اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں !
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤںملتا ہی کہاں خوشہ گندم کے جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبد شاہی پے بسیرا
کنجشک فرو مایہ کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں!
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کی دیکھا نہیں قران
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پے اتراتا ہے اب مومن
جس رزق سے پرواز میں کو کوتاہی کا ڈر ہو
وو رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کے ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے ؟
کردار کا ، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں آیسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا کوئی مومن، کوئی پنجاب کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قران کا مومن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں!
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے اب خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں !
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پے رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طاوس پے آ کر
کہنے کو تو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں !
محمودوں کی صف آج آیازوں سے پرے ہے
جمہور پے سلطانی جمہور ور ے ہے
تھامے ہؤے دامن ہیں یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں !
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ، زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار ہی ہم چھٹ گئے اس بار گراں سے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!