کوئی دو مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا -
انشا بیٹھا کام کر رہا ہے - ہم گپ لگا رہے ہیں - ادھر کی باتیں ، ادھر کی باتیں بہت خوش -
ایک لڑکی آئی- اس کی صحت بہت خراب تھی ، اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا -
اس نے چھپانے کے لیےاپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا ، آ کھڑی ہو گئی انشا جے کے سامنے -
اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا - پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا ، پھر میز پر رکھا ، پھر دراز کھولا -
کہنے لگا بیبی ! میرے پاس یہ تین سو روپے ہی ہیں - یہ تم لے لو ، پھر بعد میں بات کریں گے -
کہنے لگی ! بڑی مہربانی -
وہ بچکی سی ہو گئی بیچاری ، اور ڈر سے گئی ، گھبرا سی گئی -
اس نے کہا ، بڑی مہربانی دے دیں - وہ لے کر چلی گئی -
جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا ، انشاء یہ کون تھی ؟
کہنے لگا پتا نہیں -
میں نے کہا ، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی - تو تو نے تین سو روپے دے دیے تو اسے جانتا تک نہیں -
کہنے لگا ، نہیں میں اتنا ہی جانتا ہوں - یہ خط ہے - اس میں لکھا تھا !
محترم انشا صاحب میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں ، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں ، اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں -
اور میری ١٣٠ روپے تنخواہ ہے - میں اور میرے بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں - جس کا کرایا ١٦٠ روپے ہوگیا ہے ، اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے ، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پهینک رہا ہے -
اگر آپ مجھے ١٦٠ روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کر کے ١٠-١٠ کر کے اتار دونگی -
میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے ، وہ بھی کالم کی وجہ سے -
میں نے کہا ، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے ١٦٠ روپے مانگے تھے تو تو نے ٣٠٠ سو دے دیے -
کہنے لگا ، میں نے بھی تو " دتوں میں سے دیا ہے ، میں نے کونسا پلے سے دیا ہے - "
اس کو بات سمجھ آ گئی تھی -
یہ نصیبوں کی بات ہے ، یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا ، ڈکٹیشن لیتا تھا ، کوششیں کرتا تھا جاننے کی -
کہنے لگا ، میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا - یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے - میں نے دے دیے -
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے ہے کوئی جو ساھو کار بنے ہے کوئی جو دیون ہار بنے کچھ سال مہینے لوگو پر سود بیاج کے دن لوگو ہاں اپنی جان کے خزانے سے ہاں عمر کے توشہ خانے سے کیا کوئی بھی ساھو کار نہیں کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں جب نام ادھار کا آیا ہے کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے کچھ کام ہمیں بھی نپٹانے ہیں جنھیں جاننے والے جانیں ہیں کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں کچھ جگ کے دوسرے دھندے ہیں ہم مانگتے نہیں ہزار برس دس پانچ برس دو چار برس ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے ہاں اور خراج بھی دے لیں گے آسان بنے دشوار بنے پر کوئی تو دیون ہار بنے تم کون تمہارا نام ہے کیا کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا کیوں اس مجمعے میں آئی ہو کچھ مانگتی ہو کچھ لائی ہو یا کاروبار کی باتیں ہیں یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے سب عمر کی نقدی ختم کئے گر شعر کے رشتے آئی ہو تب سمجھو جلد جدائی ہو اب گیت گیا سنگیت گیا ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں کچھ صبح گریں کچھ رات گریں یہ اپنے یار پرانے ہیں اک عمر سے ہم کو جانیں ہیں ان سب کے پاس ہے مال بہت ہاں عمر کے ماہ و سال بہت ان سب نے ہم کو بلایا ہے اور جھولی کو پھیلایا ہے تم جاؤ ان سے بات کریں ہم تم سے نہ ملاقات کریں کیا بانجھ برس کیا اپنی عمر کے پانچ برس تم جان کی تھیلی لائی ہو کیا پاگل ہو جب عمر کا آخر آتا ہے ہر دن صدیاں بن جاتا ہے جینے کی ہوس ہی نرالی ہے ، ہے کون جو اس سے خالی ہے کیا موت سے پہلے مرنا ہے تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے پھر تم ہو ہماری کون بھلا ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا کیا سود بیاج کا لالچ ہے کسی اور اخراج کا لالچ ہے تم سوہنی ہو من موہنی ہو تم جا کر پوری عمر جیو یہ پانچ برس یہ چار برس چِھن جائیں تو لگیں ہزار برس سب دوست گئے سب یار گئے تھے جتنے ساھو کار گئے بس یہ اک ناری بیٹھی ہے یہ کون ہے کیا ہے کیسی ہے ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے جب مانگیں جیون کی گھڑیاں گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں ہم قرض تمہارا لوٹا دیں گے کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے جو ساعتِ ماہ و سال نہیں وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے ہے کوئی جو ساھو کار بنے ہے کوئی جو دیون ہار بنے کچھ سال مہینے لوگو پر سود بیاج کے دن لوگو ہاں اپنی جان کے خزانے سے ہاں عمر کے توشہ خانے سے کیا کوئی بھی ساھو کار نہیں کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں جب نام ادھار کا آیا ہے کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے کچھ کام ہمیں بھی نپٹانے ہیں جنھیں جاننے والے جانیں ہیں کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں کچھ جگ کے دوسرے دھندے ہیں ہم مانگتے نہیں ہزار برس دس پانچ برس دو چار برس ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے ہاں اور خراج بھی دے لیں گے آسان بنے دشوار بنے پر کوئی تو دیون ہار بنے تم کون تمہارا نام ہے کیا کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا کیوں اس مجمعے میں آئی ہو کچھ مانگتی ہو کچھ لائی ہو یا کاروبار کی باتیں ہیں یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے سب عمر کی نقدی ختم کئے گر شعر کے رشتے آئی ہو تب سمجھو جلد جدائی ہو اب گیت گیا سنگیت گیا ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں کچھ صبح گریں کچھ رات گریں یہ اپنے یار پرانے ہیں اک عمر سے ہم کو جانیں ہیں ان سب کے پاس ہے مال بہت ہاں عمر کے ماہ و سال بہت ان سب نے ہم کو بلایا ہے اور جھولی کو پھیلایا ہے تم جاؤ ان سے بات کریں ہم تم سے نہ ملاقات کریں کیا بانجھ برس کیا اپنی عمر کے پانچ برس تم جان کی تھیلی لائی ہو کیا پاگل ہو جب عمر کا آخر آتا ہے ہر دن صدیاں بن جاتا ہے جینے کی ہوس ہی نرالی ہے ، ہے کون جو اس سے خالی ہے کیا موت سے پہلے مرنا ہے تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے پھر تم ہو ہماری کون بھلا ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا کیا سود بیاج کا لالچ ہے کسی اور اخراج کا لالچ ہے تم سوہنی ہو من موہنی ہو تم جا کر پوری عمر جیو یہ پانچ برس یہ چار برس چِھن جائیں تو لگیں ہزار برس سب دوست گئے سب یار گئے تھے جتنے ساھو کار گئے بس یہ اک ناری بیٹھی ہے یہ کون ہے کیا ہے کیسی ہے ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے جب مانگیں جیون کی گھڑیاں گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں ہم قرض تمہارا لوٹا دیں گے کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے جو ساعتِ ماہ و سال نہیں وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے ہے کوئی جو ساھو کار بنے ہے کوئی جو دیون ہار بنے کچھ سال مہینے لوگو پر سود بیاج کے دن لوگو ہاں اپنی جان کے خزانے سے ہاں عمر کے توشہ خانے سے کیا کوئی بھی ساھو کار نہیں کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں جب نام ادھار کا آیا ہے کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے کچھ کام ہمیں بھی نپٹانے ہیں جنھیں جاننے والے جانیں ہیں کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں کچھ جگ کے دوسرے دھندے ہیں ہم مانگتے نہیں ہزار برس دس پانچ برس دو چار برس ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے ہاں اور خراج بھی دے لیں گے آسان بنے دشوار بنے پر کوئی تو دیون ہار بنے تم کون تمہارا نام ہے کیا کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا کیوں اس مجمعے میں آئی ہو کچھ مانگتی ہو کچھ لائی ہو یا کاروبار کی باتیں ہیں یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے سب عمر کی نقدی ختم کئے گر شعر کے رشتے آئی ہو تب سمجھو جلد جدائی ہو اب گیت گیا سنگیت گیا ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں کچھ صبح گریں کچھ رات گریں یہ اپنے یار پرانے ہیں اک عمر سے ہم کو جانیں ہیں ان سب کے پاس ہے مال بہت ہاں عمر کے ماہ و سال بہت ان سب نے ہم کو بلایا ہے اور جھولی کو پھیلایا ہے تم جاؤ ان سے بات کریں ہم تم سے نہ ملاقات کریں کیا بانجھ برس کیا اپنی عمر کے پانچ برس تم جان کی تھیلی لائی ہو کیا پاگل ہو جب عمر کا آخر آتا ہے ہر دن صدیاں بن جاتا ہے جینے کی ہوس ہی نرالی ہے ، ہے کون جو اس سے خالی ہے کیا موت سے پہلے مرنا ہے تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے پھر تم ہو ہماری کون بھلا ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا کیا سود بیاج کا لالچ ہے کسی اور اخراج کا لالچ ہے تم سوہنی ہو من موہنی ہو تم جا کر پوری عمر جیو یہ پانچ برس یہ چار برس چِھن جائیں تو لگیں ہزار برس سب دوست گئے سب یار گئے تھے جتنے ساھو کار گئے بس یہ اک ناری بیٹھی ہے یہ کون ہے کیا ہے کیسی ہے ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے جب مانگیں جیون کی گھڑیاں گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں ہم قرض تمہارا لوٹا دیں گے کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے جو ساعتِ ماہ و سال نہیں وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
ایک عشق کے روگ کے علاوہ کوئی اور بیماری نہیں جی۔ یہ سقراط صاحب نے جانے کیوں پروپیگنڈا شروع کردیا ہے جس سے سارے احباب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
انشاجی کی ایک اور غزل جانے کیوں اس نامعقول موقع پر دُراتی چلی آئی ذہن میں۔
اِک بار کہو تُم میری ہو۔