Attack on Indian Consulate in Afghanistan's Herat
(File Photo)
افغانستان میں انڈین خوفزدہ،کسی وقت بھی بھاگنا پڑ سکتا ہے
ہر روز جب میں سونے کے لیے جاتا ہوں تو اپنا بیگ کھڑکی کے پاس رکھتا ہوں۔ اس بیگ میں ایک جوڑی جوتے، کپڑے، پاسپورٹ، اہم کاغذات اور نقدی رہتی ہے۔ اس سے کسی جاسوسی فلم کا احساس ہو سکتا ہے لیکن افغانستان میں ہم اسی طرح رہتے ہیں۔ یہاں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور آپ کو اپنا بیگ لے کر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔'
یہ الفاظ اس انڈین شہری کے ہیں جو ایک طویل عرصے سے افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے افغانستان میں زمینی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ طالبان جنگجوؤں نے ایک کے بعد ایک دو درجن سے زیادہ اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔ جبکہ افغان فوج دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے کئی اضلاع کو واپس لے لیا ہے۔
لیکن ان سب کے درمیان صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ چند گھنٹوں میں جرمنی اور پولینڈ سمیت متعدد ممالک کی افواج نے پرامن انداز میں افغانستان کی سرزمین کو چھوڑ دیا ہے۔
اس سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امریکی فوج 11 ستمبر تک افغانستان چھوڑ سکتی ہے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی فوج بھی اگلے 'چند روز' میں افغانستان سے واپس جاسکتی ہے۔
'خانہ جنگی کا خوف'
ان سب کے درمیان امریکی جنرل آسٹن ایس ملر نے افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو خانہ جنگی کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔' انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دنیا کے لیے یہ پریشانی کا باعث ہونا
چاہیے۔
افغانستان کی قومی مجلس عمل کی اعلیٰ کونسل کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ جنگ دروازے کے قریب آ رہی ہے۔ انھوں نے افغان رہنماؤں کو عوام کے تحفظ کے لیے متحد ہونے پر زور دیا۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ عام لوگ اپنے گھروں میں اسلحہ ذخیرہ کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی حملے کی صورت میں اپنے کنبے کی حفاظت کر سکیں۔
اور ان سبھی تبدیلیوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے افغانستان میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کا افغانستان چھوڑنا جاری ہے۔ کابل میں انڈین سفارتخانے نے افغانستان میں مقیم اپنے شہریوں کی سکیورٹی کے خصوصی رہنما اصول جاری کیے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو خانہ جنگی کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔' انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دنیا کے لیے یہ پریشانی کا باعث ہونا
چاہیے۔
افغانستان کی قومی مجلس عمل کی اعلیٰ کونسل کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ جنگ دروازے کے قریب آ رہی ہے۔ انھوں نے افغان رہنماؤں کو عوام کے تحفظ کے لیے متحد ہونے پر زور دیا۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ عام لوگ اپنے گھروں میں اسلحہ ذخیرہ کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی حملے کی صورت میں اپنے کنبے کی حفاظت کر سکیں۔
اور ان سبھی تبدیلیوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے افغانستان میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کا افغانستان چھوڑنا جاری ہے۔ کابل میں انڈین سفارتخانے نے افغانستان میں مقیم اپنے شہریوں کی سکیورٹی کے خصوصی رہنما اصول جاری کیے ہیں۔
انڈین شہری کن حالات میں رہ رہے ہیں؟
پچھلے کچھ سالوں میں حکومت ہند نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں پر تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر سڑکیں اور ڈیم بنانے کے کئی منصوبوں میں سینکڑوں انڈین پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 1700 انڈین مقیم ہیں۔
انڈین سفارتخانے نے اپنی 13 نکاتی مشورے میں کہا ہے کہ:
انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 1700 انڈین مقیم ہیں۔
انڈین سفارتخانے نے اپنی 13 نکاتی مشورے میں کہا ہے کہ:
- افغانستان میں موجود تمام انڈین شہری غیر ضروری نقل و حمل سے گریز کریں
- اہم شہروں سے باہر جانے سے گریز کریں، اگر ضروری ہو تو ہوائی سفر کریں کیونکہ شاہراہیں محفوظ نہیں ہیں
- انڈین شہری بطورِ خاص اغوا کے خطرے سے دوچار ہیں
افغانستان میں ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے ایک انڈین شہری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران فوجی سرگرمیاں کم ہوئی ہیں۔
سومیت (فرضی نام) کہتے ہیں: 'اس وقت کابل کی صورتحال بہت خراب ہے۔ ہم بس اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ میں ہمیشہ ایک بیگ اپنے ساتھ رکھتا ہوں جس میں میرا پاسپورٹ، کچھ اہم کاغذات، نقد رقم، ٹارچ لائٹ، سوئس نائف، ایک جوڑی جوتے، اور آرام دہ لباس ہوتے ہیں۔
'جب بھی میں سونے جاتا ہوں تو اپنا بیگ کھڑکی کے پاس رکھتا ہوں۔ یہ کسی جاسوسی فلم کے منظر کی طرح لگتا ہے لیکن ہم افغانستان میں اسی طرح رہتے ہیں۔ کچھ بھی کبھی بھی ہوسکتا ہے اور آپ کو اپنا بیگ لے کر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔'
افغانستان میں مقیم انڈینز کسی سخت حفاظتی رہائشی احاطے میں نہیں رہتے لیکن انڈین سفارت خانہ اپنے شہریوں کی حفاظت کا خیال رکھتا ہے۔ وہاں سے وقتاً فوقتاً ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں۔
افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کے بارے میں نتن سوناونے سے ہماری بات چیت ہوئی جو پوری دنیا میں ’مہاتما گاندھی کے نظریات کو عام کرنے‘ کے لیے بہت سے ممالک کا سفر کرنے کے بعد افغانستان پہنچے ہیں۔
نتن نے کہا: 'افغانستان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے تقریباً تین دنوں میں 80 کلومیٹر سفر طے کیا ہوگا۔ بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا 'یہاں سفر نہ کریں، یہاں بہت خطرہ ہے۔ طالبان صحرا سے آ سکتے ہیں، حملہ کر سکتے ہیں اور اغوا کر سکتے ہیں۔ ابھی طالبان بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کابل میں بھی صورتحال خراب ہے۔ جب میں وہاں تھا تو ایک وین کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں میرے ایک دوست کے ساتھی کی موت ہوگئی تھی۔ ایسی صورتحال میں لوگ کسی نہ کسی طرح سے یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
نتن سوناونے کابل میں قائم انڈین سفارتخانے میں کام کرنے والے عہدیداروں سے ملنے آئے ہیں۔
نتن نے بتایا: 'میں حال ہی میں انڈین سفارت خانے گیا تھا۔ وہ مکمل طور پر جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کوئی بھی افسر باہر نہیں نکل رہا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ ہے۔ مجھے بھی بازار جانے سے منع کیا گیا ہے۔'
سومیت (فرضی نام) کہتے ہیں: 'اس وقت کابل کی صورتحال بہت خراب ہے۔ ہم بس اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ میں ہمیشہ ایک بیگ اپنے ساتھ رکھتا ہوں جس میں میرا پاسپورٹ، کچھ اہم کاغذات، نقد رقم، ٹارچ لائٹ، سوئس نائف، ایک جوڑی جوتے، اور آرام دہ لباس ہوتے ہیں۔
'جب بھی میں سونے جاتا ہوں تو اپنا بیگ کھڑکی کے پاس رکھتا ہوں۔ یہ کسی جاسوسی فلم کے منظر کی طرح لگتا ہے لیکن ہم افغانستان میں اسی طرح رہتے ہیں۔ کچھ بھی کبھی بھی ہوسکتا ہے اور آپ کو اپنا بیگ لے کر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔'
افغانستان میں مقیم انڈینز کسی سخت حفاظتی رہائشی احاطے میں نہیں رہتے لیکن انڈین سفارت خانہ اپنے شہریوں کی حفاظت کا خیال رکھتا ہے۔ وہاں سے وقتاً فوقتاً ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں۔
افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کے بارے میں نتن سوناونے سے ہماری بات چیت ہوئی جو پوری دنیا میں ’مہاتما گاندھی کے نظریات کو عام کرنے‘ کے لیے بہت سے ممالک کا سفر کرنے کے بعد افغانستان پہنچے ہیں۔
نتن نے کہا: 'افغانستان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے تقریباً تین دنوں میں 80 کلومیٹر سفر طے کیا ہوگا۔ بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا 'یہاں سفر نہ کریں، یہاں بہت خطرہ ہے۔ طالبان صحرا سے آ سکتے ہیں، حملہ کر سکتے ہیں اور اغوا کر سکتے ہیں۔ ابھی طالبان بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کابل میں بھی صورتحال خراب ہے۔ جب میں وہاں تھا تو ایک وین کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں میرے ایک دوست کے ساتھی کی موت ہوگئی تھی۔ ایسی صورتحال میں لوگ کسی نہ کسی طرح سے یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
نتن سوناونے کابل میں قائم انڈین سفارتخانے میں کام کرنے والے عہدیداروں سے ملنے آئے ہیں۔
نتن نے بتایا: 'میں حال ہی میں انڈین سفارت خانے گیا تھا۔ وہ مکمل طور پر جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کوئی بھی افسر باہر نہیں نکل رہا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ ہے۔ مجھے بھی بازار جانے سے منع کیا گیا ہے۔'
انڈینز میں پاکستانی سمجھے جانے کا خوف
سوناونے کا کہنا ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک انڈین پروفیسر کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
افغانستان میں مقیم انڈینز کو اگر ایک طرف طالبان کی طرف سے خطرہ ہے وہیں دوسری طرف انھیں افغان عوام کی جانب سے پاکستانی سمجھے جانے کا خوف بھی ہے۔
نتن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'یہاں کے افغان انڈینز کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لیکن اگر میں سڑک پر جا کر کسی سے کہوں کہ میں انڈین ہوں تو لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص پاکستانی ہے، کیونکہ جب میں ہندی میں بات کرتا ہوں تو انھیں پتا چل جاتا ہے کہ میں یا تو پاکستان سے ہوں یا ہندوستان سے ہوں۔ لوگ زیادہ تر آپ کو پاکستانی ہی سمجھیں گے کیونکہ بہت سارے پاکستانی اپنی شناخت اس لیے چھپاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف یہاں بہت نفرت ہے۔'
نتن نے جلال آباد سے لے کر مزارِ شریف جیسے علاقوں کا سفر کیا جہاں اس وقت متعدد جنگجو تنظیمیں سرگرم ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'بہت سے جنگجو گروہ جلال آباد میں سرگرم ہیں۔ یہاں ایک 501 سال پرانا گوردوارہ ہے جہاں گرو نانک جی آئے تھے۔ میں وہاں گیا تھا۔ لیکن یہاں موجود لوگوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ ایسی صورتحال میں مجھ سے بالکل بھی بات نہیں کی۔'
افغانستان کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے سومیت (فرضی نام) بھی یہ مانتے ہیں کہ انڈینز کو ایک عجیب سی صورتحال کا سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'میں نے افغانستان کے دور دراز علاقوں میں کام کیا ہے۔ میں نے افغانستان کے سرحدی دیہات، طالبان کے زیر قبضہ علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں بھی کام کیا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ہندوستانی لوگ کہیں پاکستانی سمجھے جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں تو کہیں ہندوستانی سمجھے جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایک بار مجھ سے کچھ لوگوں نے سوال کیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں ایک ہندوستانی ہوں اور ترقیاتی کاموں سے منسلک ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش سے میرا استقبال کیا۔'
افغانستان میں مقیم انڈینز کو اگر ایک طرف طالبان کی طرف سے خطرہ ہے وہیں دوسری طرف انھیں افغان عوام کی جانب سے پاکستانی سمجھے جانے کا خوف بھی ہے۔
نتن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'یہاں کے افغان انڈینز کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لیکن اگر میں سڑک پر جا کر کسی سے کہوں کہ میں انڈین ہوں تو لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص پاکستانی ہے، کیونکہ جب میں ہندی میں بات کرتا ہوں تو انھیں پتا چل جاتا ہے کہ میں یا تو پاکستان سے ہوں یا ہندوستان سے ہوں۔ لوگ زیادہ تر آپ کو پاکستانی ہی سمجھیں گے کیونکہ بہت سارے پاکستانی اپنی شناخت اس لیے چھپاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف یہاں بہت نفرت ہے۔'
نتن نے جلال آباد سے لے کر مزارِ شریف جیسے علاقوں کا سفر کیا جہاں اس وقت متعدد جنگجو تنظیمیں سرگرم ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'بہت سے جنگجو گروہ جلال آباد میں سرگرم ہیں۔ یہاں ایک 501 سال پرانا گوردوارہ ہے جہاں گرو نانک جی آئے تھے۔ میں وہاں گیا تھا۔ لیکن یہاں موجود لوگوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ ایسی صورتحال میں مجھ سے بالکل بھی بات نہیں کی۔'
افغانستان کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے سومیت (فرضی نام) بھی یہ مانتے ہیں کہ انڈینز کو ایک عجیب سی صورتحال کا سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'میں نے افغانستان کے دور دراز علاقوں میں کام کیا ہے۔ میں نے افغانستان کے سرحدی دیہات، طالبان کے زیر قبضہ علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں بھی کام کیا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ہندوستانی لوگ کہیں پاکستانی سمجھے جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں تو کہیں ہندوستانی سمجھے جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایک بار مجھ سے کچھ لوگوں نے سوال کیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں ایک ہندوستانی ہوں اور ترقیاتی کاموں سے منسلک ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش سے میرا استقبال کیا۔'
انڈیا سے پہنچنے والا امدادی سامان
انڈیا نے اب تک افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ان منصوبوں میں بہت سے انڈین انجینیئر، تکنیکی ماہرین اور دوسرے شعبوں کے پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی افغانستان کے دور دراز علاقوں میں انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور بہت سے انڈینز اقوام متحدہ سمیت دوسری بین الاقوامی خیراتی تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے ایک انڈین شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغانستان کی زمینی صورتحال کا ایک خاکہ پیش کیا۔
راہل (فرضی نام) نے بتایا: 'افغانستان میں مقیم انڈینز بنیادی طور پر ترقیاتی، کاروباری تنظیموں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ تینوں شعبوں میں کام کرنے والے انڈینز کے لیے سکیورٹی کے انتظامات مختلف ہیں۔
'مثال کے طور پر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والوں کے پاس نسبتاً بہتر حفاظتی نظام موجود ہے کیونکہ ان کے پاس حفاظتی عمارتیں، سخت حفاظتی قواعد و ضوابط اور وقتاً فوقتاً سکیورٹی انتظامات کی نگرانی کے لیے خصوصی ٹیم موجود رہتی ہے۔
'لیکن خدمات کے شعبے میں کام کرنے والوں کے حالات قدرے تشویشناک ہیں کیونکہ انھیں اپنے انتظامات خود کرنا ہوتے ہیں۔ اور ایسی صورتحال میں وہ یہ نہیں جانتے کہ کسی شخص پر کتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات لیک ہو جائیں۔'
انڈیا نے اب تک افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ان منصوبوں میں بہت سے انڈین انجینیئر، تکنیکی ماہرین اور دوسرے شعبوں کے پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی افغانستان کے دور دراز علاقوں میں انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور بہت سے انڈینز اقوام متحدہ سمیت دوسری بین الاقوامی خیراتی تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے ایک انڈین شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغانستان کی زمینی صورتحال کا ایک خاکہ پیش کیا۔
راہل (فرضی نام) نے بتایا: 'افغانستان میں مقیم انڈینز بنیادی طور پر ترقیاتی، کاروباری تنظیموں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ تینوں شعبوں میں کام کرنے والے انڈینز کے لیے سکیورٹی کے انتظامات مختلف ہیں۔
'مثال کے طور پر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والوں کے پاس نسبتاً بہتر حفاظتی نظام موجود ہے کیونکہ ان کے پاس حفاظتی عمارتیں، سخت حفاظتی قواعد و ضوابط اور وقتاً فوقتاً سکیورٹی انتظامات کی نگرانی کے لیے خصوصی ٹیم موجود رہتی ہے۔
'لیکن خدمات کے شعبے میں کام کرنے والوں کے حالات قدرے تشویشناک ہیں کیونکہ انھیں اپنے انتظامات خود کرنا ہوتے ہیں۔ اور ایسی صورتحال میں وہ یہ نہیں جانتے کہ کسی شخص پر کتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات لیک ہو جائیں۔'
کابل کے ایک مندر کی یہ تصویر سنہ 2008 میں بھاس سولنکی نے لی تھی
ان کے مطابق 'افغانستان میں رہنے والے انڈینز کا تیسرا طبقہ حکومت ہند کے منصوبوں جیسے شاہراہوں اور ڈیموں کی تعمیر پر کام کرنے والا ہے۔ ان کے حالات خراب ہیں۔ لیکن میرے خیال میں حالیہ ماضی میں ایسے لوگوں کو نکال لیا گیا ہے۔
'بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر کام کرتے ہیں جہاں وہ دور دراز علاقوں میں کھلے آسمان کے نیچے خیموں میں رہتے ہیں۔ وہ اس علاقے کو نہیں جانتے اور اپنے افغان ٹھیکیدار پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔'
ان کے مطابق 'افغانستان میں رہنے والے انڈینز کا تیسرا طبقہ حکومت ہند کے منصوبوں جیسے شاہراہوں اور ڈیموں کی تعمیر پر کام کرنے والا ہے۔ ان کے حالات خراب ہیں۔ لیکن میرے خیال میں حالیہ ماضی میں ایسے لوگوں کو نکال لیا گیا ہے۔
'بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر کام کرتے ہیں جہاں وہ دور دراز علاقوں میں کھلے آسمان کے نیچے خیموں میں رہتے ہیں۔ وہ اس علاقے کو نہیں جانتے اور اپنے افغان ٹھیکیدار پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔'
کیا مستقبل میں انڈینز کا وہاں رہنا ممکن ہوگا؟
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آنے والے زمانے میں انڈینز کے لیے افغانستان میں کام کرنا ممکن ہوگا؟
سومیت کہتے ہیں کہ 'فی الحال اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ طالبان نے اپنی جانب سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی شہریوں کو کسی بھی طرح سے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ طالبان کسی ایک فوج کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ان تمام مسلح گروپوں کا مشترکہ نام ہے جو اپنے مفادات، حساسیت اور روابط کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کا فیصلہ کرتے ہیں۔'
ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سارے گروپ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ایما پر کام کرتے ہیں جبکہ بہت سے دھڑوں کو پاکستان سے منسلک سمجھے جانے پر اعتراض ہے۔ یہ گروہ مختلف سطحوں پر تشدد واقعات میں ملوث ہیں
سومیت کا کہنا ہے کہ 'اس کے علاوہ بہت سارے گروپس موجود ہیں جو کسی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر پرتشدد واقعات کرتے ہیں اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں۔ بہت سارے گروپ ایسے ہیں جن کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ایجنسیوں کے اشارے پر واقعات کو انجام نہیں دیتے بلکہ علاقائی طاقتوں کی نظر میں آنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی نے نئی قسم کی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔'
لیکن کیا انڈیا سمیت تمام ادارے افغانستان سے واپس نکل سکتی ہیں؟
اس سوال پر راہل نے کہا: 'یہ سچ ہے کہ وہاں کام کرنا ایک چیلنج ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے کہ لوگ واپس نہیں آئیں گے۔ مستقبل اگست تک واضح ہو جائے گا۔ کیوں کہ گیارہ ستمبر ایک علامتی دن ہے جب امریکی فوج مکمل طور پر وہاں سے نکل جائے گی۔ اس وقت تک ہم جان
لیں گے کہ وہاں کیا ہونے والا ہے۔
Source
سومیت کہتے ہیں کہ 'فی الحال اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ طالبان نے اپنی جانب سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی شہریوں کو کسی بھی طرح سے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ طالبان کسی ایک فوج کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ان تمام مسلح گروپوں کا مشترکہ نام ہے جو اپنے مفادات، حساسیت اور روابط کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کا فیصلہ کرتے ہیں۔'
ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سارے گروپ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ایما پر کام کرتے ہیں جبکہ بہت سے دھڑوں کو پاکستان سے منسلک سمجھے جانے پر اعتراض ہے۔ یہ گروہ مختلف سطحوں پر تشدد واقعات میں ملوث ہیں
سومیت کا کہنا ہے کہ 'اس کے علاوہ بہت سارے گروپس موجود ہیں جو کسی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر پرتشدد واقعات کرتے ہیں اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں۔ بہت سارے گروپ ایسے ہیں جن کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ایجنسیوں کے اشارے پر واقعات کو انجام نہیں دیتے بلکہ علاقائی طاقتوں کی نظر میں آنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی نے نئی قسم کی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔'
لیکن کیا انڈیا سمیت تمام ادارے افغانستان سے واپس نکل سکتی ہیں؟
اس سوال پر راہل نے کہا: 'یہ سچ ہے کہ وہاں کام کرنا ایک چیلنج ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے کہ لوگ واپس نہیں آئیں گے۔ مستقبل اگست تک واضح ہو جائے گا۔ کیوں کہ گیارہ ستمبر ایک علامتی دن ہے جب امریکی فوج مکمل طور پر وہاں سے نکل جائے گی۔ اس وقت تک ہم جان
لیں گے کہ وہاں کیا ہونے والا ہے۔
Source