الله کی ماں نہیں ہے نہ -- اس لئے اسے احساس نہیں ہوتا
یہ الفاظ بے اختیار گداس دل سے نکل کر آنکھ کے آنسووں سے باہر نکلتے ہیں جب آپ لاچار بےبسی کی حالت میں ماں کو نا ختم ہونے والی شدید تکلیف میں دیکھتے ہیں. خود ہی اپنے منہ سے ہاتھ اٹھا کر ماں کی موت کی دعا کرتے ہیں شاید قبر کی مٹی میں ماں کو اس تکلیف سے آرام مل جائے
بقیہ تحریر ابوعلیحہ کی زبانی
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک بیٹا اپنی ماں کے اللہ پاک کے پاس جلد لوٹ جانے کی دعا کرے؟ یا پھر جذبات سے ملغوب ہوکر اللہ میاں کو برا بھلا کہے؟
مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ گزشتہ تین ماہ میں ، میں نے یہ افعال کئی بار سرانجام دیئے ہیں۔ والدہ کو اسٹیج تھری کینسر تھا ۔ کیمو تھراپی، سرجری اور ریڈیالوجی کے ایک طویل اور دردبھرے علاج کے بعد ان کی طبیعت چند ماہ کے لئے بہترہوئی اور پھر کینسر دوبارہ عود کرآیا۔ اس مرتبہ اسکا نشانہ پھیپھڑے تھے۔ چوبیس گھنٹے نا رکنے والی کھانسی ، کیمو تھراپی اور چلنے پھرنے سے معذوری، آپ اندازہ نہیں لگاسکتے اس خود دار خاتون کی کیفیت کا جس نے ساری زندگی ایک گلاس پانی بھی اپنی اولاد سے مانگ کر نہ پیا ہو، اب وہ کروٹ بدلنے کے لئے بھی دوسروں کی محتاج ، خود کو کتنا بے بس محسوس کرتی ہوگی۔ آپ ان کے پاس جاکر بیٹھتے ہیں، تسلی کے دو حرف بولنے کے لئے ان کی کھانسی ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ آپکی جانب دیکھ کر جبری مسکرانے اور باہمت نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آپ بھی بے پرواہی سے اسے عام کھانسی کہہ کر سیرپ کی شیشی سے دو چمچ مزید لینے کی تجویز دیکر کمرے سے باہر نکل آتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے آنسو نہ دیکھ پائیں۔ آپ چونکہ بڑے ہیں تو سب گھر والوں کی نگاہ آپ پر ہے کہ یہ کوئی کرتب دکھائے گا اور امی جھٹ سے ٹھیک ہوجائینگی
اور آپ رات کو جب سب سوجائیں تو ساتھ والے کمرے سے والدہ کو مسلسل کھانستے ہوئے سنتے ہیں۔ ۔تکئے میں منہ چھپاکر روتے ہیں۔ آنکھوں سے پانی خشک ہوجاتا ہے ، لیکن امی کی کھانسی ختم نہیں ہوتی۔ آپ اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک کی ان کی قربانیاں یاد کرکے آنکھوں کو دوبارہ تر کرتے ہیں۔ اور پھر تکیہ بھگونا شروع کرتے ہیں۔ اتنے میں اذانیں ہونے لگتی ہیں ۔ آپ کچن میں جاکر پانی کا گلاس فرج سے نکال کر ہونٹوں سے لگا کر کن اکھیوں سے کمرے کی جانب دیکھتے ہیں جہاں آپ کی والدہ درد کی شدت سے بےحال جاگ رہی ہیں۔ کچن کی لائٹ جلتے دیکھ کر وہ اپنی کھانسی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں ۔ آپ واپس آکر اپنے کمرے میں لیٹ جاتے ہیں۔ شدید قسم کی مایوسی کا دورہ آپ پر پڑتا ہے اور آپ پہلے تو اللہ جی کو خوب کوستے ہیں اور پھر اس کی طاقت کا ادراک کرتے ہوئے توبہ استغارکرنے کے بعد اللہ جی سے دعا کرتے ہیں کہ یا تو میری ماں کو اچھا کردے یا پھر انہیں اس عذاب سے نجات دلا دے۔ دن کو آپ گھر سے باہر رہتے ہیں اور شام کو گھر آتے ہی دوبارہ سے یہی ہوتا ہے
لندن میں مقیم ایک دوست سے فون پر بات ہوئی، بولے بہت افسوس ہوا والدہ کی وفات کا، میں نے جواب دیا کہ والدہ نہیں میرا والد فوت ہوا ہے۔ حیران ہوکر بولے، وہ کیسے؟
میں نے جواب دیا کہ آج سے بائیس سال قبل جب میرے والد فوت ہوئے تو میری ماں نے انکی قبر میں خود کو بھی دفن کردیا تھا ۔گزشتہ بائیس سال سے جو خاتون ہم سب کی کفالت کررہی تھی وہ میری ماں نہیں میرا باپ تھا۔ غریب گھرانوں میں جب کوئی خاتون بیوہ ہوجائے تو وہ شوہر کے دفن ہونے کے فوری بعد بچوں کی پرورش کے لئے خود اسکی جگہ سنبھال کر مرد اور باپ بن جاتی ہے
والدہ کو دفناکر واپس آرہے تھے، بیک سیٹ پر بیٹھے ایک دوست نے تسلی دینا چاہی کہ ایک دن سب کو جانا ہے، آپ بس دعا کریں کہ آپکی والدہ کا حساب اچھا ہو۔ میں نے مطمئن انداز میں انہیں کہا کہ فکر نہ کریں۔ انکا حساب نہیں ہوگا۔ حساب ہوگا ان کے شوہر کا جو انہیں پانچ بچوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر خود اللہ کے چلا گیا، حساب ہوگا انکے والد اور انکے بھائیوں کا جنہوں نے بیوگی کے دنوں میں اپنی بیٹی اور بہن کی اس طرح سے کفالت نہ کہ جس طرح انکا فرض تھا۔ اور حساب ہوگا اس خاتون کے مجھ سمیت تین نکمے اور نکھٹو بیٹوں کا جو اپنی والدہ کی قربانیوں کا حق ادا نہ کرسکے، انکی خدمت نہ کرپائے
ماوں کے حساب نہیں ہوتے، وہ جب اللہ کے پاس چلی جائیں تو ماں کی زندگی میں موجود ہر محرم مرد سے اسکی ذمہ داریوں کا حساب ہوتا ہے
میں شکر گزار ہوں ڈاکٹر Aatif Inam Shami صاحب کا، جنہوں نے میری والدہ کا علاج ایک فیملی ممبر کی حیثٰیت سے کیا اور تین ماہ قبل "والدہ کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے" بتلا کر مجھے کراچی سے فوری اسلام آباد آنے کاحکم دیا۔ جسکی وجہ سے مجھے والدہ کی تھوڑی بہت خدمت کرنے کا موقع ملا