Goldfinger
MPA (400+ posts)

افغانستان پر طالبان کا قبضہ: کیا افغانستان کی جیلوں سے آزاد ہونے والے شدت پسند پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟
افغانستان میں طالبان کی جانب سے صوبائی دارالحکومتوں اور کابل پر قبضے کے دوران کئی جیلوں سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کروایا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق رہا کروائے گئے قیدیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے کارکن بھی شامل ہیں۔
ان جیلوں سے رہائی پانے والوں میں تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی تعداد 780 تک بتائی جا رہی ہے لیکن افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اِس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سوشل میڈیا پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق نائب امیر مولوی فقیر محمد کی تصویر بھی وائرل ہوئی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے وہ ان کی کابل میں ساتھیوں سمیت رہائی کے بعد لی گئی ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان کی جیلوں سے رہا ہونے والوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر بیت اللہ محسود کے ڈرائیور اور کمانڈر زلی محسود کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جو اگرچہ بظاہر غیر معروف ہیں لیکن ان کی اپنی تنظیم میں اہمیت رہی ہے۔
افغان صحافیوں کے مطابق اُن میں زرقاوی محسود، وقاص، حمزہ، زیت اللہ، قاری حمیداللہ، حمید اور مظہر محسود وغیرہ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی تصاویر وائرل ہونے اور قیدیوں کی رہائی کی اطلاعات کے بعد پاکستان میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہا ہونے والے یہ کارکن اور عہدیداران پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بعد میں پہلے ہم کو یہ بتاتے چلیں کہ مولوی فقیر محمد کون ہیں؟
مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ کے ماموند قبیلے سے ہے اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 52 سال ہے
پاکستان میں جب شدت پسندی عروج پر تھی تو اس وقت تحریک طالبان کہ جو گنے چُنے نام منظر عام پر آئے تھے ان میں مولوی فقیر محمد کا نام بھی شامل تھا۔
مولوی فقیر محمد تنظیم کے نائب امیر تھے اور ان کی رائے کو تنظیم کے اندر ترجیح دی جاتی تھی۔
ان دنوں پاکستان میں شدت پسند تنظیمیں تقسیم تھیں اور مولوی فقیر محمد کا نام ’حرکت طالبان‘ نامی ذیلی گروہ سے بتایا جاتا رہا لیکن ماضی میں اُن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے بھی رہا ہے۔
مولوی فقیر محمد کو سنہ 2013 میں افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ سے افغان سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ کہاں رہے اس بارے میں معلوم نہیں۔
ان کی گرفتاری کے وقت یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انھیں افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس کے اہلکاروں نے تین دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا اور بعد میں اس کی اطلاع افغان حکومت نے پاکستانی حکام کو بھی دی تھی۔ ان کی رہائی کی تصاویر پل چرخی جیل سے سینکڑوں قیدیوں کی رہائی کے موقع پر وائرل ہوئی تھی۔
مولوی فقیر محمد باجوڑ ایجنسی (موجودہ ضلع باجوڑ) میں کالعدم تنظیموں کے سب سے بڑے کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان دنوں قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کا اثر و رسوخ زیادہ تھا۔
ڈاکٹر ایمن الظواہری سے مولوی فقیر محمد کے خاص تعلق کی وجہ سے یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں کہ اُن کے عرب جنگجوؤں کے ساتھ گہرے مراسم رہے ہیں۔
مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ کے ماموند قبیلے سے ہے اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 52 سال ہے۔ وہ سنہ 2012 تک تحریک طالبان کے نائب امیر رہے اور اس کے بعد ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا یا وہ مستعفی ہو گئے ہیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
سنہ 2010 میں ان کی ہلاکت کی خبریں آئیں تھیں تاہم سنہ 2012 میں افغانستان سے ریڈیو نشریات میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔
سورس
ان جیلوں سے رہائی پانے والوں میں تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی تعداد 780 تک بتائی جا رہی ہے لیکن افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اِس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سوشل میڈیا پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق نائب امیر مولوی فقیر محمد کی تصویر بھی وائرل ہوئی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے وہ ان کی کابل میں ساتھیوں سمیت رہائی کے بعد لی گئی ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان کی جیلوں سے رہا ہونے والوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر بیت اللہ محسود کے ڈرائیور اور کمانڈر زلی محسود کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جو اگرچہ بظاہر غیر معروف ہیں لیکن ان کی اپنی تنظیم میں اہمیت رہی ہے۔
افغان صحافیوں کے مطابق اُن میں زرقاوی محسود، وقاص، حمزہ، زیت اللہ، قاری حمیداللہ، حمید اور مظہر محسود وغیرہ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی تصاویر وائرل ہونے اور قیدیوں کی رہائی کی اطلاعات کے بعد پاکستان میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہا ہونے والے یہ کارکن اور عہدیداران پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بعد میں پہلے ہم کو یہ بتاتے چلیں کہ مولوی فقیر محمد کون ہیں؟

مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ کے ماموند قبیلے سے ہے اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 52 سال ہے
پاکستان میں جب شدت پسندی عروج پر تھی تو اس وقت تحریک طالبان کہ جو گنے چُنے نام منظر عام پر آئے تھے ان میں مولوی فقیر محمد کا نام بھی شامل تھا۔
مولوی فقیر محمد تنظیم کے نائب امیر تھے اور ان کی رائے کو تنظیم کے اندر ترجیح دی جاتی تھی۔
ان دنوں پاکستان میں شدت پسند تنظیمیں تقسیم تھیں اور مولوی فقیر محمد کا نام ’حرکت طالبان‘ نامی ذیلی گروہ سے بتایا جاتا رہا لیکن ماضی میں اُن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے بھی رہا ہے۔
مولوی فقیر محمد کو سنہ 2013 میں افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ سے افغان سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ کہاں رہے اس بارے میں معلوم نہیں۔
ان کی گرفتاری کے وقت یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انھیں افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس کے اہلکاروں نے تین دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا اور بعد میں اس کی اطلاع افغان حکومت نے پاکستانی حکام کو بھی دی تھی۔ ان کی رہائی کی تصاویر پل چرخی جیل سے سینکڑوں قیدیوں کی رہائی کے موقع پر وائرل ہوئی تھی۔
مولوی فقیر محمد باجوڑ ایجنسی (موجودہ ضلع باجوڑ) میں کالعدم تنظیموں کے سب سے بڑے کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان دنوں قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کا اثر و رسوخ زیادہ تھا۔
ڈاکٹر ایمن الظواہری سے مولوی فقیر محمد کے خاص تعلق کی وجہ سے یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں کہ اُن کے عرب جنگجوؤں کے ساتھ گہرے مراسم رہے ہیں۔
مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ کے ماموند قبیلے سے ہے اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 52 سال ہے۔ وہ سنہ 2012 تک تحریک طالبان کے نائب امیر رہے اور اس کے بعد ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا یا وہ مستعفی ہو گئے ہیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
سنہ 2010 میں ان کی ہلاکت کی خبریں آئیں تھیں تاہم سنہ 2012 میں افغانستان سے ریڈیو نشریات میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔
سورس
Last edited: