ذیل میں الطاف حسین کی تقریر کا مکمل متن پیش خدمت ہے۔
میرے ذاتی ریمارکس:۔
ہر چیز کو اسکے مقام پر رکھنے کا نام انصاف ہے۔
میری رائے میں اہل وطن نے متحدہ کی دشمنی میں آ کر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے اور رینجرز کو انکے مقام سے بلند کر کر انہیں "لائسنس ٹو کِل" اور "ریاستی دہشتگردی" کا حق دے دیا ہے اور نتیجے میں کراچی کی عوام پر ہوتے ظلم اور ناانصافی سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
رینجرز اسی راستے پر گامزن ہے جو کہ 90 کی دہائی میں انکا خاصہ تھا جہاں رینجرز "حقیقی" بنا کر کراچی میں ریاستی دہشتگردی کے مرتکب تھے اور ایجنسیوں نے ہزاروں معصوموں کو جناح پور کے جھوٹے الزام میں ماورائے عدالت قتل کر ڈالا تھا اور آج تک کوئی اس معصوم خون کا حساب کتاب دینے والا کوئی نہیں۔
سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ رینجرز کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہیں جو انہیں ایک پلڑے میں رکھا جا سکے۔ رینجرز ایک ریاستی ادارہ ہے جسے ہر حال میں قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کاروائی کرنی چاہیے۔ ایک منصفانہ آپریشن کامیابی کی طرف جاتا ہے، لیکن 90 کی دہائی کی طرح ایک ریاستی دہشتگرد آپریشن کبھی کامیابی نہیں دلوا سکتا بلکہ وہ فقط اس بات کا باعث بنے گا کہ کراچی کی لاکھوں کی عوام پاکستان کی مخالف ہو جائے اور پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر متحدہ کو سپورٹ کرنے لگے جیسا کہ 90 کی دہائی میں ہوا۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے متحدہ کے خلاف کاروائی کی جائے۔ لیکن اگر ایجنسیاں ہزاروں افراد کو گرفتار کریں گی، پھر ان میں سے ہزاروں پر انسانیت سوز تشدد کریں گی، درجنوں افراد اس تشدد کے دوران ہی ہلاک ہو گئے، درجنوں افراد ابھی تک لا پتا ہیں۔۔۔۔ مگر افسوس کہ میرے اہل وطن فقط متحدہ کی دشمنی میں اس ظلم پر اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں۔
یقینی طور پر رینجرز کوئی "مقدس گائے" نہیں ہے۔ اور الطاف حسین سے آپ ہزار اختلاف کر لیں، مگر رینجرز کے غلط کاموں پر جو الطاف حسین نے تنقید کی ہے، وہ بالکل درست ہے۔
الطاف حسین تقریر کا مکمل متن:۔
http://www.mqm.org/urdunews/32234
لندن ۔۔۔ 12 جولائی 2015ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے پاکستان چاہیے، فوج ہماری ہے، ہم فوج کوبچاناچاہتے ہیں، ہم فوج کابرانہیں چاہتے، ہم پاک فوج کے ساتھ تھے اورساتھ ہیں، ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ فوج سے گندے انڈوں کونکالیں اور انکے خلاف ایکشن لیں جووردی کی آڑمیں بے گناہ شہریوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ان خیالات کااظہار جناب الطاف حسین نے لال قلعہ گراؤنڈعزیزآباد میں کارکنان کے ہنگامی اجلاس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جناب الطاف حسین کا یہ خطاب کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، نواب شاہ، سانگھڑاورٹنڈو الہیار میں بھی بیک وقت سنا گیا۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے کہاکہ گزشتہ روز رینجرزکے ترجمان کی جانب سے میڈیاکو بیان جاری کیا گیا کہ ایم کیوایم نائن زیروپر چھاپے کے حوالہ سے حقائق کو توڑ مروڑکرپیش کررہی ہے ، عوام کوگمراہ کررہی ہے اور رینجرز کی جانب سے دویا تین دن میں وہائٹ پیپر جاری کیاجائے گا جس میں نائن زیروپر چھاپے کے حوالہ سے تفصیل پیش کی جائے گی ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم ، سچی اورایماندار جماعت ہے جو دھونس ، دھمکی یا چوری چکاری نہیں کرتی اورنہ ہی حقائق کو توڑنا ،مروڑنا ایم کیوایم کی عادت ہے ۔ یہ ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر اورپوری رینجرز کا کام ہے کہ ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنوں کو پکڑو، انہیں تشدد کا نشانہ بناکر توڑو مروڑو اور پھر ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینک دو۔ اس وقت ڈی جی رینجرز وائسرائے کاکردار ادا کررہے ہیں اوروزیراعظم نوازشریف کے ذاتی ملازم بن کر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ فوج اورپیراملٹری فورسز ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ، ملک وقوم سے وفاداری اور انسانوں کی جان ومال کے تحفظ کا حلف لیتی ہیں لیکن پیراملٹری رینجرز کی جانب سے بے گناہ شہریوں کوگرفتارکرکے بہیمانہ تشددکا نشانہ بنانا اورانہیں قتل کرکے مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے کاعمل اپنے حلف کو توڑ مروڑ کر سڑک پرپھینکنے کے مترادف ہے ۔
ڈی جی رینجرز بلال اکبرباربار اپنے حلف کی خلاف ورزی کرچکے ہیں اور اب وہ محض دکھاوے کے میجر جنرل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے خلاف وہائٹ پیپر قوم کے سامنے لانے والے رینجرز کے اہلکاروں نے بے گناہ مہاجروں پر اس قدر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں کہ اگروہ قرآن مجید اٹھاکر بھی کوئی بات کہیں گے تو کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔ جناب الطاف حسین نے نائن زیروپر رینجرز کے چھاپے کے دوران غیرقانونی اور غیرآئینی اقدامات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہاکہ 11، مارچ 2015ء کو رینجرز نے میری رہائش گاہ نائن زیرو ،خورشید بیگم سیکریٹریٹ، میری بڑی بہن کی رہائش گاہ اور عزیزآباد کے اطراف میں چھاپے مارکر 150 سے زائد افراد کو گرفتارکے انہیں اطراف کی سڑکوں پربٹھادیا اوران کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا،گرفتارشدگان میں سے بعض افراد کے بارے میں دعویٰ کیا کہ انہیں نائن زیرو سے گرفتارکیاگیا ہے جبکہ یہ سراسر جھوٹ اور گمراہ کن ہے،
ان افراد کونائن زیرو یا خورشید بیگم سیکریٹریٹ سے نہیں بلکہ عزیزآباد کے اطراف سے گرفتارکرکے خورشید بیگم سیکریٹریٹ لایا گیااورپریس کے سامنے پیش کیاگیا۔اسی طرح رینجرز کی جانب سے ایم کیوایم کے خلاف دہشت گردی،نیٹو کا اسلحہ رکھنے اور بھارت سے دہشت گردی کی تربیت لینے کے الزامات لگائے گئے لیکن جب کراچی میں ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے گئے کیا کسی ایک جگہ بھی رینجرز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا؟ اور کیا کسی ایک بھی جگہ گولی چلی ؟اگر ہم دہشت گرد ہوتے تو کیا رینجرزکے اہلکار اتنی آسانی سے ایم کیوایم کے مرکز میں داخل ہوسکتے تھے ؟ رینجرز کے الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ نائن زیروپر چھاپے کے بعد میڈیا کوبریفنگ دیتے ہوئے رینجرز کے کرنل طاہرنے اعتراف کیا کہ چھاپے کے دوران ایم کیوایم کے رہنماؤں کی جانب سے تعاون کیاگیا اور ہمیں کسی قسم کی مزاحمت کاسامنا نہیں کرناپڑا۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ رینجرز کے کرنل طاہر نے پوری قوم کے سامنے یہ جھوٹ بولا کہ ہم ،ایم کیوایم کے رہنما عامر خان کو گرفتارنہیں کررہے ، وہ ہمارے مہمان ہیں اور انہیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑدیا جائے گالیکن اگلے ہی روز رینجرز نے عامر خان کو جنگی قیدیوں کی طرح آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر عدالت میں پیش کرکے 90 روزکا ریمانڈحاصل کرلیا،کیا اس غلط بیانی پر رینجرز کے کرنل کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟کیاغلط بیانی پرکرنل طاہر کے تمغے یا اسٹاراتارے گئے ؟ان کے جھوٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ رینجرز کی جانب سے ایم کیوایم کے 26 کارکنان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کا الزام تو عائد کیاگیا ہے لیکن ان ایف آئی آرز میں نیٹو اسلحہ کا ذکرنہیں کیاگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ نائن زیرو سے برآمد کیا گیا تمام اسلحہ لائسنس یافتہ تھا ،
یہ لائسنس حق پرست ارکان اسمبلی کے نام پر تھے اور ان اسلحہ کے ساتھ ہی ان کے لائسنس بھی منسلک تھے جو میڈیا پر دکھائے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نائن زیرو سے غیرقانونی اسلحہ برآمد کرنے کادعویٰ قطعی جھوٹا اور بے بنیاد ہے ۔رینجرز کی جانب سے یہ اعتراف کیا گیاکہ نائن زیرو سے ملنے والا 90 فیصد اسلحہ قانونی ہے لیکن جب ارکان اسمبلی کی جانب سے مطالبہ کیاگیا کہ یہ اسلحہ واپس کیاجائے تو غنڈہ گردی کی انتہاء ہے کہ ہمارا ایک بھی قانونی اسلحہ واپس نہیں کیاگیا ۔کیا یہ رینجرزکی کھلی لاقانونیت نہیں ہے ؟ رینجرز کے میجر جنرل ملک کے تحفظ کیلئے بنائے جاتے ہیں یا غنڈہ گردی کیلئے ؟ بلال اکبر ،ڈی جی رینجرز ہے یا بدمعاشوں کا ڈان ہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ رینجرز کی جانب سے نائن زیروپر چھاپے کے دوران ایم کیوایم شعبہ اطلاعات کے جواں سال رکن اورشعلہ بیاں مقررسید وقاص علی شاہ کو فائرنگ کرکے شہید کرکے جھوٹ بولاگیا کہ وقاص شاہ کو چھوٹے اسلحہ سے قتل کیا گیا ہے اور رینجرز کے اہلکار چھوٹا اسلحہ استعمال نہیں کرتے لیکن میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹس میں رینجرز کے اہلکاروں کوچھوٹا اسلحہ اٹھائے دکھایا گیا ہے ۔یہ تصاویر اور وڈیو ہمارے ریکارڈ میں بھی موجود ہیں ۔ عینی شاہدین کے بیان کی روشنی میں رینجرز کے خلاف قتل کی ایف آئی آرکے اندراج کیلئے سیشن کورٹ سے رجوع کیاگیاتھا لیکن سیشن کورٹ کی جانب سے کہاگیا کہ پولیس کی مدعیت میں جوایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں گواہان کو پیش کیاجائے جس پرمتعلقہ SIU سے رابطہ کیا گیالیکن اس نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے سے انکارکرتے ہوئے جھوٹے گواہوں کی بنیاد پرایم کیوایم کے ایک کارکن کوہی وقاص شاہ کے قتل میں ملوث کردیا اوربے گناہ کو سزادلوانے کی سازش کررہے ہیں تاکہ وقاص شاہ کے قتل میں ملوث رینجرز اہلکاروں کو بچایاجاسکے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ اسی طرح رینجرز نے غلط بیانی کرتے ہوئے نائن زیرو پر چھاپہ میں خورشید بیگم سیکریٹریٹ کے باورچی نورالدین سبحانی کو بھی گرفتارکرکے انہیں انتہائی خطرناک ، مطلوب دہشت گرداورٹارگٹ کلر کے طورپر میڈیا پر پیش کیا،ان کے گلے میں نام کی تختی ڈال کر یہ تصاویر میڈیا کوجاری گئیں لیکن جب معلوم ہوا کہ نورالدین سبحانی بے گناہ باورچی ہے تو انہیں خاموشی سے رہا کردیاگیا لیکن آج تک قوم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ رینجرز نے خورشید بیگم سیکریٹریٹ کے باورچی کو دہشت گرد کے طورپر کیوں پیش کیا ۔ رینجرز نے نورالدین سبحانی اور ایم کیوایم سے اس جھوٹ پر معافی مانگنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ۔جناب الطاف حسین نے مزید کہاکہ نائن زیروپر چھاپے کے اگلے روز کورکمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کو رینجرز ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران نائن زیرو پر چھاپہ کے بارے میں بریفنگ دینے کے ساتھ ساتھ وہاں سے مبینہ طورپر برآمد کیے گئے ہتھیاروں کی فہرست بھی پیش کی گئی جو اگلے روز کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔
اس فہرست میں کہیں بھی ’’اعوان‘‘ نامی کسی بم کا تذکرہ نہیں تھا لیکن بعدازاں نائن زیرو سے گرفتار کیے گئے ایم کیوایم کے بعض کارکنوں کے پاس سے اعوان بم برآمد ہونے کی جھوٹی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔کیایہ کھلی دھاندلی ، عیاری اور مکاری نہیں ہے ؟ کیا کسی ملک کی فوج اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کرتی ہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ فوج کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو پوری فوج کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ، ایسے ہی لوگوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں نہ صرف نہتے بنگالیوں کو نشانہ بنایا بلکہ ایک لاکھ سے زائد
بنگالی بچیوں کی عصمت دری کرکے انہیں حاملہ کردیا۔ کیا اسلامی فوج ایسا عمل کرتی ہے ؟ کیا فوج کے Code of Conduct میں کہیں یہ لکھا ہے کہ فوج یا اس کے نیم فوجی ادارے ، رینجرز وغیرہ ، کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی چارج شیٹ جاری کریں؟ رینجرز ، ایک سیکوریٹی فورس ہے یا سیاسی پارٹی ہے؟ انہوں نے کہاکہ میجرجنرل بلال اکبر نے اپنے حلف کو توڑا ہے ، اب وہ فوجی نہیں رہے ، بہتر ہے کہ وہ خود اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں اوردوسال انتظارکرنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بناکر اس کے صدربن جائیں اور رینجرز کے کرنل طاہر کوجنرل سیکریٹری بنادیں۔ جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایک پروفیشنل فوجی افسر ہیں ، ہمیں آپ سے امید ہے کہ آپ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے منصفانہ فیصلے کریں گے اور جس طرح سندھ رینجرز کے ڈی جی اور دیگر افسران ،فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کررہے ہیں اس کا نوٹس لیں گے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ ایم کیوایم گزشتہ 37 برس سے وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود دکھی انسانیت کی خدمت کرتی چلی آرہی ہے ، خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت غریب بیواؤں ، یتیموں ، ناداروں اور طلباء کی مالی امداد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے اور ہرسال رمضان المبارک کے آخر ی عشرے میں سالانہ امدادی پروگرام منعقد کرکے غرباء ومساکین میں کروڑوں روپے مالیت کی امدادی اشیاء اور نقد رقوم تقسیم کی جاتی رہی ہیں لیکن اس سال ڈی جی رینجرز ، میجرجنرل بلال اکبر کی جانب سے ایم کیوایم کے کارکنوں اورخدمت خلق فاؤنڈیشن کے رضاکاروں پر زکوٰۃ ، فطرہ اوردیگرعطیات جمع کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے ،رینجرز کی جانب سے کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں بینرز اورپوسٹرز لگاکر شہریوں کو دھمکایاجارہا ہے ، زکوٰۃ ،فطرہ اور دیگرعطیات جمع کرنے والے کارکنوں اور رضاکاروں کو گرفتارکرکے جھوٹے مقدمات میں ملوث کیاجارہا ہے کہ یہ افراد زبردستی بھتہ جمع کررہے تھے ۔انہوں نے کہاکہ مالی مشکلات کے باعث رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھاکہ اس سال سالانہ امدادی پروگرام منعقد نہ کیاجائے لیکن میں نے رابطہ کمیٹی اور منتخب نمائندوں سے کہاہے کہ سالانہ امدادی پروگرام گزشتہ 37 برسوں سے جاری ہے ، مالی مشکلات خواہ کتنی بھی شدید کیوں نہ ہوں لیکن سالانہ امدادی پروگرام اس سال بھی ضرورہوگا،کیونکہ اس امدادی پروگرام کی وجہ سے ہزاروں غریب خاندانوں کو عیدکی خوشیاں منانے کا موقع مل جاتا ہے ۔
جناب الطاف حسین نے تمام حق پرست سینیٹرز ، ارکان قومی ، صوبائی اسمبلی ، ڈیفنس کلفٹن ،گلشن اقبال،سوسائٹی اور ناظم آباد ریزیڈنٹس کمیٹیوں کے ارکان پر زوردیا کہ وہ مخیرحضرات سے رابطہ کرکے ان سے مالی تعاون کی اپیل کریں اور عوام سے بھی رابطہ کرکے ان سے اپیل کریں کہ وہ زکوٰۃ، فطرہ ، صدقہ اوردیگر عطیات ازخود نائن زیرو اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کے دفاتر میں جمع کرائیں تاکہ غریب ومستحق افراد کوبھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جاسکے۔
جناب الطاف حسین نے اپنے خطاب کے دوران حالیہ آپریشن میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے چند واقعات بھی بیان کئے۔انہوں نے اسکیم 33کے چارکارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہاکہ13 اپریل 2014ء کو کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں ایم کیوایم کے کارکنان اورعلاقے کے دیگر نوجوان فلیٹس میں واقع ڈبوکلب میں کھیل رہے تھے کہ رینجرزنے وہاں چھاپہ مارا اور9کارکنان کو گرفتار کرلیا ۔ ان میں سے 3کارکنوں کو تورینجرزنے تھوڑی دیربعد مارپیٹ کے چھوڑدیالیکن 6کارکنوں کوغائب کردیاگیا۔ایم کیوایم کے ذمہ داران رینجرز حکام سے ان کارکنوں کی بازیابی کیلئے رابطے کرتے رہے ۔
ان کارکنوں کے اہل خانہ اپنے بچوں کے بارے میں رینجرز کے دفاتر کے چکرلگاتے رہے لیکن ان گرفتار شدگان کے بارے میں کچھ نہیں بتایاگیا۔ 30 اپریل کوان6 میں سے چارکارکنوں 22سالہ فیضان الدین، 24سالہ علی حیدر، 24سالہ صمید خان اور 22 سالہ سلمان مشتاق کی ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں ملیرکے علاقے میمن گوٹھ سے پائی گئیں۔ان چاروں پربری طرح تشددکیاگیاتھا۔ ان 6 میں سے دوکارکنان 37سالہ صہیب اور36سالہ ضیاء الرحمن آج تک لاپتہ ہیں ۔ 8فروری 2014ء کو نارتھ کراچی کے علاقہ سیکٹر5C میں رینجرزنے ایم کیوایم کے کارکنوں کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا اور وہاں سے ایم کیوایم کے کارکن محمدعادل ولدمحمدسلطان مرحوم کوگرفتارکیا۔ محمدعادل کوگرفتاری کے بعد نیوکراچی میں واقع رینجرزہیڈکوارٹر میں لیجاکر6گھنٹوں تک غیرانسانی تشدد کانشانہ بنایااورجب وہ قریب المرگ ہوگئے تو ان کی فیملی کوبلاکرنیم مردہ حالت میں ان کی فیملی کے حوالے کیاگیا۔ان کی فیملی انہیں نیم مردہ حالت میں اسپتال لے کرپہنچی لیکن رینجرزکے تشدد کے نتیجے میں وہ شہیدہوگئے ۔اسی طرح ایم کیوایم برنس روڈ سیکٹرکے یونٹ انچارج اجمل بیگ کورینجرزنے 18مئی 2013ء کوریلوے کالونی کی حنفیہ مسجد سے نماز کی ادائیگی کے دوران گرفتارکیااورانہیں ڈی جے کالج کے پاس واقع ہیڈکوارٹرمیں لیجاکرانسانیت سوزتشددکانشانہ بنایااورجب وہ قریب المرگ ہوگئے تورینجرزنے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس نے اجمل بیگ کواسپتال منتقل کیالیکن رینجرزکے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں 27مئی 2013ء کواجمل بیگ شہیدہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایم کیوایم کے کتنے ہی کارکنوں کوگرفتارکرکے انہیں تشددکرکے ماورائے عدالت قتل کرکے ان کی لاشیں شہرکے مختلف علاقوں میں ویرانوں میں پھینک دی گئیں۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ اس حالیہ آپریشن میں ایم کیوایم کے 52کارکنان ماورائے عدالت قتل کئے جاچکے ہیں۔ 4 ہزار سے زائد کارکنوں کوگرفتارکیاجاچکاہے جن میں سے سینکڑوں کارکنان آج بھی جیلوں میں بندہیں۔ اس آپریشن کے دوران 22 کارکنان لاپتہ کردیا گیاہے جن کی پٹیشنز عدالتوں میں دائرہیں ،ایم کیوایم کے گرفتارشدگان کوسرکاری ٹارچرسیلوں میں بہیمانہ تشددکانشانہ بنایاجارہاہے، انہیں الٹا لٹکاکرتشدد کیاجارہا ہے ۔ انہیں الیکٹرک کرنٹ دیے جارہے ہیں۔
جن کارکنوں کو90دن کے ریمانڈ پر جیل میں رکھاجاتاہے انہیں تفتیش کے نام پر جیل سے نکال نکال کر کئی کئی روز تک سرکاری ٹارچرسیلوں میں تشددکانشانہ بنایاجارہاہے۔ایم کیوایم کے گرفتارشدگان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں،ان پر ایک ایک کلو چرس برآمدہونے کے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں تاکہ ان کی ضمانت نہ ہوسکے۔ جناب الطا ف حسین نے ڈی جی رینجرزجنرل بلال اکبرکومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ایم کیوایم کے جوکارکنان بے گناہ مارے گئے کیاوہ کسی کے بچے نہیں تھے؟کیاآپ کواللہ تعالیٰ کے ہاں جواب نہیں دیناہے؟انہوں نے کہاکہ جن سرکاری اہلکاروں نے ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنوں کوتشددکرکے ماورائے عدالت قتل کیاہے وہ دنیامیں توبچ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں نہیں بچ سکتے اورانہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ایک ایک جرم کاحساب دیناہوگا۔انہوں نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں پر اپناعذاب نازل کراورانہیں نیست ونابود کر۔
جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگرمہاجروں پر ایسے ظلم ہوتارہا، توآج تومیں ہوں اورعوام کو امن کادرس دے رہاہوں اورعوام صبروضبط سے کام لے رہیں لیکن اگر خدانخواستہ کل میں نہ رہاتوآج صبروضبط سے کام لینے والے کل باغی بن جائیں گے اور شہرصومالیہ بن جائے گا۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اگرواقعی بہادرہیں تووہ اپنی طاقت کے جوہر نہتے مہاجروں پردکھانے کے بجائے مقبوضہ کشمیر جائیں اوروہاں جاکرکشمیری ماؤں بہنوں کوبھارتی فوج کے مظالم سے بچائیں۔انہوں نے کہاکہ آج کاپنڈال مطالبہ کرتاہے کہ جنرل بلال اکبرکومقبوضہ کشمیر بھیجاجائے تاکہ وہ وہاں بھارتی فوج سے لڑکر1971ء کابدلہ لے سکیں ۔اس بات پر اجلاس کے تمام شرکاء نے ہاتھ اٹھاکراس مطالبہ کی تائید کی ۔ انہوں نے کہاکہ ڈی جی رینجرزمیجرجنرل بلال اکبرکوچاہیے کہ وہ ایم کیوایم کے خلاف رپورٹ پیش کرنے کے بجائے سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کریں۔
جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ گندے لوگ ہرجگہ ہوتے ہیں، فوج میں بھی ہیں۔ جی ایچ کیو، نیول بیس، کامرہ ایئربیس، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرزاوردیگرحساس مقامات پر حملہ کرنے والوں میں باہرکے لوگ نہیں بلکہ فوج کے اندرکے لوگ شامل تھے لیکن کیااس کی بنیادپر پوری فوج کوموردالزام ٹھہرایاجائے؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ ہم فوج کے نہیں بلکہ فوج میں موجود گندے انڈوں کے خلاف ہیں۔جنرل راحیل شریف خدارا پاکستان کوبچالیں اورفوج سے ان گندے انڈوں کو نکالیں جنہوں نے سویلینز کی طرح کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کی۔ان کوپکڑاجائے ورنہ یہ فوج کودیمک کی طرح کھاجائیں گے۔انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے پاکستان چاہیے، فوج ہماری ہے، ہم فوج کوبچاناچاہتے ہیں، قومی سلامتی کے اداروں کوبچاناچاہتے ہیں، ہم فوج کابرانہیں چاہتے، ہم پاک فوج کے ساتھ تھے اورساتھ ہیں، ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ فوج سے گندے انڈوں کونکالیں اور انکے خلاف ایکشن لیں جووردی کی آڑمیں بے گناہ شہریوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، جنہوں نے این اے 246کے ضمنی انتخابات میں خواتین پردباؤڈالاکہ وہ بلے پر مہرلگائیں۔ جناب الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کو ہدایت کی کہ آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے کارکنوں کے بارے میں تیارکیاجانے والا کتابچہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کوفی الفوربھجوائیں تاکہ انہیں بھی معلوم ہوکہ کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کوکس طرح ماورائے عدالت قتل کیاجارہاہے اورجب اس طرح کا ظلم ہوتاہے تواس سے محبتیں نہیں نفرتیں جنم لیتی ہیں اورباغی پیداہو تے ہیں۔
جناب الطا ف حسین نے بلوچستان میں بھی بلوچ رہنماؤں اورنوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔کچھ ماہ قبل بھی ایک ساتھ کئی مسخ شدہ لاشیں برآمدہوئیں۔ انہوں نے تین رہنماؤں کے ماورائے عدالت قتل کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ 3 اپریل 2009ء کوبلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد، بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے نائب صدر شیرمحمدبلوچ اوربلوچ نیشنل فرنٹ کے سیکریٹری جنرل لالہ منیر بلوچ ڈسٹرکٹ تربت کے سیشن کورٹ میں اپنی ضمانت کیلئے گئے تھے۔ضمانت منظورہونے کے بعد تینوں بلوچ رہنمامقامی وکیل کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفترمیں بیٹھے تھے کہ سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں
وہاں سے گرفتارکرلیا۔
پانچ روزبعدیعنی 8 اپریل 2009ء کو ان تینوں رہنماؤں کی تشددزدہ لاشیں تربت کے علاقے پدراک سے پائی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے واقعات سے لوگوں کے دلوں میں اچھے جذبات پیدانہیں ہوتے ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں ریلیوں اورپاکستانی جھنڈے لہرانے پر کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیاہے اورہماری رینجرزہماری ریلیوں اورسرگرمیوں پر پابندی لگارہی ہے اوریہ کہتی ہے کہ ایم کیوایم کے فلاحی ادارے کوچندہ جمع کرنے نہیں دیں گے، چندہ جمع کرنے کی اجازت صرف عمران خان کوہوگی جوفوج کوبرابھلاکہتاہے اوراپنے ایک اجلاس میں اس نے یہاں تک کہہ دیاکہ ’’ 20 ہزارلوگوں کوسڑکوں پرلے آؤ توجرنیلوں کاپیشاب نکل آئے گا ‘‘ ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ اکثرٹی وی ٹاک شوزمیں ریٹائرڈفوجی اوردفاعی تجزیہ نگاراپنے تبصروں میں کہتے ہیں کہ اب توبھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اقرارکرلیاہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کوالگ کرانے میں مکتی باہنی کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ تبصرے کرنے والے اگراتنے ہی بہادرہیں توتنقیدکرنے کے بجائے بھارتی وزیراعظم کے خلاف کچھ عملی اقدام کیوں نہیں کرتے ؟انہوں نے کراچی میں ہونے والی زیادتیوں کانوٹس لینے کے بجائے اس کوسپورٹ کرنے پر چوہدری نثارکوبھی تنقیدکانشانہ بنایااورکہاکہ وہ آئے دن الٹاسیدھابولتے ہیں لیکن انہیں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاکوئی احساس نہیں ۔ جناب الطاف حسین نے ذمہ داران وکارکنان سے کہاکہ وہ اپنے حوصلوں کوبلندرکھیں، ہم نے تہیہ کررکھاہے کہ ہم کسی بھی ظلم کے آگے سرنہیں جھکائیں گے۔
میری پاکستانی قوم والوں میں سے کس کو نہیں علم کہ ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان کو حراست کے دوران انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے؟
میرے ذاتی ریمارکس:۔
ہر چیز کو اسکے مقام پر رکھنے کا نام انصاف ہے۔
میری رائے میں اہل وطن نے متحدہ کی دشمنی میں آ کر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے اور رینجرز کو انکے مقام سے بلند کر کر انہیں "لائسنس ٹو کِل" اور "ریاستی دہشتگردی" کا حق دے دیا ہے اور نتیجے میں کراچی کی عوام پر ہوتے ظلم اور ناانصافی سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
رینجرز اسی راستے پر گامزن ہے جو کہ 90 کی دہائی میں انکا خاصہ تھا جہاں رینجرز "حقیقی" بنا کر کراچی میں ریاستی دہشتگردی کے مرتکب تھے اور ایجنسیوں نے ہزاروں معصوموں کو جناح پور کے جھوٹے الزام میں ماورائے عدالت قتل کر ڈالا تھا اور آج تک کوئی اس معصوم خون کا حساب کتاب دینے والا کوئی نہیں۔
سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ رینجرز کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہیں جو انہیں ایک پلڑے میں رکھا جا سکے۔ رینجرز ایک ریاستی ادارہ ہے جسے ہر حال میں قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کاروائی کرنی چاہیے۔ ایک منصفانہ آپریشن کامیابی کی طرف جاتا ہے، لیکن 90 کی دہائی کی طرح ایک ریاستی دہشتگرد آپریشن کبھی کامیابی نہیں دلوا سکتا بلکہ وہ فقط اس بات کا باعث بنے گا کہ کراچی کی لاکھوں کی عوام پاکستان کی مخالف ہو جائے اور پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر متحدہ کو سپورٹ کرنے لگے جیسا کہ 90 کی دہائی میں ہوا۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے متحدہ کے خلاف کاروائی کی جائے۔ لیکن اگر ایجنسیاں ہزاروں افراد کو گرفتار کریں گی، پھر ان میں سے ہزاروں پر انسانیت سوز تشدد کریں گی، درجنوں افراد اس تشدد کے دوران ہی ہلاک ہو گئے، درجنوں افراد ابھی تک لا پتا ہیں۔۔۔۔ مگر افسوس کہ میرے اہل وطن فقط متحدہ کی دشمنی میں اس ظلم پر اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں۔
یقینی طور پر رینجرز کوئی "مقدس گائے" نہیں ہے۔ اور الطاف حسین سے آپ ہزار اختلاف کر لیں، مگر رینجرز کے غلط کاموں پر جو الطاف حسین نے تنقید کی ہے، وہ بالکل درست ہے۔
الطاف حسین تقریر کا مکمل متن:۔
http://www.mqm.org/urdunews/32234
لندن ۔۔۔ 12 جولائی 2015ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے پاکستان چاہیے، فوج ہماری ہے، ہم فوج کوبچاناچاہتے ہیں، ہم فوج کابرانہیں چاہتے، ہم پاک فوج کے ساتھ تھے اورساتھ ہیں، ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ فوج سے گندے انڈوں کونکالیں اور انکے خلاف ایکشن لیں جووردی کی آڑمیں بے گناہ شہریوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ان خیالات کااظہار جناب الطاف حسین نے لال قلعہ گراؤنڈعزیزآباد میں کارکنان کے ہنگامی اجلاس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جناب الطاف حسین کا یہ خطاب کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، نواب شاہ، سانگھڑاورٹنڈو الہیار میں بھی بیک وقت سنا گیا۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے کہاکہ گزشتہ روز رینجرزکے ترجمان کی جانب سے میڈیاکو بیان جاری کیا گیا کہ ایم کیوایم نائن زیروپر چھاپے کے حوالہ سے حقائق کو توڑ مروڑکرپیش کررہی ہے ، عوام کوگمراہ کررہی ہے اور رینجرز کی جانب سے دویا تین دن میں وہائٹ پیپر جاری کیاجائے گا جس میں نائن زیروپر چھاپے کے حوالہ سے تفصیل پیش کی جائے گی ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم ، سچی اورایماندار جماعت ہے جو دھونس ، دھمکی یا چوری چکاری نہیں کرتی اورنہ ہی حقائق کو توڑنا ،مروڑنا ایم کیوایم کی عادت ہے ۔ یہ ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر اورپوری رینجرز کا کام ہے کہ ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنوں کو پکڑو، انہیں تشدد کا نشانہ بناکر توڑو مروڑو اور پھر ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینک دو۔ اس وقت ڈی جی رینجرز وائسرائے کاکردار ادا کررہے ہیں اوروزیراعظم نوازشریف کے ذاتی ملازم بن کر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ فوج اورپیراملٹری فورسز ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ، ملک وقوم سے وفاداری اور انسانوں کی جان ومال کے تحفظ کا حلف لیتی ہیں لیکن پیراملٹری رینجرز کی جانب سے بے گناہ شہریوں کوگرفتارکرکے بہیمانہ تشددکا نشانہ بنانا اورانہیں قتل کرکے مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے کاعمل اپنے حلف کو توڑ مروڑ کر سڑک پرپھینکنے کے مترادف ہے ۔
ڈی جی رینجرز بلال اکبرباربار اپنے حلف کی خلاف ورزی کرچکے ہیں اور اب وہ محض دکھاوے کے میجر جنرل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے خلاف وہائٹ پیپر قوم کے سامنے لانے والے رینجرز کے اہلکاروں نے بے گناہ مہاجروں پر اس قدر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں کہ اگروہ قرآن مجید اٹھاکر بھی کوئی بات کہیں گے تو کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔ جناب الطاف حسین نے نائن زیروپر رینجرز کے چھاپے کے دوران غیرقانونی اور غیرآئینی اقدامات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہاکہ 11، مارچ 2015ء کو رینجرز نے میری رہائش گاہ نائن زیرو ،خورشید بیگم سیکریٹریٹ، میری بڑی بہن کی رہائش گاہ اور عزیزآباد کے اطراف میں چھاپے مارکر 150 سے زائد افراد کو گرفتارکے انہیں اطراف کی سڑکوں پربٹھادیا اوران کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا،گرفتارشدگان میں سے بعض افراد کے بارے میں دعویٰ کیا کہ انہیں نائن زیرو سے گرفتارکیاگیا ہے جبکہ یہ سراسر جھوٹ اور گمراہ کن ہے،
ان افراد کونائن زیرو یا خورشید بیگم سیکریٹریٹ سے نہیں بلکہ عزیزآباد کے اطراف سے گرفتارکرکے خورشید بیگم سیکریٹریٹ لایا گیااورپریس کے سامنے پیش کیاگیا۔اسی طرح رینجرز کی جانب سے ایم کیوایم کے خلاف دہشت گردی،نیٹو کا اسلحہ رکھنے اور بھارت سے دہشت گردی کی تربیت لینے کے الزامات لگائے گئے لیکن جب کراچی میں ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے گئے کیا کسی ایک جگہ بھی رینجرز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا؟ اور کیا کسی ایک بھی جگہ گولی چلی ؟اگر ہم دہشت گرد ہوتے تو کیا رینجرزکے اہلکار اتنی آسانی سے ایم کیوایم کے مرکز میں داخل ہوسکتے تھے ؟ رینجرز کے الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ نائن زیروپر چھاپے کے بعد میڈیا کوبریفنگ دیتے ہوئے رینجرز کے کرنل طاہرنے اعتراف کیا کہ چھاپے کے دوران ایم کیوایم کے رہنماؤں کی جانب سے تعاون کیاگیا اور ہمیں کسی قسم کی مزاحمت کاسامنا نہیں کرناپڑا۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ رینجرز کے کرنل طاہر نے پوری قوم کے سامنے یہ جھوٹ بولا کہ ہم ،ایم کیوایم کے رہنما عامر خان کو گرفتارنہیں کررہے ، وہ ہمارے مہمان ہیں اور انہیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑدیا جائے گالیکن اگلے ہی روز رینجرز نے عامر خان کو جنگی قیدیوں کی طرح آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر عدالت میں پیش کرکے 90 روزکا ریمانڈحاصل کرلیا،کیا اس غلط بیانی پر رینجرز کے کرنل کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟کیاغلط بیانی پرکرنل طاہر کے تمغے یا اسٹاراتارے گئے ؟ان کے جھوٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ رینجرز کی جانب سے ایم کیوایم کے 26 کارکنان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کا الزام تو عائد کیاگیا ہے لیکن ان ایف آئی آرز میں نیٹو اسلحہ کا ذکرنہیں کیاگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ نائن زیرو سے برآمد کیا گیا تمام اسلحہ لائسنس یافتہ تھا ،
یہ لائسنس حق پرست ارکان اسمبلی کے نام پر تھے اور ان اسلحہ کے ساتھ ہی ان کے لائسنس بھی منسلک تھے جو میڈیا پر دکھائے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نائن زیرو سے غیرقانونی اسلحہ برآمد کرنے کادعویٰ قطعی جھوٹا اور بے بنیاد ہے ۔رینجرز کی جانب سے یہ اعتراف کیا گیاکہ نائن زیرو سے ملنے والا 90 فیصد اسلحہ قانونی ہے لیکن جب ارکان اسمبلی کی جانب سے مطالبہ کیاگیا کہ یہ اسلحہ واپس کیاجائے تو غنڈہ گردی کی انتہاء ہے کہ ہمارا ایک بھی قانونی اسلحہ واپس نہیں کیاگیا ۔کیا یہ رینجرزکی کھلی لاقانونیت نہیں ہے ؟ رینجرز کے میجر جنرل ملک کے تحفظ کیلئے بنائے جاتے ہیں یا غنڈہ گردی کیلئے ؟ بلال اکبر ،ڈی جی رینجرز ہے یا بدمعاشوں کا ڈان ہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ رینجرز کی جانب سے نائن زیروپر چھاپے کے دوران ایم کیوایم شعبہ اطلاعات کے جواں سال رکن اورشعلہ بیاں مقررسید وقاص علی شاہ کو فائرنگ کرکے شہید کرکے جھوٹ بولاگیا کہ وقاص شاہ کو چھوٹے اسلحہ سے قتل کیا گیا ہے اور رینجرز کے اہلکار چھوٹا اسلحہ استعمال نہیں کرتے لیکن میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹس میں رینجرز کے اہلکاروں کوچھوٹا اسلحہ اٹھائے دکھایا گیا ہے ۔یہ تصاویر اور وڈیو ہمارے ریکارڈ میں بھی موجود ہیں ۔ عینی شاہدین کے بیان کی روشنی میں رینجرز کے خلاف قتل کی ایف آئی آرکے اندراج کیلئے سیشن کورٹ سے رجوع کیاگیاتھا لیکن سیشن کورٹ کی جانب سے کہاگیا کہ پولیس کی مدعیت میں جوایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں گواہان کو پیش کیاجائے جس پرمتعلقہ SIU سے رابطہ کیا گیالیکن اس نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے سے انکارکرتے ہوئے جھوٹے گواہوں کی بنیاد پرایم کیوایم کے ایک کارکن کوہی وقاص شاہ کے قتل میں ملوث کردیا اوربے گناہ کو سزادلوانے کی سازش کررہے ہیں تاکہ وقاص شاہ کے قتل میں ملوث رینجرز اہلکاروں کو بچایاجاسکے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ اسی طرح رینجرز نے غلط بیانی کرتے ہوئے نائن زیرو پر چھاپہ میں خورشید بیگم سیکریٹریٹ کے باورچی نورالدین سبحانی کو بھی گرفتارکرکے انہیں انتہائی خطرناک ، مطلوب دہشت گرداورٹارگٹ کلر کے طورپر میڈیا پر پیش کیا،ان کے گلے میں نام کی تختی ڈال کر یہ تصاویر میڈیا کوجاری گئیں لیکن جب معلوم ہوا کہ نورالدین سبحانی بے گناہ باورچی ہے تو انہیں خاموشی سے رہا کردیاگیا لیکن آج تک قوم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ رینجرز نے خورشید بیگم سیکریٹریٹ کے باورچی کو دہشت گرد کے طورپر کیوں پیش کیا ۔ رینجرز نے نورالدین سبحانی اور ایم کیوایم سے اس جھوٹ پر معافی مانگنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ۔جناب الطاف حسین نے مزید کہاکہ نائن زیروپر چھاپے کے اگلے روز کورکمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کو رینجرز ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران نائن زیرو پر چھاپہ کے بارے میں بریفنگ دینے کے ساتھ ساتھ وہاں سے مبینہ طورپر برآمد کیے گئے ہتھیاروں کی فہرست بھی پیش کی گئی جو اگلے روز کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔
اس فہرست میں کہیں بھی ’’اعوان‘‘ نامی کسی بم کا تذکرہ نہیں تھا لیکن بعدازاں نائن زیرو سے گرفتار کیے گئے ایم کیوایم کے بعض کارکنوں کے پاس سے اعوان بم برآمد ہونے کی جھوٹی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔کیایہ کھلی دھاندلی ، عیاری اور مکاری نہیں ہے ؟ کیا کسی ملک کی فوج اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کرتی ہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ فوج کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو پوری فوج کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ، ایسے ہی لوگوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں نہ صرف نہتے بنگالیوں کو نشانہ بنایا بلکہ ایک لاکھ سے زائد
بنگالی بچیوں کی عصمت دری کرکے انہیں حاملہ کردیا۔ کیا اسلامی فوج ایسا عمل کرتی ہے ؟ کیا فوج کے Code of Conduct میں کہیں یہ لکھا ہے کہ فوج یا اس کے نیم فوجی ادارے ، رینجرز وغیرہ ، کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی چارج شیٹ جاری کریں؟ رینجرز ، ایک سیکوریٹی فورس ہے یا سیاسی پارٹی ہے؟ انہوں نے کہاکہ میجرجنرل بلال اکبر نے اپنے حلف کو توڑا ہے ، اب وہ فوجی نہیں رہے ، بہتر ہے کہ وہ خود اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں اوردوسال انتظارکرنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بناکر اس کے صدربن جائیں اور رینجرز کے کرنل طاہر کوجنرل سیکریٹری بنادیں۔ جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایک پروفیشنل فوجی افسر ہیں ، ہمیں آپ سے امید ہے کہ آپ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے منصفانہ فیصلے کریں گے اور جس طرح سندھ رینجرز کے ڈی جی اور دیگر افسران ،فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کررہے ہیں اس کا نوٹس لیں گے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ ایم کیوایم گزشتہ 37 برس سے وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود دکھی انسانیت کی خدمت کرتی چلی آرہی ہے ، خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت غریب بیواؤں ، یتیموں ، ناداروں اور طلباء کی مالی امداد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے اور ہرسال رمضان المبارک کے آخر ی عشرے میں سالانہ امدادی پروگرام منعقد کرکے غرباء ومساکین میں کروڑوں روپے مالیت کی امدادی اشیاء اور نقد رقوم تقسیم کی جاتی رہی ہیں لیکن اس سال ڈی جی رینجرز ، میجرجنرل بلال اکبر کی جانب سے ایم کیوایم کے کارکنوں اورخدمت خلق فاؤنڈیشن کے رضاکاروں پر زکوٰۃ ، فطرہ اوردیگرعطیات جمع کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے ،رینجرز کی جانب سے کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں بینرز اورپوسٹرز لگاکر شہریوں کو دھمکایاجارہا ہے ، زکوٰۃ ،فطرہ اور دیگرعطیات جمع کرنے والے کارکنوں اور رضاکاروں کو گرفتارکرکے جھوٹے مقدمات میں ملوث کیاجارہا ہے کہ یہ افراد زبردستی بھتہ جمع کررہے تھے ۔انہوں نے کہاکہ مالی مشکلات کے باعث رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھاکہ اس سال سالانہ امدادی پروگرام منعقد نہ کیاجائے لیکن میں نے رابطہ کمیٹی اور منتخب نمائندوں سے کہاہے کہ سالانہ امدادی پروگرام گزشتہ 37 برسوں سے جاری ہے ، مالی مشکلات خواہ کتنی بھی شدید کیوں نہ ہوں لیکن سالانہ امدادی پروگرام اس سال بھی ضرورہوگا،کیونکہ اس امدادی پروگرام کی وجہ سے ہزاروں غریب خاندانوں کو عیدکی خوشیاں منانے کا موقع مل جاتا ہے ۔
جناب الطاف حسین نے تمام حق پرست سینیٹرز ، ارکان قومی ، صوبائی اسمبلی ، ڈیفنس کلفٹن ،گلشن اقبال،سوسائٹی اور ناظم آباد ریزیڈنٹس کمیٹیوں کے ارکان پر زوردیا کہ وہ مخیرحضرات سے رابطہ کرکے ان سے مالی تعاون کی اپیل کریں اور عوام سے بھی رابطہ کرکے ان سے اپیل کریں کہ وہ زکوٰۃ، فطرہ ، صدقہ اوردیگر عطیات ازخود نائن زیرو اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کے دفاتر میں جمع کرائیں تاکہ غریب ومستحق افراد کوبھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جاسکے۔
جناب الطاف حسین نے اپنے خطاب کے دوران حالیہ آپریشن میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے چند واقعات بھی بیان کئے۔انہوں نے اسکیم 33کے چارکارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہاکہ13 اپریل 2014ء کو کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں ایم کیوایم کے کارکنان اورعلاقے کے دیگر نوجوان فلیٹس میں واقع ڈبوکلب میں کھیل رہے تھے کہ رینجرزنے وہاں چھاپہ مارا اور9کارکنان کو گرفتار کرلیا ۔ ان میں سے 3کارکنوں کو تورینجرزنے تھوڑی دیربعد مارپیٹ کے چھوڑدیالیکن 6کارکنوں کوغائب کردیاگیا۔ایم کیوایم کے ذمہ داران رینجرز حکام سے ان کارکنوں کی بازیابی کیلئے رابطے کرتے رہے ۔
ان کارکنوں کے اہل خانہ اپنے بچوں کے بارے میں رینجرز کے دفاتر کے چکرلگاتے رہے لیکن ان گرفتار شدگان کے بارے میں کچھ نہیں بتایاگیا۔ 30 اپریل کوان6 میں سے چارکارکنوں 22سالہ فیضان الدین، 24سالہ علی حیدر، 24سالہ صمید خان اور 22 سالہ سلمان مشتاق کی ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں ملیرکے علاقے میمن گوٹھ سے پائی گئیں۔ان چاروں پربری طرح تشددکیاگیاتھا۔ ان 6 میں سے دوکارکنان 37سالہ صہیب اور36سالہ ضیاء الرحمن آج تک لاپتہ ہیں ۔ 8فروری 2014ء کو نارتھ کراچی کے علاقہ سیکٹر5C میں رینجرزنے ایم کیوایم کے کارکنوں کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا اور وہاں سے ایم کیوایم کے کارکن محمدعادل ولدمحمدسلطان مرحوم کوگرفتارکیا۔ محمدعادل کوگرفتاری کے بعد نیوکراچی میں واقع رینجرزہیڈکوارٹر میں لیجاکر6گھنٹوں تک غیرانسانی تشدد کانشانہ بنایااورجب وہ قریب المرگ ہوگئے تو ان کی فیملی کوبلاکرنیم مردہ حالت میں ان کی فیملی کے حوالے کیاگیا۔ان کی فیملی انہیں نیم مردہ حالت میں اسپتال لے کرپہنچی لیکن رینجرزکے تشدد کے نتیجے میں وہ شہیدہوگئے ۔اسی طرح ایم کیوایم برنس روڈ سیکٹرکے یونٹ انچارج اجمل بیگ کورینجرزنے 18مئی 2013ء کوریلوے کالونی کی حنفیہ مسجد سے نماز کی ادائیگی کے دوران گرفتارکیااورانہیں ڈی جے کالج کے پاس واقع ہیڈکوارٹرمیں لیجاکرانسانیت سوزتشددکانشانہ بنایااورجب وہ قریب المرگ ہوگئے تورینجرزنے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس نے اجمل بیگ کواسپتال منتقل کیالیکن رینجرزکے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں 27مئی 2013ء کواجمل بیگ شہیدہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایم کیوایم کے کتنے ہی کارکنوں کوگرفتارکرکے انہیں تشددکرکے ماورائے عدالت قتل کرکے ان کی لاشیں شہرکے مختلف علاقوں میں ویرانوں میں پھینک دی گئیں۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ اس حالیہ آپریشن میں ایم کیوایم کے 52کارکنان ماورائے عدالت قتل کئے جاچکے ہیں۔ 4 ہزار سے زائد کارکنوں کوگرفتارکیاجاچکاہے جن میں سے سینکڑوں کارکنان آج بھی جیلوں میں بندہیں۔ اس آپریشن کے دوران 22 کارکنان لاپتہ کردیا گیاہے جن کی پٹیشنز عدالتوں میں دائرہیں ،ایم کیوایم کے گرفتارشدگان کوسرکاری ٹارچرسیلوں میں بہیمانہ تشددکانشانہ بنایاجارہاہے، انہیں الٹا لٹکاکرتشدد کیاجارہا ہے ۔ انہیں الیکٹرک کرنٹ دیے جارہے ہیں۔
جن کارکنوں کو90دن کے ریمانڈ پر جیل میں رکھاجاتاہے انہیں تفتیش کے نام پر جیل سے نکال نکال کر کئی کئی روز تک سرکاری ٹارچرسیلوں میں تشددکانشانہ بنایاجارہاہے۔ایم کیوایم کے گرفتارشدگان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں،ان پر ایک ایک کلو چرس برآمدہونے کے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں تاکہ ان کی ضمانت نہ ہوسکے۔ جناب الطا ف حسین نے ڈی جی رینجرزجنرل بلال اکبرکومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ایم کیوایم کے جوکارکنان بے گناہ مارے گئے کیاوہ کسی کے بچے نہیں تھے؟کیاآپ کواللہ تعالیٰ کے ہاں جواب نہیں دیناہے؟انہوں نے کہاکہ جن سرکاری اہلکاروں نے ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنوں کوتشددکرکے ماورائے عدالت قتل کیاہے وہ دنیامیں توبچ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں نہیں بچ سکتے اورانہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ایک ایک جرم کاحساب دیناہوگا۔انہوں نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں پر اپناعذاب نازل کراورانہیں نیست ونابود کر۔
جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگرمہاجروں پر ایسے ظلم ہوتارہا، توآج تومیں ہوں اورعوام کو امن کادرس دے رہاہوں اورعوام صبروضبط سے کام لے رہیں لیکن اگر خدانخواستہ کل میں نہ رہاتوآج صبروضبط سے کام لینے والے کل باغی بن جائیں گے اور شہرصومالیہ بن جائے گا۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اگرواقعی بہادرہیں تووہ اپنی طاقت کے جوہر نہتے مہاجروں پردکھانے کے بجائے مقبوضہ کشمیر جائیں اوروہاں جاکرکشمیری ماؤں بہنوں کوبھارتی فوج کے مظالم سے بچائیں۔انہوں نے کہاکہ آج کاپنڈال مطالبہ کرتاہے کہ جنرل بلال اکبرکومقبوضہ کشمیر بھیجاجائے تاکہ وہ وہاں بھارتی فوج سے لڑکر1971ء کابدلہ لے سکیں ۔اس بات پر اجلاس کے تمام شرکاء نے ہاتھ اٹھاکراس مطالبہ کی تائید کی ۔ انہوں نے کہاکہ ڈی جی رینجرزمیجرجنرل بلال اکبرکوچاہیے کہ وہ ایم کیوایم کے خلاف رپورٹ پیش کرنے کے بجائے سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کریں۔
جناب الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ گندے لوگ ہرجگہ ہوتے ہیں، فوج میں بھی ہیں۔ جی ایچ کیو، نیول بیس، کامرہ ایئربیس، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرزاوردیگرحساس مقامات پر حملہ کرنے والوں میں باہرکے لوگ نہیں بلکہ فوج کے اندرکے لوگ شامل تھے لیکن کیااس کی بنیادپر پوری فوج کوموردالزام ٹھہرایاجائے؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ ہم فوج کے نہیں بلکہ فوج میں موجود گندے انڈوں کے خلاف ہیں۔جنرل راحیل شریف خدارا پاکستان کوبچالیں اورفوج سے ان گندے انڈوں کو نکالیں جنہوں نے سویلینز کی طرح کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کی۔ان کوپکڑاجائے ورنہ یہ فوج کودیمک کی طرح کھاجائیں گے۔انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے پاکستان چاہیے، فوج ہماری ہے، ہم فوج کوبچاناچاہتے ہیں، قومی سلامتی کے اداروں کوبچاناچاہتے ہیں، ہم فوج کابرانہیں چاہتے، ہم پاک فوج کے ساتھ تھے اورساتھ ہیں، ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ فوج سے گندے انڈوں کونکالیں اور انکے خلاف ایکشن لیں جووردی کی آڑمیں بے گناہ شہریوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، جنہوں نے این اے 246کے ضمنی انتخابات میں خواتین پردباؤڈالاکہ وہ بلے پر مہرلگائیں۔ جناب الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کو ہدایت کی کہ آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے کارکنوں کے بارے میں تیارکیاجانے والا کتابچہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کوفی الفوربھجوائیں تاکہ انہیں بھی معلوم ہوکہ کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کوکس طرح ماورائے عدالت قتل کیاجارہاہے اورجب اس طرح کا ظلم ہوتاہے تواس سے محبتیں نہیں نفرتیں جنم لیتی ہیں اورباغی پیداہو تے ہیں۔
جناب الطا ف حسین نے بلوچستان میں بھی بلوچ رہنماؤں اورنوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔کچھ ماہ قبل بھی ایک ساتھ کئی مسخ شدہ لاشیں برآمدہوئیں۔ انہوں نے تین رہنماؤں کے ماورائے عدالت قتل کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ 3 اپریل 2009ء کوبلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد، بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے نائب صدر شیرمحمدبلوچ اوربلوچ نیشنل فرنٹ کے سیکریٹری جنرل لالہ منیر بلوچ ڈسٹرکٹ تربت کے سیشن کورٹ میں اپنی ضمانت کیلئے گئے تھے۔ضمانت منظورہونے کے بعد تینوں بلوچ رہنمامقامی وکیل کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفترمیں بیٹھے تھے کہ سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں
وہاں سے گرفتارکرلیا۔
پانچ روزبعدیعنی 8 اپریل 2009ء کو ان تینوں رہنماؤں کی تشددزدہ لاشیں تربت کے علاقے پدراک سے پائی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے واقعات سے لوگوں کے دلوں میں اچھے جذبات پیدانہیں ہوتے ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں ریلیوں اورپاکستانی جھنڈے لہرانے پر کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیاہے اورہماری رینجرزہماری ریلیوں اورسرگرمیوں پر پابندی لگارہی ہے اوریہ کہتی ہے کہ ایم کیوایم کے فلاحی ادارے کوچندہ جمع کرنے نہیں دیں گے، چندہ جمع کرنے کی اجازت صرف عمران خان کوہوگی جوفوج کوبرابھلاکہتاہے اوراپنے ایک اجلاس میں اس نے یہاں تک کہہ دیاکہ ’’ 20 ہزارلوگوں کوسڑکوں پرلے آؤ توجرنیلوں کاپیشاب نکل آئے گا ‘‘ ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ اکثرٹی وی ٹاک شوزمیں ریٹائرڈفوجی اوردفاعی تجزیہ نگاراپنے تبصروں میں کہتے ہیں کہ اب توبھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اقرارکرلیاہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کوالگ کرانے میں مکتی باہنی کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ تبصرے کرنے والے اگراتنے ہی بہادرہیں توتنقیدکرنے کے بجائے بھارتی وزیراعظم کے خلاف کچھ عملی اقدام کیوں نہیں کرتے ؟انہوں نے کراچی میں ہونے والی زیادتیوں کانوٹس لینے کے بجائے اس کوسپورٹ کرنے پر چوہدری نثارکوبھی تنقیدکانشانہ بنایااورکہاکہ وہ آئے دن الٹاسیدھابولتے ہیں لیکن انہیں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاکوئی احساس نہیں ۔ جناب الطاف حسین نے ذمہ داران وکارکنان سے کہاکہ وہ اپنے حوصلوں کوبلندرکھیں، ہم نے تہیہ کررکھاہے کہ ہم کسی بھی ظلم کے آگے سرنہیں جھکائیں گے۔
میری پاکستانی قوم والوں میں سے کس کو نہیں علم کہ ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان کو حراست کے دوران انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے؟
اور درجنوں اس تشدد سے حراست کے دوران ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔
http://tribune.com.pk/story/897623/three-police-officials-suspended-over-mqm-workers-death/