Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔
امام مہدی محمد ﷺ کے ہم نام ہوں گے اور آپ کا تعلق حسن کی نسل سے ہوگا۔ - امامت کا منصب سنبھال کر امام مہدی مکہ سے شام کی طرف پیش قدمی کریں گے ، سفیانی بھی امام مہدی کے خلاف اپنا ایک لشکر بھیجے گا۔ کلب قبیلے کے لوگ بڑی تعداد میں سفیانی کے ساتھ ہوں گے۔
حرّہ کے مقام پر امام مہدی اور سفیانی کے لشکروں کے درمیان تصادم ہوگا اور امام مہدی کے لشکر کو فتح حاصل ہوگی ، حرّہ مدینہ سے شام جاتے ہوئے رستے میں پڑتا ہے۔
حرّہ کی شکست کے بعد سفیانی بڑی فوج امام مہدی کو کچلنے کے لئے روانہ کرے گا ، لیکن جب یہ فوج ایک صحرا میں پہنچے گی تو زمین میں غرق ہو جائے گی۔
اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی حسین کی نسل سے ہیں اور تقریباً ۱۲۰۰ برس پہلے پیدا ہوچکے ہیں ، وہ اپنی پیدائش سے لے کر اب تک زندہ ہیں اور اس دنیا میں موجود ہیں ، لیکن لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں ، بعض احادیث کے مطابق ان کا ظہور عبداللہ نامی حاکم کی موت کے بعد ہوگا۔ -
بہت سے شیعہ لوگوں کا ماننا تھا کہ سعودی بادشاہ عبد اللہ کی موت کے بعد سعود خاندان کسی بادشاہ پر متفق نہیں ہو پائے گا اور پھر امام مہدی کا ظہور ہوگا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔
ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ: “ایک خلیفہ کی موت پر (ان کی جانشینی کے مسئلہ پر) اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا (یہ مہدی ہوں گے اور اس اندیشہ سے بھاگ کر مکہ آجائیں گے کہ کہیں ان کو خلیفہ نہ بنادیا جائے) مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (بیت اللہ شریف کے سامنے) ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔”
“پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکر “بیداء” نامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسادیا جائے گا، چنانچہ ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔ پھر قریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا ,سات سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔” (یہ حدیث مشکوٰة شریف ص:۴۷۱ میں ابوداوٴد کے حوالے سے درج ہے،
Last edited: