maksyed

Siasat.pk - Blogger
اللہ کی نصرت کیوں نہیں آتی؟؟؟

بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں- سورہ الرعد

موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان انتہائی ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اس بات کا شکوہ کر رہے ہیں کہ اللہ کی نصرت و مدد ان کے ساتھ کیوں نہیں آتی اور انہیں قوت و غلبہ اور اقوام عالم میں عزت اور بلند مقام کب حاصل ہو گا۔

:جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وکان حقا علینا نصر المومنین ( روم:47 ) ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی نصرت و مدد کے بغیر ہم کبھی غالب نہیں ہو سکتے خواہ ہم جتنا بھی دنیاوی ساز و سامان اور قوت و لشکر تیار کر لیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وما النصر الامن عنداللہ ان اللہ عزیز حکیم ( الانفال:10 ) اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنی نصرت و مدد کے لئے کچھ شرطیں رکھی ہیں۔

:مثلا اس نے فرمایا ہے
ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم ( محمد:7 ) اگر تم اللہ کے ( دین کی ) مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔

یعنی جو مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ و دعوت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا ہے، انہیں غیر اقوام پر فتح و نصرت عطا کرتا ہے، جیسے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے۔ وہ دین کے ہو گئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہو گیا تھا، انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو تمام انسانوں کے لیے ذریعہ نجات ہے لیکن مقام افسوس کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ معتوب ہیں۔ ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ دشمنان ِ اسلام ہمارے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے، انھیں پا بزنداں کیا جا رہا ہے، طرح طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں، ہماری ماں بہنوں کی عزت و عصمت.......الغرض ؎

ایک دو زخم نہیں سارا جگر ہے چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

وہ قوم جس کی حشمت کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کی دیواریں ا س کے نام سے تھراتی تھیں، آج اس کے دامن پر ذلت و رسوائی کا داغ کیوں ہے؟ جو قوم بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی آج ہموار زمین پر بھی اس کے پیروں میں چھالے کیوں ہیں؟جس قوم کی تاریخ میں کشتیاں جلا ڈالنے کی روایت ہو آج اس کی عزم و ہمت مردہ کیسے ہو گئی ہے؟یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ آج اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، رات رات بھر تقریریں ہو رہی ہیں، سمینار اور کانفرنسیں کی جا رہی ہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی سامنے نہیں آ رہا ہے۔اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نااتفاقی ہے۔ ہم نے خود کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ مرض کی تشخیص بھی ہو چکی ہے لیکن پھر بھی صحیح سمت میں علاج کی کوئی تدبیر نہیں ہو رہی ہے۔ یہ علامت تو موت کی ہے کہ جب وہ آتی ہے تو طبیب کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ع

چوں قضا آید طبیب ابلہ شود

لیکن ہمارا ایمان ہے کہ دین محمدی ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں اور خواہ نام نہاد اطباءامت دوا کے نام پر کتنی ہی زہر کی پڑیا ہمیں کیوں نہ کھلا دیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مرض کی تشخیص ہو چکی تو اس کے علاج کی کوششیں کیوں نہیں ہو رہی ہیں اور اگر ہو رہی ہیں تو وہ کارگر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم صحب یاب ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم متحد ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہر جماعت کے پاس اتحاد کا طریقہ کار بس یہی ہے کہ میرے پرچم تلے آجاﺅ، میری دکان کے خریدار بن جاﺅتبھی تم فلاح پاﺅ گے۔آج ہر جماعت نے دین کے کسی ایک جُز کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اس کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ اسے سے آگے سوچنے اور کرنے کی اس کے پاس مہلت ہی نہیں۔ کسی نے شرک و بدعت کی کمر توڑنے کے لیے لاٹھی اُٹھا رکھی ہے تو کوئی صرف نماز کے لیے ہنکا رہا ہے۔ کہیں صرف اللہ ہُو اللہ ہُو کی تعلیم ہے تو کہیں نعرئہ تکبیر اللہ اکبر ہی دین کی سربلندی کا واحد راستہ ہے۔عوام کو فروعی معاملات میں الجھا کر انھیں دین سے برگشتہ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بات کا شعور بھی نہیں کہ غیر شعوری طور پر ہم اسلام دشمن سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ آج ہر کس و ناکس دینی مسائل پر گفتگو کرنے کا مجاز ہے۔ کفر، شرک، بدعت جیسی اصطلاحوں کی کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ دلوں سے خلوص ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور برگشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ایثار ، محبت، قربانی جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت رہ گئے ہیں

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ ہمارے قول و فعل میں آسمان و زمین جیسا تضاد پیدا ہو چکا ہے۔آج ہم میں کا ہر دوسرا شخص عالم و مصلح نظر آتا ہے لیکن عملی سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے اپنے قول و فعل پر غور کریں تو خود اپنی ذات سے ہی نفرت ہونے لگے۔آج دین ذلیل و رسوا ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے دین کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے اپنے آپ کو رسول صلی اللہ علیہ والسلم کے بتائے ہوئے راستوں پر چلایا ہی نہیں۔ہم نے دین سے نہیں اپنے نظریات سے محبت کی۔ ہم نے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے نہیں اپنے مسلک و مکتب کے فروغ کے لیے جدوجہدیں کیں۔آج بھی اگر ہم اخلاص کے ساتھ دین پر عمل کرنے والے بن جائیں تو ہزارہا اختلافات کے باوجود ہم متحد ہوں گے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں ایک مانتی ہے خواہ ہم کسی مسلک و مکتبہ فکر کے ہوں لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت چاہتے ہیں۔ گجرات کے قتل عام میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کون کس مکتبہ فکر کا ہے، عراق، فلسطین، افغانستان میں ہم سے ہمارا مسلک نہیں پوچھا جاتا۔ کاش کہ ہم یہود و نصاریٰ کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے، ہائے افسوس کہ ہماری عقل پر پردے پڑ گئے۔ ہم نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا۔ دین کو ہم نے محض ظاہر رسوم و قیود تک محدود کردیا۔دین کے تئیں ہمارا جذبہ عشق سرد پڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


: میری رائے
اللہ پاک بڑا مہربان ہے ۔ ہم پر بڑی مہربانی کرتا ہے۔ہماری شامتیں ہمارے ہی اعمال ہیں جو ہمارے آگے آتی رہتیں ہیں۔اگر آج بھی ہم اپنے حصے کے کام کرنا شروع کر دیں تو یقین کریں اللہ بڑا مہربان ہے۔ اوریقینن وہ ہمیں تنہا نہیں . چھوڑے گا ۔ ہمیں اپنے اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہو گا، وہ خود کہتا ہے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

آئیے اس بات کا عہد کریں کہ دین کی حقیقی روح تک پہنچے کی کوشش کی جائے۔آتشِ عشق کو بھڑکائے بغیر ہمارا شعورو فکر بیدار نہیں ہو سکتا۔ محبت و خلوص کے بغیر نہ تو اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی نصرت۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں دین کی صحیح سمجھ اور اپنے بھائیوں کے تئیں خلوص و محبت عطا فرما دے۔ اگر اللہ کا بتایا ہوا نظام اپنا لیا تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائے گے، انشاللہ۔۔۔۔۔

بلخصوص وطن عزیز کی خاطر بھول جاؤ اس بات کو کہ آپ سندھی ؛ پٹھان ؛ کشمیری ؛ بلوچی ؛ پنجابی ؛ سرائیکی یا کسی بھی علاقائی رنگ ؛ نسل ؛ زبان یا کسی بھی خاندان یا گروہ کے فرد ہو . بھول جاؤ کہ ہمارا کسی علاقائی ؛ لسانی یا گروہی جماعتوں سے کوئی تعلق ہے

آگے بڑھو اوراللہ کے لیے کام کرو تو اس کی نصرت شامل حال ہو گی۔ لیکن کام کسی اور کے لیے کرو اور نصرت کی امید اللہ سے رکھو یہ خلاف عقل بھی ہے۔ صرف ایک پاکستانی بن جاؤ . جس مٹی نے ہمیں شناخت اور عزت دی ہے آج وہی مٹی ہمیں پکار رہی ہے اور اسے ایک قوم کی تلاش ہے . اسے آج آگ اور خون کی نہیں بلکہ امن اور پیار کی ضرورت ہے

ہم سب کو ایک ہونا پڑیگا اب . بہت وقت ضائع ہو چکا ہے اب مزید مت ضائع کرو . . . بھول جاؤ سب تفرقوں کو اور ایک قوم بن جاؤ . . . زندہ اور باضمیر قوم . . ایک آزاد اور خود مختار قوم . . . ایک پاکستانی قوم . . . صرف ایک پاکستانی پرچم تلے ایک خوددار قوم.

انشا اللہ اللہ بہتری کرے گا انشا اللہ ۔۔۔۔۔

یا پروردگار اس ملک پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو سیدھا راستہ دیکھائے اور ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے۔

اللھم آمین یا رب العالمین​

حرف دعا
مخمور سید
 

Pak Zindabad

Councller (250+ posts)
A very good writing.......You exactly hit on the nail.........The problem is as you said, People know the treatment of their disease but still not doing it. Then who ......in the world .....can help them ? Even Allah has clearly mentioned in Surah Ra'ad that he helps those who help themself. And still all the blogs on internet are filled with the same sentence "We need good leader". Where will those leader come from ........if we are just doing talks?
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
نصرت آتی ہے ، پتا نہی الله کی ہے یا زرداری کی
پریذیدنسے میں آتی ہے