میں نے کل فیصلہ کیا تھا کہ اب اس فورم کو خیر باد کہہ دوں گا۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ووٹ نہیں ڈال سکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے وطن پاکستان کے مفاد میں ایک ادنیٰ خدمت بھی سر انجام نہیں دے سکتا۔ مجھے اس فورم سے جانے کا اس لیے سوچنا پڑا کہ یہاں بیسیوں لوگوں کی باتیں میرے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھیں اور زبان خراب ہونے لگی تھی۔ سب سے بڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میں دنیا میں نفرت اور فساد پھیلانے کا باعث بن رہا ہوں کیوں کہ میرے تحریک انصاف کے بھائی ناراض رہنے لگے، میں ان کے لیڈر اور عسکری حکام کے لیے جذباتی و ترش لہجہ استعمال کرنے لگا تھا، کئی موقعوں پر مجھ سے زیادتی بھی ہوئی، جس پر کل میں نے فورم میں موجود دوستوں سے معافی چاہی۔ اب ایسا ہے کہ میں اس فورم پر موجود رہوں گا مگر حتی المقدور انداز بیان کو ستھرا رکھوں گا تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے بحث و تمحیص اور اظہاررائے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اب میں آتا ہوں اصل موضوع پر۔
میرے نکتہ نظر سے یقیناً ایک گروہ اتفاق کرے گا اور دوسرا اختلاف۔ لیکن اختلاف کرنےوالوں سے گزارش ہے کہ وہ میرے دلائل پر ٹھنڈے دل سے غور کریں، پھر کسی نتیجے پر پہنچیں۔
اس فورم پر موجود کچھ حضرات کا خیال ہے، جو مخالف جماعت (عمومی طور پر تحریک انصاف) سے تعلق رکھتے ہیں، کہ افواج پاکستان نے غلطیاں کی ہیں اور ملک کو نقصان پہنچایا ہے، مگر ان افواج کو دعوت سیاست دان اور عوام ہی دیتے ہیں۔
اس خیال کے جواب میں عرض ہے کہ اگر آپ کسی کو دعوت گناہ دیں، اور وہ شخص اس دعوت کو قبول کر لے تو ایسی صورت میں گناہ کی دعوت دینے والا اور قبول کرنے والا دونوں مجرم ٹھہرے، دونوں کی جواب دہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا ایسے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ان جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے دعوت گناہ قبول کر کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان جرنیلوں سے بھی جواب دہی کی جائے جنہوں نےریاست پاکستان سے غداری اور آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی کی یا پھر بد عنوانی اور کرپشن میں ملوث ہوئے۔ مثلاً جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل اسد درانی جو ابھی حیات ہیں، ان کو بھی نواز شریف کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ڈالنا چاہیے۔ جنرل جاوید اشرف قاضی اور جنرل مشرف کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کروا کر اڈیالہ جیل کی زینت بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بابر اعوان اور تحریک انصاف کے دوسرے ساتھی، پیپلز پارٹی کی قیادت اور ساتھی، پنامہ اسکینڈل میں شامل کئی سو دوسرے افراد، جن پر کرپشن کے مقدمات ہیں یا محض الزام ہے، ان سب کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہیئیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو عدالت کے کسی ایک جماعت (نون لیگ ) یا ایک مخصوص خاندان (شریف خاندان) کے خلاف فیصلے ظلم و زیادتی پر محمول کیے جائیں گے۔ اور اس بات کا جواز پیدا ہوگا کہ پاکستان کے عوام ظالمانہ عدلیہ کا احتساب کریں اور اس کے خلاف تحریک عدل شروع کریں۔
دوستوں کی دوسری رائے یہ ہے کہ چوں کہ سیاست دان نااہل اور دشمن ملکوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں اس لیے دفاع اور خارجہ پالیسی جو افواج پاکستان کے لیےاہم ترین شعبے ہیں، عملاً افواج پاکستان کے ہاتھ میں ہونا چاہیئیں۔
دوستوں کی دوسری رائے یہ ہے کہ چوں کہ سیاست دان نااہل اور دشمن ملکوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں اس لیے دفاع اور خارجہ پالیسی جو افواج پاکستان کے لیےاہم ترین شعبے ہیں، عملاً افواج پاکستان کے ہاتھ میں ہونا چاہیئیں۔
سیاست دانوں کی نااہلی اور حب الوطنی پر سوالیہ نشان، ایک طبقے کا خیال ضرور ہے، اس پر قومی سطح پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا، یہ محض ایک سنی سنائی یا پھیلائی ہوئی بات ہے۔ اگر اس بات میں وزن ہے تو کیوں نہ اس پر ایک کمیشن بنا دیا جائے اور اس بات کا فیصلہ کر لیا جائے کہ آیا سیاست دان نااہل اور ناقابل بھروسہ ہیں کہ دفاع اور خارجہ حکمت عملی ان کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ پھر اگر سیاست دانوں کی نااہلی ثابت ہو جائے تو اس چیز کو آئین پاکستان میں لکھ لینا چاہیے کہ دفاع اور خارجہ پالیسی فوج کی ذمہ داری ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جب پاکستان میں فوج کی براہ راست حکومت تھی یعنی ایوب، یحیٰ، ضیاء اور مشرف کے ادوار میں، تو دفاع اور خارجہ پالیسی نے کامیابی کے کتنے آسمان عبور کیے۔
ایوب، یحیٰ، ضیاء اور مشرف کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کا لب لباب امریکی غلامی اور اپنی حفاظت کے لیے اگر مکمل نہیں تو زیادہ تر امریکہ پر انحصار تھا۔ معیشت میں بھی ایوب سے لے کر مشرف تک امریکہ کی معاونت اور امداد کی لائف لائن ملتی رہی۔ آسان زبان میں، امریکہ سے امداد، اور معاونت ملی تو معاش بھی چلا اور دفاع بھی۔ لیکن کیا امریکہ پر انحصار ہمیں خطے کے دیگر ممالک مثلاً ہندوستان، بنگلہ دیش، چین، ملائشیا وغیرہ سے پیچھے نہیں لے گیا؟ اگر ہم امریکہ کی غلامی کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے تو کیا آج ہم ترقی کی دوڑ میں چین اور ہندوستان سے آج کی طرح بے حد پیچھے ہوتے؟
اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ کی چھتری کے نیچے آنا اس لیے مجبوری تھی کہ ہندوستان جیسا دشمن پڑوس میں بیٹھا ہماری جان کے درپے تھا۔ اس کے لیے ہم عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان کی دشمنی حقیقی کم اور مصنوعی زیادہ لگتی ہے۔ کشمیر کے نام پر ہندوستان سے جنگیں کرکے کشمیر تو ملا نہیں الٹا آدھا پاکستان، کارگل (جو 1965 اور 1971 میں ہندوستان نے ہم سے چھینا تھا) اور سیاچن گلیشیئر (کا بڑا حصہ) بھی ہاتھ سے گیا۔ ہندوستان سے ہمیشہ دشمنی رکھنی ہے تو ایوب خان نے 1959 میں ہندوستان اور پاکستان کی فوج کو ملا کر مشترکہ فوج بنانے کی کیوں بات کی تھی؟ یہ الگ بات کہ پھر اپنی ہی بات کا رد کرے کے 1965 میں کشمیر فتح کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
افواج پاکستان کی عطا کردہ امریکی غلامی سے پاکستان کو دہشت گردی، خود کش دھماکے اور ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پڑوس پر نظر ڈالیں تو کیا ایران نے امریکی غلامی قبول کی؟ کیا وہاں ہمارے ملک کی طرح خود کش دھماکے ہوتے ہیں؟ کیا امریکہ نے ایران پر بمباری کرکے اس کو پتھر کے زمانے میں پہنچادیا ہے جیسے کہ مشرف نے فرمایا تھا کہ امریکہ کی غلامی نہ کی تو ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا؟
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فوج، دفاع اور خارجہ پالیسی میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اور فوج کی اس ناکامی اور نااہلی پر اس کا نہ صرف احتساب ہونا چاہیے بلکہ آئین کے اندر جلی حروف میں لکھ بھی دینا چاہیے کہ ہر اس فوجی افسر کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے مطابق کارروائی ہوگی جو دفاع، خارجہ پالیسی یا کسی اور حکومتی معاملے میں دخل اندازی کا مرتکب پایا جائے گا۔
ایسی باتیں کرنا تو آسان ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کیسے ہو۔
تو قارئین کرام، الیکشن کا زمانہ ہی وہ سنہری موقع ہے جب یہ سوال پاکستان مسلم لیگ (نون)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے کرنا ضروری ہے کہ اگر ان کو اقتدار ملتا ہے تو کیا وہ ریاست پاکستان کے دو اہم ترین شعبے یعنی دفاع اور خارجہ پالیسی افواج پاکستان سے واپس لے کر، عوام کی بالادستی یعنی سویلیئن سپریمیسی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ کیا نئی حکومت آئین میں ترمیم کے ذریعے فوج کو پابند بنا سکتی ہے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہے اور ریاست کے اوپر ریاست قائم کرنے سے باز رہے؟
کیا سینیٹ کے چیئرمین سنجرانی صاحب، تحریک انصاف، نون لیگ، پیپلز پارٹی کے موجودہ اور ممکنہ ارکان پارلیمنٹ الیکشن سے پہلے اس بات کا حلف اٹھا سکتے ہیں کہ وہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال کرکے اس ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے؟
Last edited: