Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)

یوکرائن کے بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے - جرمن چانسلر انجیلا مرکل فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اس ملاقات میں مشرقی یوکرائن میں جاری لڑائی کے خاتمے کی کوششوں کے حوالے سے نئے امن منصوبے پر بات کریں گے -
پوٹن نے کہا تھا، کہ ہم کسی بھی خراب ترین صوت حال سے نمٹنے کیلئے تیار تھے جن سے اسکی صاف طور پر مراد نیٹوکے ساتھ نیوکلیئر جنگ کی تھی،
واشنگٹن ہمیشہ سے یہ انکار کرتا آکہ وہ
"(No First Use) وعدہ نہیں کرتایعنی کہ وہ پہلا نیوکلیئر حملہ نہیں کرے گا۔ اگر عالمی طاقتوں نے سفارتکاری کا راستہ اختیار نہ کیا تو انجام کار انسانیت تباہ و برباد ہوجائے گی۔
امريکہ دنيا کے مختلف علاقوں ميں انسانی ہمدردی کی بنياد پر مختلف منصوبوں کی مد ميں، اپنے وسائل خرچ کرتا ہے۔ اگر وہ یہی فنڈ اپنے عوام پر خرچ کرے، تو اس کی عوام خوشحال ہو جائے۔ خاص کر صحت کی مد میں، امریکی عوام کومدد کی ضرورت ہے۔ میڈیسن بہت مہنگی ہیں، ہسپتال کا بل ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے۔ امریکہ صرف اپنی عوام کو ترجیح دے کر دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی دنیا کو اپنے مسائل خود حل کرنے دے۔ خاص کر پاکستان، کی امداد مکمل طور پر بند کردے، کیونکہ اس امداد سے یہاں کے حکمران اللے تللے کرتے ہیں،اور عوام بے چین و بدحال- - -
کوئی ملک چاہے کتنا ہی طاقت ور ملک کیوں نہ ہو، پوری دنیا کو محض طاقت کے زور سے زیر نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے عراق سے سبق سیکھا ہے کہ طاقت اور پیسے کے زور پر کسی دوسرے ملک کو محکوم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے کئی ممالک کے مسائل پیچیدہ نوعیت کے ہیں جنہیں حل کرنا صرف طاقت کے استعمالسے مناسب بات نہیں۔ عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کیلئے مختلف اقوام کو باہمی تعاون میں اضافہ اور بڑے ممالک کے رہنمائوں کو عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ عالمی سیاست تبدیل ہورہی ہے علاقوں اور ملکوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ دنیا کے لیے تصادم اور طاقت کے پرانے طریقوں کی طرف واپس لوٹنا بھی ممکن نہیں رہا اختلافات کے حل کے لیے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار کرنا
ہوگا۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ بڑے ممالک کے رہنمائوں کو عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سے میرا مقصدمستقبل میں طاقت کے مقابلے میں سفارتی کوششوں کو ترجیح دینا ہوتا ہے۔
ماضی میں طاقت استعمال کرنے کو اہمیت دی گئی جسے انسانیت کی بدقسمتی قرار دیاجاسکتا ہے۔'' اب سوچ بدل رہی ہے،دنیا سفارتی کوششوں کے دور میں داخل ہو رہی ہے، یہ کوششیں زیادہ وسیع، گہری اور دور رس ہونی چاہئے۔عالمی امن کے حوالے سے زیادہ اہم با ت یہ کہ ہر ایک کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذارنے دی جائے۔
ہمارے ملک میں بھی طاقت کے ذریعہ امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ قوم کے اربوں کھربوں روپے اور ہزاروں قیمتی جانیں اس میں جھونک دی گئی ہیں۔ ایک عرصہ سے ہم سن رہے ہیں کہ
نوے فیصد کامیابی ہو چکی ہے، باقی دس فیصد کب ہو گی؟؟؟ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
تصادم اور طاقت کے پرانے طریقوں کے استعمال سے امن ممکن نہیں رہا ، ہمیں بھی اختلافات کے حل کے لیے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار کرنا ہوگا، کیونکہ امن سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Last edited: