ا
انتخابات کے ممکنہ نتائج
سلیم صافی
دو ہزار تیرہ (2013) کے انتخابات کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم تھے جن پر تینوں بڑی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی کو اعتماد تھا لیکن اب کی بار کا الیکشن کمیشن متنازع ہے۔ چند ماہ قبل تک عمران خان صاحب اس کو برابھلا کہتے رہے اور اب مسلم لیگ(ن) ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی اس کے کردار پر انگلیاں اٹھارہی ہیں۔ 2013کے انتخابات کے وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے جن کی بحالی کے لئے میاں نوازشریف اور عمران خان نے ایک ساتھ آواز اٹھائی تھی۔ پیپلز پارٹی ان سے ناراض ضرور تھی لیکن عدلیہ اس حد تک متحرک تھی اور نہ اس پر امتیازی سلوک کے الزامات لگے تھے۔ اس وقت سوائے یوسف رضاگیلانی کے کسی اور سیاسی رہنماکو توہین عدالت میں سزا بھی نہیں ہوئی تھی جبکہ یوسف رضا گیلانی کی توہین عدالت کی نوعیت بھی ایسی نہیں تھی کہ انہوں نے عدلیہ پر تنقید کی ہو بلکہ عدالت کی رائے یہ بنی کہ انہوںنے صدر زرداری سے متعلق اس کے فیصلے پر عمل نہیں کیا۔ لیکن اب نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ سے شکایت ہے بلکہ بعض دیگر جماعتیں بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود عدلیہ کے اندر سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی کی آوازوں جیسی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اسی طرح 2013میں میڈیا پر کوئی دبائو نہیں تھا لیکن اب کی بار میڈیا ناقابل تصور
سنسرشپ کی زد میں ہے۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر حمید ہارون کی بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں گفتگو اور عالمی یا سوشل میڈیا میں آنے والی خبروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو اس وقت کس طرح ایک خاص سمت میں چلانے کی کوشش ہورہی ہے۔ گزشتہ انتخابات سے قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ متنازع تھے(واضح رہے کہ نجم سیٹھی کانام پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا اور انتخابی نتائج سے قبل ان پر پی ٹی آئی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا)، خیبر پختونخوا، سندھ اور نہ بلوچستان کے لیکن اب کی بار واضح نظر آرہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرا اعلیٰ بالخصوص اور سندھ و بلوچستان کے بالعموم جانبدار اور متنازع ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری رضوی نے تو گویا حد کردی۔ ان سے پہلے تحریک انصاف ہی کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ ناصر کھوسہ پر جب تحریک انصاف نے اعتراض کیا تو قانونی لحاظ سے وہ وزیراعلیٰ بن گئے تھے لیکن سابق بیوروکریٹ ہو کر بھی انہوں نے بڑے پن کا ثبو ت دیتے ہوئے خود معذرت کردی لیکن حسن عسکری رضوی پر مسلم لیگ(ن) کے شدید اعتراضات کے باوجود انہو ں نے چند روز کی کرسی کے لئے اپنی ساری زندگی کی عزت دائو پر لگا دی۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج سے قبل کسی پارٹی نے پری پول رگنگ کا الزام نہیں لگایا تھا اورسوائے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کسی نے یہ شکایت نہیں کی تھی کہ اسے آزادی کے ساتھ انتخابی مہم چلانے نہیں دی جارہی (واضح رہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کو کسی ریاستی ادارے یا الیکشن کمیشن سے شکایت نہیں تھی بلکہ دہشت گردی کے خطرے اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ صحیح مہم نہیں چلاسکی تھیں ورنہ تو خود زرداری صاحب ایوان صدر میں بیٹھے تھے) لیکن اب کی بار ایم ایم اے ہو کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی ہو کہ مسلم لیگ(ن) ، سوائے ایک پارٹی کے سب کو شکایت ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کو آگے لانے کے لئے باقیوں کے ہاتھ پائوں باندھے گئے۔ گزشتہ ہفتے میری اسفندیار ولی خان سے ملاقات ہوئی ، انہو ں نے بھی یہ شکایت کی کہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سے بات ہوئی تو وہ بھی یہ شکایت کررہے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات ہوئی تو وہ بھی یہی گلہ کررہے تھے۔ مولانا فضل الرحمان تو کھل کر جلسوں میں بھی شکایت کررہے ہیں۔ بلوچستان میں پختون اور بلوچ قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کو وہاں کی سیاست کا باپ بنانے کے لئے ان کے ہاتھ پائوں باندھے گئے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو شکایت ہے کہ جی ڈی اے کو نیا آئی جے آئی بنایا جارہا ہے جبکہ شہری سندھ میں ایم کیوایم لندن کو بھی شکایت ہے اور پی ایس پی کو بھی گلہ ہے۔ گویا میری صحافتی زندگی میں یہ پہلا الیکشن ہے کہ جس کی شفافیت سے متعلق ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں بلکہ سوائے ایک کے باقی سب پارٹیاں سوالات اٹھارہی ہیں اور یہ پہلا الیکشن ہے کہ جس کے انعقاد سے قبل سوائے ایک کے باقی سب بڑی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ انتخابات متنازع ہوگئے ہیں یا ہورہے ہیں۔ غلطی مسٹر الف کی ہے یا مسٹر جیم کی ، سیاسی جماعتوں کی ہے یا اداروں کی لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ یہ انتخابات ابھی سے متنازع ہوگئے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ صرف مسلم لیگ(ن) نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، اے این پی ، ایم ایم اے ، بلوچستان کی پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں اور ایم کیوایم وغیرہ بھی انتخابات کے بعد انتخابی عمل اور نتائج کے حوالے سے سوال اٹھائیں گی۔ اگر ان جماعتوں کو حسب توقع نتائج نہ ملے اور پی ٹی آئی کے حق میںپلڑا ایک حد سے زیادہ بھاری ہوگیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ سب جماعتیں مل کر یا پھر سوائے ایک دو کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپنالیں۔ واضح رہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ وقتی طور پر دب گیا ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ رائو انوار کی رہائی نے اس تحریک کو مزید مواد فراہم کردیا جبکہ حنیف عباسی کے خلاف ظالمانہ فیصلے کے بعد تو راولپنڈی میں بھی اسی طرح کے نعرے لگے جس طرح کہ پی ٹی ایم کے جلسوں میں لگتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ شاید عدلیہ کے اندر سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسی آوازیں بھی مزید بڑھ سکتی ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجز اور بدترین معاشی صورت حال تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مستحکم حکومت ہو لیکن انتخابات کے اسی طرح متنازع رہ جانے کی صورت میں مستحکم حکومت تو دور کی بات ہے ، پاکستان مکمل سیاسی انارکی کی طرف جاسکتا ہے۔ اسی طرح حالات تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہو لیکن اگر انتخابات متنازع ہوگئے تو اداروں کے مابین تنائو ،ٹکرائو میں بدل سکتا ہے اور یہ اس ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ حلقے ان انتخابات کے بارے میں پرامید نہیں بلکہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ہم کچھ کرنہیں سکتے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں تو آئیے سب دعا کرتے ہیں کہ میرا یہ تجزیہ سراسر غلط ثابت ہو اور ان انتخابات سے ملک کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔
حنیف عباسی کا مقدمہ :
حنیف عباسی کو جس طرح سزا دلوائی گئی اس سے لگتا ہے کہ انسداد منشیات کی عدالت نے حنیف عباسی کو نہیں بلکہ انصاف کو عمر قید کرلیا اور عدلیہ کے بڑوں کے لئے چیلنج ہے کہ وہ قید ہونے والے انصاف کو کس طرح آزادی دلواتے ہیں۔ ابھی تک یہ محسو س ہی نہیں ہورہا تھا کہ اس ملک میں کوئی نگران حکومت یا الیکشن کمیشن بھی ہے لیکن حنیف عباسی کے حلقے میں انتخاب ملتوی کرکے پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن نے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ یہ انتخاب نہیں ہو رہا اور سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
source
انتخابات کے ممکنہ نتائج
سلیم صافی
دو ہزار تیرہ (2013) کے انتخابات کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم تھے جن پر تینوں بڑی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی کو اعتماد تھا لیکن اب کی بار کا الیکشن کمیشن متنازع ہے۔ چند ماہ قبل تک عمران خان صاحب اس کو برابھلا کہتے رہے اور اب مسلم لیگ(ن) ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی اس کے کردار پر انگلیاں اٹھارہی ہیں۔ 2013کے انتخابات کے وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے جن کی بحالی کے لئے میاں نوازشریف اور عمران خان نے ایک ساتھ آواز اٹھائی تھی۔ پیپلز پارٹی ان سے ناراض ضرور تھی لیکن عدلیہ اس حد تک متحرک تھی اور نہ اس پر امتیازی سلوک کے الزامات لگے تھے۔ اس وقت سوائے یوسف رضاگیلانی کے کسی اور سیاسی رہنماکو توہین عدالت میں سزا بھی نہیں ہوئی تھی جبکہ یوسف رضا گیلانی کی توہین عدالت کی نوعیت بھی ایسی نہیں تھی کہ انہوں نے عدلیہ پر تنقید کی ہو بلکہ عدالت کی رائے یہ بنی کہ انہوںنے صدر زرداری سے متعلق اس کے فیصلے پر عمل نہیں کیا۔ لیکن اب نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ سے شکایت ہے بلکہ بعض دیگر جماعتیں بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود عدلیہ کے اندر سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی کی آوازوں جیسی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اسی طرح 2013میں میڈیا پر کوئی دبائو نہیں تھا لیکن اب کی بار میڈیا ناقابل تصور
سنسرشپ کی زد میں ہے۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر حمید ہارون کی بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں گفتگو اور عالمی یا سوشل میڈیا میں آنے والی خبروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو اس وقت کس طرح ایک خاص سمت میں چلانے کی کوشش ہورہی ہے۔ گزشتہ انتخابات سے قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ متنازع تھے(واضح رہے کہ نجم سیٹھی کانام پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا اور انتخابی نتائج سے قبل ان پر پی ٹی آئی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا)، خیبر پختونخوا، سندھ اور نہ بلوچستان کے لیکن اب کی بار واضح نظر آرہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرا اعلیٰ بالخصوص اور سندھ و بلوچستان کے بالعموم جانبدار اور متنازع ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری رضوی نے تو گویا حد کردی۔ ان سے پہلے تحریک انصاف ہی کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ ناصر کھوسہ پر جب تحریک انصاف نے اعتراض کیا تو قانونی لحاظ سے وہ وزیراعلیٰ بن گئے تھے لیکن سابق بیوروکریٹ ہو کر بھی انہوں نے بڑے پن کا ثبو ت دیتے ہوئے خود معذرت کردی لیکن حسن عسکری رضوی پر مسلم لیگ(ن) کے شدید اعتراضات کے باوجود انہو ں نے چند روز کی کرسی کے لئے اپنی ساری زندگی کی عزت دائو پر لگا دی۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج سے قبل کسی پارٹی نے پری پول رگنگ کا الزام نہیں لگایا تھا اورسوائے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کسی نے یہ شکایت نہیں کی تھی کہ اسے آزادی کے ساتھ انتخابی مہم چلانے نہیں دی جارہی (واضح رہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کو کسی ریاستی ادارے یا الیکشن کمیشن سے شکایت نہیں تھی بلکہ دہشت گردی کے خطرے اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ صحیح مہم نہیں چلاسکی تھیں ورنہ تو خود زرداری صاحب ایوان صدر میں بیٹھے تھے) لیکن اب کی بار ایم ایم اے ہو کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی ہو کہ مسلم لیگ(ن) ، سوائے ایک پارٹی کے سب کو شکایت ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کو آگے لانے کے لئے باقیوں کے ہاتھ پائوں باندھے گئے۔ گزشتہ ہفتے میری اسفندیار ولی خان سے ملاقات ہوئی ، انہو ں نے بھی یہ شکایت کی کہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سے بات ہوئی تو وہ بھی یہ شکایت کررہے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات ہوئی تو وہ بھی یہی گلہ کررہے تھے۔ مولانا فضل الرحمان تو کھل کر جلسوں میں بھی شکایت کررہے ہیں۔ بلوچستان میں پختون اور بلوچ قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کو وہاں کی سیاست کا باپ بنانے کے لئے ان کے ہاتھ پائوں باندھے گئے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو شکایت ہے کہ جی ڈی اے کو نیا آئی جے آئی بنایا جارہا ہے جبکہ شہری سندھ میں ایم کیوایم لندن کو بھی شکایت ہے اور پی ایس پی کو بھی گلہ ہے۔ گویا میری صحافتی زندگی میں یہ پہلا الیکشن ہے کہ جس کی شفافیت سے متعلق ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں بلکہ سوائے ایک کے باقی سب پارٹیاں سوالات اٹھارہی ہیں اور یہ پہلا الیکشن ہے کہ جس کے انعقاد سے قبل سوائے ایک کے باقی سب بڑی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ انتخابات متنازع ہوگئے ہیں یا ہورہے ہیں۔ غلطی مسٹر الف کی ہے یا مسٹر جیم کی ، سیاسی جماعتوں کی ہے یا اداروں کی لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ یہ انتخابات ابھی سے متنازع ہوگئے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ صرف مسلم لیگ(ن) نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، اے این پی ، ایم ایم اے ، بلوچستان کی پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں اور ایم کیوایم وغیرہ بھی انتخابات کے بعد انتخابی عمل اور نتائج کے حوالے سے سوال اٹھائیں گی۔ اگر ان جماعتوں کو حسب توقع نتائج نہ ملے اور پی ٹی آئی کے حق میںپلڑا ایک حد سے زیادہ بھاری ہوگیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ سب جماعتیں مل کر یا پھر سوائے ایک دو کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپنالیں۔ واضح رہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ وقتی طور پر دب گیا ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ رائو انوار کی رہائی نے اس تحریک کو مزید مواد فراہم کردیا جبکہ حنیف عباسی کے خلاف ظالمانہ فیصلے کے بعد تو راولپنڈی میں بھی اسی طرح کے نعرے لگے جس طرح کہ پی ٹی ایم کے جلسوں میں لگتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ شاید عدلیہ کے اندر سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسی آوازیں بھی مزید بڑھ سکتی ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجز اور بدترین معاشی صورت حال تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مستحکم حکومت ہو لیکن انتخابات کے اسی طرح متنازع رہ جانے کی صورت میں مستحکم حکومت تو دور کی بات ہے ، پاکستان مکمل سیاسی انارکی کی طرف جاسکتا ہے۔ اسی طرح حالات تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہو لیکن اگر انتخابات متنازع ہوگئے تو اداروں کے مابین تنائو ،ٹکرائو میں بدل سکتا ہے اور یہ اس ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ حلقے ان انتخابات کے بارے میں پرامید نہیں بلکہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ہم کچھ کرنہیں سکتے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں تو آئیے سب دعا کرتے ہیں کہ میرا یہ تجزیہ سراسر غلط ثابت ہو اور ان انتخابات سے ملک کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔
حنیف عباسی کا مقدمہ :
حنیف عباسی کو جس طرح سزا دلوائی گئی اس سے لگتا ہے کہ انسداد منشیات کی عدالت نے حنیف عباسی کو نہیں بلکہ انصاف کو عمر قید کرلیا اور عدلیہ کے بڑوں کے لئے چیلنج ہے کہ وہ قید ہونے والے انصاف کو کس طرح آزادی دلواتے ہیں۔ ابھی تک یہ محسو س ہی نہیں ہورہا تھا کہ اس ملک میں کوئی نگران حکومت یا الیکشن کمیشن بھی ہے لیکن حنیف عباسی کے حلقے میں انتخاب ملتوی کرکے پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن نے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ یہ انتخاب نہیں ہو رہا اور سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
source