
افغانستان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے افغان طالبان کی قیادت سے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان معاشرے کی 4 کروڑ کی آبادی میں سے 2 کروڑ افراد کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ناانصافی ہے۔
افغان ’طلوع نیوز‘ کے مطابق، ستانکزئی نے یہ بیان ہفتے کو سرحدی صوبے خوست میں ایک مدرسے میں دستار بندی کی تقریب کے دوران دیا۔ انہوں نے کہا کہ "تعلیم کو ہر ایک کے لیے قابل رسائی بنانا چاہیے" اور یہ کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیمی حقوق سے محروم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ستانکزئی نے مزید کہا کہ خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی ماضی میں بھی غلط تھی اور اب بھی اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "آج کسی حیلے بہانے سے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔"
یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان نے اگست 2021 سے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس صورتحال میں، صرف خواتین ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خواتین اور لڑکیوں کا علاج کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جبکہ طبی تربیت سے متعلق پابندی کی تصدیق ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔
ان کے اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ افغان حکومت کے اندر مخصوص عناصر، جو خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں، اب بھی موجود ہیں اور وہ اس بارے میں تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ستانکزئی نے کہا، "یہ اسلامی شریعت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شاید ہمارے اپنے ذاتی خیالات کا." ان کا یہ موقف ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب طالبان حکومت کو عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/Gv8y6Th/afg-edu.jpg