dangerous tears
Senator (1k+ posts)
امریکہ اور یورپ کی ایران کے ساتھ ڈیل پر سوشل میڈیا میں ایک کمنٹ آیا کہ چالیس سال تک مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگانے والوں نے بالاخر اسی سے سمجھوتہ کر لیا لیکن چالیس سالوں میں مذہب کے نام پر ایک نسل کو ختم کردیا۔ کچھ نے کہا کہ ماضی کو کوسنے کی بجائے اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے اور اس معاہدے کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ لیکن کیا پاکستانی ریاست بھی ماضی کی تلخیوں کو نظر انداز کرکے اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے ؟ ایران نے تو ایک نسل ضائع کی ہے مگر پاکستان کی تیسری نسل ضائع ہو رہی ہے۔
عمومی طور پر دنیا بھر میں اس معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور اسرائیل اس ڈیل سے ناراض ہیں اور ماضی کے مقابلے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قربتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دونوں ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک مانتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے مگر کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا ۔ وزیر پٹرولیم نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی پائپ لائن پر کام شروع ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب ، ایران اور پاکستان مسلم دنیا میں اپنی برتری قائم کرنے کے لیے دہشت گردوں کی معاونت کرتے چلے آرہے ہیں۔ سعودی عرب دنیا بھر میں انتہا پسند مذہبی نظریات کا پرچار کرنے والے اداروں کو فنڈنگ کررہا ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں دہشت گردوں کی معاونت کرنے میں سعودی عرب کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں جبکہ ایران، حماس اور حزب اللہ کی امداد کرکے عرب خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مقابلے میں پاکستان ایک کنگلا ملک ہے جس کی تقریباً پچاس فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے مگر طالبان کی پشت پناہی سے باز آنے کو تیار نہیں اور خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کا خواب دیکھ رہا ہے تاکہ اس خطے میں مخاصمت کی پالیسی جاری رہے ۔
مسلم دنیا ابھی بھی ماضی میں زندگی بسر کر رہی ہے جب تلوار کے زور پر ملکوں کو زیر کر لیا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل چکا ہے۔ موجودہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔کوئی بھی ملک کرائے کے ہتھیاروں سے کسی پر اپنی بالادستی قائم نہیں کر سکتا۔ آج کسی ملک کے طاقتور ہونے کا معیار سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری اور مضبوط معیشت میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے چند ممالک کے پاس اگر دولت آئے تو اسے مثبت استعمال کی بجائے دنیا کو فتح کرنے پر ضائع کی جارہی ہے۔
دنیا میں کبھی بھی کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا۔ ملکوں کے تعلقات میں باہمی فائدے دیکھے جاتے ہیں اور اگر مذہب کی بنیا د پر ہم فیصلے کرنے لگ جائیں تو پھر ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔لیکن ایک سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ہم معاشی و سماجی مسائل کا شکار ہیں وہیں اپنے ہمسایوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم نہیں کر سکتے اور جب بھی کوئی سیاسی حکومت ان تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی بہ نسبت نواز حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہے اور سعودی عرب، جو اس ڈیل کا سب سے بڑا مخالف ہے، کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ ایران کے ساتھ بہت زیادہ تعلقات بڑھائے۔ پاکستان کو بہرحال اس معاہدے سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر فوری عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے پورا ملک جمود کی حالت میں ہے۔ چین کے ساتھ کیے گئے توانائی کے معاہدے معلوم نہیں کب مکمل ہوں گے مگر پاک ایران گیس پائپ لائن پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے تو فوری پر اس بحران کو قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے جب پاک ایران گیس پائپ لائن پر سرگرمی دکھائی تو کہا گیا کہ انہوں نے دوبارہ تو اقتدار میں آنا نہیں لہذا یہ اگلی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ آصف علی زرداری کی دنیا کی سیاست پر نظر تھی اور انہیں یہ نظر آرہا تھا کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں اور انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اس گیس پائپ لائن معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا اور اگر نئے حکمرانوں کا بھی کوئی ورلڈ ویو ہوتا تو وہ اس پر آہستہ آہستہ کام جاری رکھ سکتے تھے ویسے ہی جیسے انڈیا، ا
فغانستا ن اور سنٹرل ایشیا میں تجارت کرنے کے لیے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ اور اس سے ملحقہ ریلوے لائن بچھانے میں تعاون کرتا رہا اور کر رہا ہے ۔
لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ۔ حکومت اگر چاہے تو اس پر تیزی سے کام کر سکتی ہے مگر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے پالیسی ساز ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کی بجائے جی ایچ کیو طے کرتا ہے ، جس کے نتائج قوم دہشت گردی، غربت اور پسماندگی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ ملک کے خارجہ اور داخلہ معاملات جمہوری حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہنے دیئے جاتے اور موجودہ حکومت کو تو فوجی اسٹیبلشمنٹ یرغمال بنا ہی چکی ہے۔
ابھی نواز شریف کی طرف سے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت پر لعن طعن ختم نہیں ہوئی تھی کہ حال ہی میں روس کے شہر اوفا میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعظم مودی کی معمولی ملاقات کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ کالم نگار تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔چودہ جولائی کو ڈیلی ڈان میں سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے مضمون میں اس ملاقات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ مشترکہ بیان انتہائی تباہ کن ہے کیونکہ اس میں کشمیر کا ذکر درست طریقے سے نہیں کیا گیا اپنے مضمون میں انہوں نے اسی روایتی مطالعہ پاکستان پالیسی کا پرچار کیا ہے یعنی جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا انڈیا سے دوستی کیسے ہوسکتی ہے۔
اس میٹنگ کے بعد حسب معمول لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع ہو گئی اور جو تھوڑا بہت اعتماد سازی کا عمل شروع ہونے لگتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
Source
عمومی طور پر دنیا بھر میں اس معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور اسرائیل اس ڈیل سے ناراض ہیں اور ماضی کے مقابلے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قربتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دونوں ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک مانتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے مگر کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا ۔ وزیر پٹرولیم نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی پائپ لائن پر کام شروع ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب ، ایران اور پاکستان مسلم دنیا میں اپنی برتری قائم کرنے کے لیے دہشت گردوں کی معاونت کرتے چلے آرہے ہیں۔ سعودی عرب دنیا بھر میں انتہا پسند مذہبی نظریات کا پرچار کرنے والے اداروں کو فنڈنگ کررہا ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں دہشت گردوں کی معاونت کرنے میں سعودی عرب کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں جبکہ ایران، حماس اور حزب اللہ کی امداد کرکے عرب خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مقابلے میں پاکستان ایک کنگلا ملک ہے جس کی تقریباً پچاس فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے مگر طالبان کی پشت پناہی سے باز آنے کو تیار نہیں اور خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کا خواب دیکھ رہا ہے تاکہ اس خطے میں مخاصمت کی پالیسی جاری رہے ۔
مسلم دنیا ابھی بھی ماضی میں زندگی بسر کر رہی ہے جب تلوار کے زور پر ملکوں کو زیر کر لیا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل چکا ہے۔ موجودہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔کوئی بھی ملک کرائے کے ہتھیاروں سے کسی پر اپنی بالادستی قائم نہیں کر سکتا۔ آج کسی ملک کے طاقتور ہونے کا معیار سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری اور مضبوط معیشت میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے چند ممالک کے پاس اگر دولت آئے تو اسے مثبت استعمال کی بجائے دنیا کو فتح کرنے پر ضائع کی جارہی ہے۔
دنیا میں کبھی بھی کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا۔ ملکوں کے تعلقات میں باہمی فائدے دیکھے جاتے ہیں اور اگر مذہب کی بنیا د پر ہم فیصلے کرنے لگ جائیں تو پھر ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔لیکن ایک سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ہم معاشی و سماجی مسائل کا شکار ہیں وہیں اپنے ہمسایوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم نہیں کر سکتے اور جب بھی کوئی سیاسی حکومت ان تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی بہ نسبت نواز حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہے اور سعودی عرب، جو اس ڈیل کا سب سے بڑا مخالف ہے، کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ ایران کے ساتھ بہت زیادہ تعلقات بڑھائے۔ پاکستان کو بہرحال اس معاہدے سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر فوری عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے پورا ملک جمود کی حالت میں ہے۔ چین کے ساتھ کیے گئے توانائی کے معاہدے معلوم نہیں کب مکمل ہوں گے مگر پاک ایران گیس پائپ لائن پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے تو فوری پر اس بحران کو قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے جب پاک ایران گیس پائپ لائن پر سرگرمی دکھائی تو کہا گیا کہ انہوں نے دوبارہ تو اقتدار میں آنا نہیں لہذا یہ اگلی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ آصف علی زرداری کی دنیا کی سیاست پر نظر تھی اور انہیں یہ نظر آرہا تھا کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں اور انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اس گیس پائپ لائن معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا اور اگر نئے حکمرانوں کا بھی کوئی ورلڈ ویو ہوتا تو وہ اس پر آہستہ آہستہ کام جاری رکھ سکتے تھے ویسے ہی جیسے انڈیا، ا
فغانستا ن اور سنٹرل ایشیا میں تجارت کرنے کے لیے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ اور اس سے ملحقہ ریلوے لائن بچھانے میں تعاون کرتا رہا اور کر رہا ہے ۔
لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ۔ حکومت اگر چاہے تو اس پر تیزی سے کام کر سکتی ہے مگر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے پالیسی ساز ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کی بجائے جی ایچ کیو طے کرتا ہے ، جس کے نتائج قوم دہشت گردی، غربت اور پسماندگی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ ملک کے خارجہ اور داخلہ معاملات جمہوری حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہنے دیئے جاتے اور موجودہ حکومت کو تو فوجی اسٹیبلشمنٹ یرغمال بنا ہی چکی ہے۔
ابھی نواز شریف کی طرف سے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت پر لعن طعن ختم نہیں ہوئی تھی کہ حال ہی میں روس کے شہر اوفا میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعظم مودی کی معمولی ملاقات کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ کالم نگار تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔چودہ جولائی کو ڈیلی ڈان میں سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے مضمون میں اس ملاقات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ مشترکہ بیان انتہائی تباہ کن ہے کیونکہ اس میں کشمیر کا ذکر درست طریقے سے نہیں کیا گیا اپنے مضمون میں انہوں نے اسی روایتی مطالعہ پاکستان پالیسی کا پرچار کیا ہے یعنی جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا انڈیا سے دوستی کیسے ہوسکتی ہے۔
اس میٹنگ کے بعد حسب معمول لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع ہو گئی اور جو تھوڑا بہت اعتماد سازی کا عمل شروع ہونے لگتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
Source
Last edited by a moderator: