امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پورن سٹار کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو پتا تھا کہ اگر اس کے پورن سٹار کے ساتھ تعلقات منظر عام پر آئے تو امریکی عوام اس پر لعن طعن کرے گی۔ اس لئے ٹرمپ نے پورن سٹار کو پیسے دے کر خاموش رکھا۔ آپ اندازہ کیجئے کہ امریکی معاشرہ جو جنسی معاملات میں بالکل آزاد خیال ہے، وہاں کے سیاستدان کو بھی اس بات کی کا خوف ہے کہ اگر اس کا جنسی سکینڈل منظر عام پر آیا تو عوام اسے معاف نہیں کرے گی۔ اس سے پہلے بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی سکینڈل کی وجہ سے جو کچھ بھگتنا پڑا یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ وہاں کے لوگوں کا اخلاقی معیار ہے۔۔
دوسری طرف ایک پاکستانی سیاستدان ہے عمران خان، جس کے سیتاوائٹ کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اس کی ایک زندہ جیتی جاگتی جوان بیٹی ٹیرین وائٹ موجود ہے، جس کو اس سیاستدان کی سابقہ انگریز بیوی اس کے دو بیٹوں کے ساتھ پال رہی ہے، اس کی تصویریں بھی اکثر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی رہتی ہے۔ پھر اسی سیاستدان کی ایک آڈیو آتی ہے جس میں وہ اپنی ہی پارٹی کی ایک نوجوان خاتون سیاستدان عائلہ ملک کے ساتھ انتہائی گندی گفتگو کرتا پایا جاتا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں اگر آپ کسی پاور کی پوزیشن میں ہیں اور اپنے ماتحت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اس کو ریپ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں اس شخص پر نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی گرفت ہوتی ہے نا قانونی۔
پھر اسی شخص کی پارٹی کی ایک نوعمر خاتون عائشہ گلالئی الزام لگاتی ہے کہ یہ شخص مجھے گندے مسیجز بھیجتا ہے۔ حامد میر نے اس کے موبائل میں عمران خان کے گندے مسیجز دیکھے اور تصدیق کی۔ مگر پھر اس شخص پر کوئی گرفت نہیں ہوتی۔
اس کی ایک اور سابقہ بیوی ریحام خان کتاب لکھتی ہے جس میں اس پر ایسے ہی الزام لگاتی ہے کہ جس سے اس شخص کی اخلاقی گراوٹ کی مزید توثیق ہوتی ہے۔
پاکستان میں لوگ امریکہ کے نظامِ انصاف کی مثالیں دیتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہاں کی عوام کا اخلاقی معیار کیا ہے۔ ایک طرف امریکی عوام کا اخلاقی معیار ہے کہ وہاں ٹرمپ کو خوف ہے کہ اس کا جنسی سکینڈل منظر عام پر نہ آجائے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام کا اخلاقی معیار ہے کہ عمران خان کے جنسی سکینڈل پر سکینڈل آتے گئے اور نہ صرف عوام میں اس کو مزید پذیرائی ملی بلکہ خود عمران خان نے کئی بار کہا کہ مجھے یہ سکینڈل وغیرہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ وہ کس قسم کی عوام کا ہیرو ہے۔۔ یہ ہے دو معاشروں کی اخلاقیات کا لیول۔ کسی بھی معاشرے کی عوام ہی اس کی صورتگری کرتی ہے۔ ایسے ہی امریکہ امریکہ نہیں ہے اور پاکستان پاکستان ۔۔
دوسری طرف ایک پاکستانی سیاستدان ہے عمران خان، جس کے سیتاوائٹ کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اس کی ایک زندہ جیتی جاگتی جوان بیٹی ٹیرین وائٹ موجود ہے، جس کو اس سیاستدان کی سابقہ انگریز بیوی اس کے دو بیٹوں کے ساتھ پال رہی ہے، اس کی تصویریں بھی اکثر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی رہتی ہے۔ پھر اسی سیاستدان کی ایک آڈیو آتی ہے جس میں وہ اپنی ہی پارٹی کی ایک نوجوان خاتون سیاستدان عائلہ ملک کے ساتھ انتہائی گندی گفتگو کرتا پایا جاتا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں اگر آپ کسی پاور کی پوزیشن میں ہیں اور اپنے ماتحت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اس کو ریپ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں اس شخص پر نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی گرفت ہوتی ہے نا قانونی۔
پھر اسی شخص کی پارٹی کی ایک نوعمر خاتون عائشہ گلالئی الزام لگاتی ہے کہ یہ شخص مجھے گندے مسیجز بھیجتا ہے۔ حامد میر نے اس کے موبائل میں عمران خان کے گندے مسیجز دیکھے اور تصدیق کی۔ مگر پھر اس شخص پر کوئی گرفت نہیں ہوتی۔
اس کی ایک اور سابقہ بیوی ریحام خان کتاب لکھتی ہے جس میں اس پر ایسے ہی الزام لگاتی ہے کہ جس سے اس شخص کی اخلاقی گراوٹ کی مزید توثیق ہوتی ہے۔
پاکستان میں لوگ امریکہ کے نظامِ انصاف کی مثالیں دیتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہاں کی عوام کا اخلاقی معیار کیا ہے۔ ایک طرف امریکی عوام کا اخلاقی معیار ہے کہ وہاں ٹرمپ کو خوف ہے کہ اس کا جنسی سکینڈل منظر عام پر نہ آجائے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام کا اخلاقی معیار ہے کہ عمران خان کے جنسی سکینڈل پر سکینڈل آتے گئے اور نہ صرف عوام میں اس کو مزید پذیرائی ملی بلکہ خود عمران خان نے کئی بار کہا کہ مجھے یہ سکینڈل وغیرہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ وہ کس قسم کی عوام کا ہیرو ہے۔۔ یہ ہے دو معاشروں کی اخلاقیات کا لیول۔ کسی بھی معاشرے کی عوام ہی اس کی صورتگری کرتی ہے۔ ایسے ہی امریکہ امریکہ نہیں ہے اور پاکستان پاکستان ۔۔
