امریکہ،سعودی عرب بمقابلہ مصری عوام |
مصر کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ الیکشن میں بارہ صدارتی امیدوارشریک تھے۔ اگلے مرحلے کی پولنگ سولہ اور سترہ جون کو ہو گی اور پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے مابین دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ توقع کے مطابق اخوان المسلمین کے امیدوار محمد مرسی نے دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اخوان المسلمین کے امیدوار محمد مرسی مختلف صوبوں میں آگے ہیں ووٹوں کی گنتی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور انتخاب کے حتمی نتائج کا اعلان منگل کو متوقع ہے۔ اخوان المسلمین سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انقلاب کو بچانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے جا رہے تاکہ حسنی مبارک کی باقیات کی اقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔ اخوان المسلمین کے ترجمان کے مطابق احمد شفیق منتخب ہوگئے تو اس سے مصر کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ مصر میں صدارتی انتخابات میں حسنی مبارک باقیات کو اقتدار میں لانے یا لبرل اور مغرب زدہ امیدواروں کے مقابلے میں انقلابی طاقتوں کو میدان سیاست سے باہر کرنے کے لئے مصر کی فوجی کونسل کے اقدامات ایک طرف، اور سعودی عرب اور قطر کی جانب سے مالی سیاسی اور تشہیراتی سپورٹ دوسری طرف، لیکن اس کے باوجود انتخابات کا پہلا مرحلہ امریکہ، صہیونی حکومت اور سعودی عرب و قطر کے لئے زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا ہے۔ مصر میں لبرل اور مغرب زدہ عناصر کو اقتدار سونپے جانے میں صہیونی حکومت اور امریکہ کی دلچسپی تو قابل فہم ہے لیکن انقلابیوں اور مذھبی رجحان رکھنے والی قوتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے قطر اور سعودی عرب کی دلچسپی اور انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے خطیر رقومات کی فراہمی، سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ اس لئے کہ یہی دونوں ممالک شام میں القاعدہ سے فکری ہمآھنگی رکھنے والے گروپوں کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مصر کے صدارتی انتخابات میں انقلابی اور مذھبی رجحان رکھنے والے امیدواروں کو ہرانے کے لئے قطر نے تین ارب دینار اور سعودی عرب نے دو ارب ریال کا جوا کھیلا ہے۔ مصر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی دستاویز ملی ہے جس سے صدارتی امیدواروں کی رشوت ستانی کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر مصر میں آنے والے عوامی انقلاب سے پہلے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو جو تصویر سامنے آتی ہی وہ یہ کہ مصر سابق معدوم صدر انوارالسادات کے زمانے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے لیکر حسنی مبارک کے اقتدار سے علحیدگی اختیار کرنے تک غاصب صہونی حکومت کا قریبی ترین حلیف یا یوں کہا جائے سب سے بڑا محافظ بنا ہوا تھا اور حسنی مبارک نے تو صہیونی حکومت کا اس حد تک ساتھ دیا کہ غزہ کو اس شہریوں کے لئے ایک بڑی جیل بنادیا اور مصر کی سرحد کو سیل کرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین آہنی دیواریں کھڑی کردیں کہ مبادا کوئی درد کا مارا فلسطینی اپنی یا اپنے بچوں کی نجات کے لئے سرحد پار کرلے۔ ایک ایسے ڈکٹیٹر کے ساتھ سعودی عرب اور قطر کے نہایت قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم تھے لہذا یہ واضح سی بات ہی کہ سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک، مصر کے اقتدار میں ایسے ہی لوگوں کو دیکھنا پسند کریں گے جو حسنی مبارک کی پالسیوں کو آگے بڑھائے اور ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دے جو صہیونی حکومت کے لئے خطرے کا باعث ہو۔ غاصب صہونی حکومت کے لئے ہمدردی کے جذبات اور اقدامات کی بناپرہی مصری جوانوں نے سعودی عرب کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور اسرائیل کے بعد سعودی عرب وہ دوسرا ملک تھا کہ جس کے سفیر کو قاہرہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا سعودی عرب کواس بات سےبہت تشویش ہےکہ کہیں مصرمیں ایک ایسی حکومت نہ قائم ہوجائےجو خود مختارپالیسی اختیارکرتےہوئے صیہونی حکومت کےساتھ سازباز کےعمل کی مخالفت کرے کیونکہ مصرمیں ایسی تبدیلی علاقےمیں سعودی عرب کےسازشی کردار سےتضاد رکھتی ہے اوراسی بنا پروہ یہ کوشش کررہا ہے کہ مصرميں اس طرح کی تبدیلی نہ آنے پائے۔ آل سعود سےمصری عوام کی نفرت کی دوسری وجہ سعودی شہزادوں کےہاتھوں مصری عوام کااستحصال ہے واضح رہے کہ سعودی شہزادوں کی ملکیت، بڑی بڑی کمپنیاں ایک عرصےسے مصرکےمختلف معاشی میدانوں میں نفوذ پیدا کرکےعملی طورپراس ملک کےذخائرکولوٹ رہی ہیں۔ جبکہ یہ کمپنیاں مصرسےسستی افرادی قوت حاصل کرکے اس ملک کےمعاشی بحران اورعوام کی غربت میں اضافہ کررہے ہيں۔ مصر کے حالیہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے یہ خبر بھی قابل غور ہے کہ امریکہ، صیہونی حلقوں اور بعض عرب ملکوں نے مصر کے صدارتی انتخابات کو ہائي جیک کرنے کے لئے لندن اور قاہرہ میں دو کنٹرول روم قائم کئے گئے ہیں۔ لندن اور قاہرہ میں کنٹرول روم قائم کرنے کا مقصد فوجی کونسل کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار عمروموسی کی حمایت تھا۔ جبکہ ایک کنٹرول روم قاہرہ میں امریکی سفارتخانے میں قائم کیا گيا تھا جس کا بنیادی مقصد مصر میں صدارتی انتخابات کو صہیونی حکومت کے حق میں ہائي جیک کرنا تھا۔بہر حال اب انتخابات کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوجانے کے بعد حسنی مبارک کی باقیات اور مغرب نواز امیدوار احمد شفیق اور اخوان المسلمین کے نامزد امیدوار محمد مرسی کے درمیان مقابلہ ہوگا اور عرذب رجعت پسند طاقتیں امریکہ اور صہیونی حلقے مشترکہ طور پر احمد شفیق کو اقتدار سونپنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں لیکن مصری عوام نے بھی حسنی مبارک کی باقیات اور مغرب نوازوں کو قاہرہ ( ایوان صدر)سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ |