افغان عوام نے یه ثابت کردیا هے که وه تمام ترمشکلات کے باوجود اپنے دشمن ،طالبان، جودہشتگردی پهیلانے میں مصروف ہیں رکاوٹوں پرقابوپاسکتےہیں، ہم دیکه رہےهیں کہ اب طالبان کے اندر تبدیلی آگئ ہے، یہ باغی طالبان آہستہ آہستہ مگر یقینی طورپر اپنے گروپ کی منفی نظریات جان گےهیں۔ گذشتہ چند دنوں میں ۲۷ باغی طالبان جن کا تعلق هیرات اورفرح صوبے سےتها پیس اینڈ ریکنسیلیشن کمیشن اینڈ دی نیشنل ڈایرکٹوریٹ سیکوریٹی کے سامنے رضاکارانہ طور ہتهیارڈالدیے۔
صوبای حکام کی یہ خواہش اس بات کی علامت هے کہ مصالحتی کوششیں تیزکی جایں تاکہ اس سے نچلی اوردرمیانی سطح کے باغی مستفید ہوں۔ مزید یہ کہ کچه باغی اس نتیجہ پر پہنچ چکےہیں کہ ظلم وبربریت ایک بہترافغانستان کے مستقبل کا جواب نہیں ہے۔ اس کام کیلیےکمیشن مختلف ثالث سےاستفاده حاصل کرتا هےان میں قبایلی سردار، مذہبی رہنما اور سابق جنگی ماہرین شامل هیں۔ یہ ماہرین ان باغیوں کو قایل کرنے میں اہم کردارادا کرتےهیں۔ وہ انہیں یقین دہانی کراتے هیں کہ نہ توانہیں گرفتارکیاجایگا اورنہ ہی ان کی سابقہ سرگرمیوں پرمقدمہ چلایا جایگا
حکومت افغانستان اس بات پربهی یقین رکهتی هے کہ افغان عوام کی بهلای ان کا اہم مشن ہےبشمول ان لوگوں کے جوتشدّدکا راستہ ترک کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا افغان حکام ان ثالث سےرابطہ رکهتی جومخالفین کے درمیان اختلافات کوحل کرسکیں۔ اسکے نتیجے میں ہم نے دیکها بہت سے افغان لڑاکاوںنےہتهیار پهینک
دیےاور حکومت کو تسلیم کرلیاہے۔ بہت سے افغان حکاّم یہ جانتے ہیں کہ یہ عمل اتنا آسان نہیں لیکن افغانستان میں امن بحال کرنےکیلیے ضروری ہے۔ مزید برآں اس بہتری سے یہ تصدیق ہوسکتی هےکہ پچاس ہزار افغان مہاجرین ہمسایہ ملکوں سے وطن واپس آجایں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی ایجنسی براے مہاجرین کوافغانستان میں اپنا مشن بحال کرنے میں مد د ملےگی۔
دسمبر ۲۰۰۹ میں کیےگے سروے میں دکها یا گیا کہ افغان عوام اپنے مستقبل کےبارے میں بہت پرامید ہیں۔ مزید یہ کہ وه اپنے معیار زندگی اور بجلی
و طبّی سہولتوں، روزگارکے حصول کے سلسلے میں گذشتہ سال کےمقابلے مثبت گردانتے ہیں۔
حرف آخر ہم کہ سکتے هیں کہ یہ مستقل ترّقی بچشم خودافغان عوام دیکه چکی ہے اوراس میں صدارتی انتخابات، سیکوریٹی فورس اورمسّلح افواج کی کا کردگی نمایاں ہے۔اور سب سےذیاده کاوشیں استحکام کی بحالی کیلیےکی گیں۔
رازوان خان
ڈی ای ٹی
یو اس سنٹرل کمانڈ