مختلف امدادی تنظیموں اور اداروں کی سیلاب زدگان کی مدد کی خبریں تو ہم سنتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسے مزدور کے بارے میں سنیے جو محلے کے چند نوجوانوں کے ساتھ متاثرین کی مدد کے لیے دن رات کی پرواہ کیے بغیر ہر جگہ پہنچا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں سائیکل ریڑھی چلانے والے ایک مزدور دین محمد مجاہد المعروف دینو سیلاب آنے کے فوراً بعد سے متاثرین کی مدد کے لیے ہر جگہ پہنچا ہے۔
دینو کی کوئی تنظیم نہیں ہے، ان کے بیٹے اور محلے کے چند نوجوان ان کے مدد گار ہیں۔ دین محمد کے چار بیٹے ہیں، وہ خود مزدور ہے اور گھر کا واحد کفیل ہے۔
دین محمد نے بتایا کہ ’سب سے پہلے میں تحصیل پرووا کے علاقے رشید پہنچا جہاں ما سوائے ایک مسجد کے تمام گاؤں پانی میں بہہ چکا تھا اور لوگ مسجد کی چھت پر پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہ لوگ دو روز سے بھوکے پیاسے تھے اور ان تک پہنچنا انتہائی مشکل تھا۔ اس لیے ایک کشتی کا انتظام کیا گیا اور اس مسجد تک ہم پہنچے تو ہمارا ایک ساتھی پانی میں گر کر بہا جا رہا تھا جسے بڑی مشکل سے بچایا اور پھر خوراک کے دو دیگ ان متاثرین کو دیے‘۔
انھوں نے کہا کہ کہیں خوراک کی کمی ہے تو کہیں پینے کے پانی کی قلت، کوئی کپڑے اور چپل مانگتا ہے تو کچھ خواتین اور بلکتے شیر خوار بچوں کے لیے دودھ لانے کی منتیں کرتی ہیں۔
شہر میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلانات کے ذریعے چندہ اکھٹا کر کے دین محمد متاثرین کے لیے کھانا تیار کراتا ہے اور پھر متاثرین تک یہ خوراک پہنچاتا ہے
دینو کے مطابق انھوں نے ایک عورت کو دیکھا جس نے بچے کو تپتی سڑک پر لٹا رکھا تھا اور اس پر سے مکھیاں ہٹا رہی تھی۔ اس عورت کے پاس نہ کوئی خیمہ تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سامان جس پر بچے کو لٹا سکتی۔
شہر میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلانات کے ذریعے چندہ اکھٹا کر کے دین محمد متاثرین کے لیے کھانا تیار کراتے ہیں اور پھر متاثرین تک یہ خوراک پہنچاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب متاثرین کے لیے کھانا تیار کیا جاتا ہے تو بہت دل چاہتا ہے کہ ایک پلیٹ بچوں کو بھجوا دوں لیکن اگلے لمحے یہی خیال آتا ہے کہ کہیں اس ایک پلیٹ سے کوئی سیلاب زدہ اس کا بھائی یا بہن بھوکا نہ رہ جائے اس لیے وہ یہ خیانت نہیں کر سکتا
دینو کی کوئی تنظیم نہیں ہے، ان کے بیٹے اور محلے کے چند نوجوان ان کے مدد گار ہیں۔ دین محمد کے چار بیٹے ہیں، وہ خود مزدور ہے اور گھر کا واحد کفیل ہے۔ دینو نے بتایا کہ ان امدادی کارروائیوں کے دوران ان کا اپنا خاندان بھی متاثر ہوا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں تھا تو پیاز اور ٹماٹر کے ساتھ بچوں نے کھانا کھایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب متاثرین کے لیے کھانا تیار کیا جاتا ہے تو بہت دل چاہتا ہے کہ ایک پلیٹ بچوں کو بھجوا دوں لیکن اگلے لمحے یہی خیال آتا ہے کہ کہیں اس ایک پلیٹ سے کوئی سیلاب زدہ اس کا بھائی یا بہن بھوکا نہ رہ جائے اس لیے وہ یہ خیانت نہیں کر سکتا۔
دین محمد نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی علاقے میں اگر کہیں کوئی مشکل میں ہوتا تو وہ اس کی مدد کے لیے ضرور پہنچتا ہے اسی لیے لوگ اسے مجاہد کہتے ہیں۔