اسٹیبلشمنٹ کس بلا کا نام ہے
جنگ آزادی یا انگریز کی زبان میں غدر کے بعد ہندوستان کو تاج برطانیہ کے زیر نگیں کر دیا گیا اور انگریز نے اس خطے کو ایک بدترین تحفہ دیا جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ اس کے دو اہم ترین ادارے تھے سول انتظامیہ اور فوج۔ ان دونوں اداروں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سیکولر قوانین ترتیب دیے گئے۔ چھ سو سال سے اس ملک پر اسلامی فقہ نافذ تھی۔ اس کی جگہ تعزیرات ہند کا قانون آیا روز مرہ تنازعات کے لیے ضابطہ دیوانی اور ان سب قوانین کے نفاذ کے طریق کار کو ضابطہ فوجداری کے ذریعے منظم کیا گیا۔
فوج کو نظریے نہیں بلکہ مادر وطن اور علاقے کی پاسداری کے لیے منظم کیا گیا۔ اسلام کی سر بلندی امت مسلمہ کی سرفرازی اور امت کے مظلوم گروہوں کو ظلم سے بچانا فوج کے تصور سے خالی ہو گیا۔ یہی وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے سراج الدولہ ٹیپو سلطان اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہیرو بنا دیے گئے۔
ریاست کی وفاداری دلوں میں ایسی جاگزیں ہوئی کہ کسی کو پہلی جنگ عظیم میں عراق میں اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور خانہ کعبہ پر گولیاں برسانے پر بھی شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ نوے سال کی انگریز حکومت نے اس اسٹیبلشمنٹ کو سیکولر اور قومی بنیادوں پر اس طرح ترتیب دیا کہ یہ پوری قوم پر ایک خوفناک بلا کی طرح مسلط ہو گئی۔ جاسوسی کا ایک مربوط نظام بنایا گیا جسے سی آئی ڈی کہتے تھے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کے اندر اٹھنے والی آوازوں کی انتظامیہ کو خبر دینا تھا تا کہ ان کا بروقت قلع قمع کیا جا سکے۔
یہ لوگ مسجدوں میں جا کر مسلمانوں کی نماز کے بعد اجتماعی دعائیں تک سنتے اور اگر کوئی صرف یہ دعا بھی مانگتا کہ اے اللہ تو ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے تو اسے غدار قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا اور گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ ایک طویل عرصہ لوگ صرف تہجد کی نمازوں میں دعائیں کرنے لگے۔ مدرسوں کو دہشت گردی اور بغاوت کا اڈہ سمجھا گیا اور سب سے پہلے شاہ ولی اللہ کی قائم کردہ اسلامی یونیورسٹی مدرسۃ رحیمیہ کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کی زمین ایک ہندو لالہ رام کشن داس کے ہاتھ فروخت کر دی گئی۔
مسجد اکبری جہاں شاہ عبدالقادر نے چالیس برس درس دیا تھا اسے گرا کر وہاں ایک کلب قائم کیا گیا جہاں سول اور فوجی افسران شراب اور رقص سے لطف اندوزہ ہوتے اور آج بھی یہ کلب قائم ہے۔
یہ سب اس اسٹیبلشمنٹ سے کروایا گیا جس میں مسلمان بھی بدرجہ اتم موجود تھے لیکن انھیں ریاستی قانون امن و امان کے قیام اور وطن کے تحفظ کی ایسی لوریاں دی گئی تھیں کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہوتا کہ یہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے انھیں ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کے نزدیک o.b.e,k.b.e خان صاحب خان بہادر اور وکٹوریہ کراس جیسے میڈل ہی زندگی کی متاع بن گئے جنھیں وہ اپنے سینوں پر سجائے فخر سے ریاست کی وفاداری میں اپنا سر بلند کرتے۔پاکستان بن گیا لیکن ورثے میں ایک سیکولر قومی اسٹیبلشمنٹ ملی جس کی رگوں میں ایک ایسا خون دوڑتا تھا ذہنوں میں جو سبق موجود تھا اور دلوں میں یہ ایمان تھا کہ اس دنیا میں مسلم امہ نام کی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔
اوریا مقبول جان
فوج کو نظریے نہیں بلکہ مادر وطن اور علاقے کی پاسداری کے لیے منظم کیا گیا۔ اسلام کی سر بلندی امت مسلمہ کی سرفرازی اور امت کے مظلوم گروہوں کو ظلم سے بچانا فوج کے تصور سے خالی ہو گیا۔ یہی وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے سراج الدولہ ٹیپو سلطان اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہیرو بنا دیے گئے۔
ریاست کی وفاداری دلوں میں ایسی جاگزیں ہوئی کہ کسی کو پہلی جنگ عظیم میں عراق میں اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور خانہ کعبہ پر گولیاں برسانے پر بھی شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ نوے سال کی انگریز حکومت نے اس اسٹیبلشمنٹ کو سیکولر اور قومی بنیادوں پر اس طرح ترتیب دیا کہ یہ پوری قوم پر ایک خوفناک بلا کی طرح مسلط ہو گئی۔ جاسوسی کا ایک مربوط نظام بنایا گیا جسے سی آئی ڈی کہتے تھے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کے اندر اٹھنے والی آوازوں کی انتظامیہ کو خبر دینا تھا تا کہ ان کا بروقت قلع قمع کیا جا سکے۔
یہ لوگ مسجدوں میں جا کر مسلمانوں کی نماز کے بعد اجتماعی دعائیں تک سنتے اور اگر کوئی صرف یہ دعا بھی مانگتا کہ اے اللہ تو ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے تو اسے غدار قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا اور گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ ایک طویل عرصہ لوگ صرف تہجد کی نمازوں میں دعائیں کرنے لگے۔ مدرسوں کو دہشت گردی اور بغاوت کا اڈہ سمجھا گیا اور سب سے پہلے شاہ ولی اللہ کی قائم کردہ اسلامی یونیورسٹی مدرسۃ رحیمیہ کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کی زمین ایک ہندو لالہ رام کشن داس کے ہاتھ فروخت کر دی گئی۔
مسجد اکبری جہاں شاہ عبدالقادر نے چالیس برس درس دیا تھا اسے گرا کر وہاں ایک کلب قائم کیا گیا جہاں سول اور فوجی افسران شراب اور رقص سے لطف اندوزہ ہوتے اور آج بھی یہ کلب قائم ہے۔
یہ سب اس اسٹیبلشمنٹ سے کروایا گیا جس میں مسلمان بھی بدرجہ اتم موجود تھے لیکن انھیں ریاستی قانون امن و امان کے قیام اور وطن کے تحفظ کی ایسی لوریاں دی گئی تھیں کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہوتا کہ یہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے انھیں ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کے نزدیک o.b.e,k.b.e خان صاحب خان بہادر اور وکٹوریہ کراس جیسے میڈل ہی زندگی کی متاع بن گئے جنھیں وہ اپنے سینوں پر سجائے فخر سے ریاست کی وفاداری میں اپنا سر بلند کرتے۔پاکستان بن گیا لیکن ورثے میں ایک سیکولر قومی اسٹیبلشمنٹ ملی جس کی رگوں میں ایک ایسا خون دوڑتا تھا ذہنوں میں جو سبق موجود تھا اور دلوں میں یہ ایمان تھا کہ اس دنیا میں مسلم امہ نام کی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔
اوریا مقبول جان