخالفین کی جی بھر کر بکاؤصحافیوں اور میڈیا سے کردار کشی کرواؤ)
قوم خواہ مخواہ اس جوڈیشیل کمیشن سے توقعات وابستہ کیئے بیٹھی تھی۔یہ عدلیہ اس قوم کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ اشرافیہ کبھی بھی اس ملک میں انصاف کا بول بالااور اس استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں چاہے گی۔کیونکہ اسی استحصالی نظام سے ان ججوں کا مال پانی لگا ہوا ہے۔
کیا ہماری کورٹس میں تاریخ پر تاریخیں نہیں دی جاتیں۔ مقدمات ایک ایک دو دو نسلوں تک چلتے ہیں مگر انصاف ندا رد۔
اسی لیئے دیہات میں آج بھی انصاف لینے کی بجائے اپنے مخالف کو پھڑکا دینے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ معاملہ کورٹ میں جا کر لٹک جائے گا۔
جن دہشت گردوں کو فوج نے پکڑ کر عدالت کے حوالے کیا ان کو ان ججوں نے رہا کر دیا۔ فوجیوں نے تنگ آکر نواز شریف سے زبردستی فوجی عدالتیں بنوائیں مگر ان ججوں نے اسے اپنی توہین سمجھ کر اسے سرد خانے میں ڈال دیا۔
زرداری کی کرپشن ہو یا ماڈل ایان علی کی رہائی، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر 14 عام پاکستانیوں کی پولیس کے ہاتھوں شہادت ہو یا کپتان کا انتخابی عمل میں دھاندلی کے لیئے انصاف کا مانگنا ان ججوں نے ہمیشہ ظالم استحصالی اشرافیہ کا ساتھ دیا ہے۔
شاید ابھی یہ قوم انصاف کے لیئے مزید ترسے یا ساری قوم اس ظلم پر مبنی نظام کو گرانے کے لیئے اکٹھی نکلے۔ورنہ خدا زیادہ دیر اپنی دھرتی پر ظلم برداشت نہیں کرتا۔
وی آئی پی مولوی