جمشید دستی پیپلز پارٹی کا جیالا تھا شائد یہ بات وجہ بنی تھی اس کی سزا کی . سزا ملنے کے بعد وہ دھاڑیں مار مار کر رویا اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا . بس پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان ہی اس کی تمام تر پریشانیوں کا مداوا ثابت ہوا . چشم زدن میں ہی اس کی تمام مشکلات ختم ہو گئیں اور وہ بحثیت آزاد امید وار پیپلز پارٹی کے مدمقابل ہو گیا . آج وہ ہی صورتحال نون لیگ کو درپیش ہے . گیلانی ، زرداری کی جیل سے لے کر ہاشمی کی غداری تک پاکستان کی تاریخ اسٹبلشمنٹ کے اچھے ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے . اسٹبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی اپنے مخالف سیاسی قوتوں کے حمایتیوں کو ذلیل کرتی ائی ہے اور اپنے حامیوں کو بچاتی ائی ہے . اس سے قبل نون لیگ ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے لوگ یہ شکایت کر چکے ہیں کہ ان پر تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے . اسٹبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی اپنی کنگز پارٹی کو اچھے ہتھکنڈوں سے کامیاب کروانے کی کوشش کرتی ہے جو آج بھی جاری ہے
جمہوریت کی بحالی کے بعد اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں سے بچاؤ کے لیے جو زرداری صاحب نے قومی اتحاد قائم کیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسی کو قانون کے دائرے میں لانے کی بات کی تھی اس پر انھیں سنگین نتائج بھگتنے پڑے . نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جس مارشل لا کی بنیاد رکھی آج وہ تکمیل پا چکا ہے . آج پاکستان کی عوامی حکومتیں مکمل طور پر مفلوج ہیں . نام نہاد احتساب کے نام پر اسٹبلشمنٹ اپنی سیاست چمکا رہی ہے . آزاد عدلیہ کا جو فریب نواز شریف نے اس قوم پر مسلط کروایا آج وہ متوازی گورننگ باڈی بن چکا ہے جج بادشاہ اب ڈیم بھی بنوائیں گے اور گندے نالے بھی صاف کروائیں گے بے شک انصاف کا منتظر ایک اور قیدی جیل میں سڑتا مر جاۓ جج بادشاہ وقت بربادی کے کام جاری رکھیں گے . آج کل جس ڈھٹائی سے انصاف کی دیوی مجرا کر رہی ہے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے . یہ ہے وہ سیاسی انصاف جو اگر عدل بھی ہو تو کوئی نہ مانے ہر بندہ اسے اسٹبلشمنٹ کی طاقت یا بدمعاشی ہی جانے . اسی وجہ سے آج پاکستان کے لوگوں کا اعتماد ان عدالتوں کے فیصلوں سے آٹھ گیا ہے جسے عدالت سزا سناتی ہے وہ عوام کی عدالت میں سرخرو ہوتا ہے
آخر انصاف کی ٹائم لائن سیاست کی ٹائم لائن کے ساتھ ہی کیوں میچ کرتی ہے . کب سے صاف پانی کمپنی سکینڈل ہے اور گرفتاری ہوتی ہے ٹکٹ وصولی کے موقع پر .
اسٹبلشمنٹ کی ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں کی جا سکتی . سیاسی انصاف قبول نہیں کیا جا سکتا . اسٹبلشمنٹ اور عوامی نمائندوں کے درمیان محاز آرائی کا کوئی جواز نہیں . عوامی راۓ عامہ پر اسٹبلشمنٹ کا اثر انداز ہونا قابل قبول نہیں . دھونس دھاندلی سے انتخابی نتائج کی تبدیلی اس قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے احتساب کے نام پر اسٹبلشمنٹ کی بدمعاشی قبول نہیں کی جا سکتی . اگر اسی طرح اسٹبلشمنٹ کی اجارہ داری قائم رہی تو سیاسی قوتوں کے ہاتھ کچھ نہیں اۓ گا اور ایک بار پھر سے سینٹ ماڈل دہرایا جاۓ گا . اسٹبلشمنٹ کی تیزیوں سے یہ ہی لگتا ہے کہ وہ اگلی حکومت آزاد امیدواروں اور چھوٹی پارٹیوں کی بنوانے جا رہی ہے جس کے لیے چوہدری نثار اور شیخ رشید اہم کردار ہوں گے .
نواز شریف کے لونگ مارچ نے پاکستان کو جس اندھے گڑھے میں دھکیلا ہے اب سے نجات بہت مشکل نظر آتی ہے اب کوئی معجزہ ہی خلائی مخلوق اور جج بادشاہ اتحاد سے اختیار عوام کو منتقل کروا سکتا ہے . نہیں تو وہ ہی گیلانی ، ہاشمی زرداری ، دستی ، نواز شریف ، فخر الاسلام ، دانیال عزیز ہوں گے اور وہ ہی سیاسی سزائیں ، نہ اہلیاں اور گرفتاریاں ہوں گی ملک اس کھیل میں برباد ہوتا رہے گا اور ایک اور نسل اپنا مستقبل کھو دے گی
جمہوریت کی بحالی کے بعد اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں سے بچاؤ کے لیے جو زرداری صاحب نے قومی اتحاد قائم کیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسی کو قانون کے دائرے میں لانے کی بات کی تھی اس پر انھیں سنگین نتائج بھگتنے پڑے . نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جس مارشل لا کی بنیاد رکھی آج وہ تکمیل پا چکا ہے . آج پاکستان کی عوامی حکومتیں مکمل طور پر مفلوج ہیں . نام نہاد احتساب کے نام پر اسٹبلشمنٹ اپنی سیاست چمکا رہی ہے . آزاد عدلیہ کا جو فریب نواز شریف نے اس قوم پر مسلط کروایا آج وہ متوازی گورننگ باڈی بن چکا ہے جج بادشاہ اب ڈیم بھی بنوائیں گے اور گندے نالے بھی صاف کروائیں گے بے شک انصاف کا منتظر ایک اور قیدی جیل میں سڑتا مر جاۓ جج بادشاہ وقت بربادی کے کام جاری رکھیں گے . آج کل جس ڈھٹائی سے انصاف کی دیوی مجرا کر رہی ہے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے . یہ ہے وہ سیاسی انصاف جو اگر عدل بھی ہو تو کوئی نہ مانے ہر بندہ اسے اسٹبلشمنٹ کی طاقت یا بدمعاشی ہی جانے . اسی وجہ سے آج پاکستان کے لوگوں کا اعتماد ان عدالتوں کے فیصلوں سے آٹھ گیا ہے جسے عدالت سزا سناتی ہے وہ عوام کی عدالت میں سرخرو ہوتا ہے
آخر انصاف کی ٹائم لائن سیاست کی ٹائم لائن کے ساتھ ہی کیوں میچ کرتی ہے . کب سے صاف پانی کمپنی سکینڈل ہے اور گرفتاری ہوتی ہے ٹکٹ وصولی کے موقع پر .
اسٹبلشمنٹ کی ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں کی جا سکتی . سیاسی انصاف قبول نہیں کیا جا سکتا . اسٹبلشمنٹ اور عوامی نمائندوں کے درمیان محاز آرائی کا کوئی جواز نہیں . عوامی راۓ عامہ پر اسٹبلشمنٹ کا اثر انداز ہونا قابل قبول نہیں . دھونس دھاندلی سے انتخابی نتائج کی تبدیلی اس قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے احتساب کے نام پر اسٹبلشمنٹ کی بدمعاشی قبول نہیں کی جا سکتی . اگر اسی طرح اسٹبلشمنٹ کی اجارہ داری قائم رہی تو سیاسی قوتوں کے ہاتھ کچھ نہیں اۓ گا اور ایک بار پھر سے سینٹ ماڈل دہرایا جاۓ گا . اسٹبلشمنٹ کی تیزیوں سے یہ ہی لگتا ہے کہ وہ اگلی حکومت آزاد امیدواروں اور چھوٹی پارٹیوں کی بنوانے جا رہی ہے جس کے لیے چوہدری نثار اور شیخ رشید اہم کردار ہوں گے .
نواز شریف کے لونگ مارچ نے پاکستان کو جس اندھے گڑھے میں دھکیلا ہے اب سے نجات بہت مشکل نظر آتی ہے اب کوئی معجزہ ہی خلائی مخلوق اور جج بادشاہ اتحاد سے اختیار عوام کو منتقل کروا سکتا ہے . نہیں تو وہ ہی گیلانی ، ہاشمی زرداری ، دستی ، نواز شریف ، فخر الاسلام ، دانیال عزیز ہوں گے اور وہ ہی سیاسی سزائیں ، نہ اہلیاں اور گرفتاریاں ہوں گی ملک اس کھیل میں برباد ہوتا رہے گا اور ایک اور نسل اپنا مستقبل کھو دے گی