Shah Shatranj
Chief Minister (5k+ posts)
راحیل شریف کی رٹائرمنٹ کے بعد ایسا لگتا ہے اسٹبلشمنٹ کی وفات ہو چکی ہے . جیسے ائی ایس ائی کے چیف کی رٹائرمنٹ کے بعد دھرنے کی صورتحال بدل گئی تھی اسی طرح راحیل شریف کے جانے کے بعد زرداری کی واپسی اور پے در پے ہونے والے واقعات اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے خاتمے کی طرف اشارہ کر رہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے جیسے نۓ آرمی چیف کی آمد کے بعد پیپلز پارٹی کو کوئی نئی امید کی کرن یا کامیابی کا نیا رستہ نظر آ گیا ہو . ہو سکتا ہے کوئی کنکشن ہو دونو کے بیچ میں . اب وہ پرانی بات نہیں جب اسٹبلشمنٹ کے شکنجوں میں پیپلز پارٹی کے رہنما جکڑتے نظر آ رہے تھے اب تو ایک ایک کر کے ہر ایک کو کلین چٹ مل رہی ہے
دوسری طرف پانامہ کا معاملہ بھی لٹکتا ہوا نظر آ رہا ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا زور ٹوٹ رہا ہے . یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پس پردہ حکومتی
جماعت نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کر لی ہو اور فوجی عدالتوں کے بدلے کوئی ریاعت حاصل کر لی ہو ویسے بھی پچھلے کچھ دنوں میں ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوے جس میں سر فہرست پاک افغان بارڈر کی بندش کا معاملہ تھا ایسا لگتا ہے حکومت بیک فٹ پر جانے کو تیار ہے اور اسٹبلشمنٹ کی من پسند فارن پالیسی دینے کو بھی تیار ہے . ویسے بھی جتنا اسٹبلشمنٹ کو حکومتی جماعت جانتی ہے
کوئی دوسرا نہیں جانتا اور جتنی فنکاری اسٹبلشمنٹ کو راضی کرنے میں حکمران کر سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا اس لیے اسٹبلشمنٹ کے لیے ہمیشہ سے ہی بہترین ڈیل نون لیگ کے ساتھ کام کرنے میں ہی رہی ہے لیکن ڈان لیکس اور دوسری کئی گستاخیوں کی روشنی میں ایسا نہیں لگتا کے دونو دوبارہ شیر و شکر ہو پائیں گے اب بات کرتے ہیں سیاسی نو نہال انقلابی لیڈر یا عمران بے انگلی (بغیر ایمپائر کی انگلی کے ، جیسے یوسف بے کارواں) کی جس کے پاس ایک طرف تو انگلی پکڑنے کی کالک منہ پر پیوستہ ہے
دوسری طرف پارٹی بھی منظم نہیں اور تیسری طرف جناب کے مزاج بھی ایمپائر سے نہیں ملتے . کیوں کے ایک میدان میں دو ایمپائر نہیں ہو سکتے اسی طرح ملک میں بھی ایک ہی ایمپائر ہو سکتا ہے لیکن عمران خان تو خود کو ایمپائر کا بھی ایمپائر یعنی میچ ریفری سمجھتا ہے تو ایمپائر یہ نہیں چاہے گا کہ اس پر کوئی حکم چلے تو ایسا لگتا ہے انگلی کے اٹھنے سے عمران خان کی ہی وکٹ اڑ گئی ہے.
عمران خان کوئی خاص تبدیلی نہیں لا سکے جس کو رول ماڈل کے طور پر باقی پاکستان کے سامنے پیش کیا جا سکے صرف کرپشن اور لا اینڈ آرڈر ہی حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ عوام خاص طور پر نوجوانوں کا روزگار ملک کا اولین مسلہ ہے جس کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور وقتاً فوقتاً اگر تحریک انصاف اور عمران خان کی مارے جانے والی بونگیوں کی بات جیسے پی ایس ایل میں پھٹیچر اور آج کل جنرل راحیل کی مخالفت کی بات سامنے رکھی جاۓ تو تحریک انصاف کی بچگانیت اور اجنبیت کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے
کچھ نونہال یہ کہ رہے ہیں کہ پانامہ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق آیا تو یہ نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سپریم کورٹ بھی وہ ہی کچھ کرتی ہے جو بھٹو کے ساتھ یا گیلانی کے ساتھ ہوا تو اس میں اور ماضی کی سپریم کورٹس میں کیا فرق رہ جاۓ گا . سپریم کورٹ صرف ڈائرکشن دے سکتا ہے الیکشن کمیشن کو اور کچھ نہیں کر سکتا اصل فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے کہ غلط اثاثوں کی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کرنا ہے یا نہیں کرنا
دیکھنے میں تو پاکستان میں کوئی بھی پاک صاف نہیں ہر کسی میں خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں یہ اب عوام ہی فیصلہ کرے گی اگلا الیکشن کون جیتتا ہے جو بھی عوام کا فیصلہ ہو سب کو قبول کرنا چاہئیے

دوسری طرف پانامہ کا معاملہ بھی لٹکتا ہوا نظر آ رہا ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا زور ٹوٹ رہا ہے . یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پس پردہ حکومتی
جماعت نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کر لی ہو اور فوجی عدالتوں کے بدلے کوئی ریاعت حاصل کر لی ہو ویسے بھی پچھلے کچھ دنوں میں ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوے جس میں سر فہرست پاک افغان بارڈر کی بندش کا معاملہ تھا ایسا لگتا ہے حکومت بیک فٹ پر جانے کو تیار ہے اور اسٹبلشمنٹ کی من پسند فارن پالیسی دینے کو بھی تیار ہے . ویسے بھی جتنا اسٹبلشمنٹ کو حکومتی جماعت جانتی ہے
کوئی دوسرا نہیں جانتا اور جتنی فنکاری اسٹبلشمنٹ کو راضی کرنے میں حکمران کر سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا اس لیے اسٹبلشمنٹ کے لیے ہمیشہ سے ہی بہترین ڈیل نون لیگ کے ساتھ کام کرنے میں ہی رہی ہے لیکن ڈان لیکس اور دوسری کئی گستاخیوں کی روشنی میں ایسا نہیں لگتا کے دونو دوبارہ شیر و شکر ہو پائیں گے اب بات کرتے ہیں سیاسی نو نہال انقلابی لیڈر یا عمران بے انگلی (بغیر ایمپائر کی انگلی کے ، جیسے یوسف بے کارواں) کی جس کے پاس ایک طرف تو انگلی پکڑنے کی کالک منہ پر پیوستہ ہے
دوسری طرف پارٹی بھی منظم نہیں اور تیسری طرف جناب کے مزاج بھی ایمپائر سے نہیں ملتے . کیوں کے ایک میدان میں دو ایمپائر نہیں ہو سکتے اسی طرح ملک میں بھی ایک ہی ایمپائر ہو سکتا ہے لیکن عمران خان تو خود کو ایمپائر کا بھی ایمپائر یعنی میچ ریفری سمجھتا ہے تو ایمپائر یہ نہیں چاہے گا کہ اس پر کوئی حکم چلے تو ایسا لگتا ہے انگلی کے اٹھنے سے عمران خان کی ہی وکٹ اڑ گئی ہے.
عمران خان کوئی خاص تبدیلی نہیں لا سکے جس کو رول ماڈل کے طور پر باقی پاکستان کے سامنے پیش کیا جا سکے صرف کرپشن اور لا اینڈ آرڈر ہی حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ عوام خاص طور پر نوجوانوں کا روزگار ملک کا اولین مسلہ ہے جس کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور وقتاً فوقتاً اگر تحریک انصاف اور عمران خان کی مارے جانے والی بونگیوں کی بات جیسے پی ایس ایل میں پھٹیچر اور آج کل جنرل راحیل کی مخالفت کی بات سامنے رکھی جاۓ تو تحریک انصاف کی بچگانیت اور اجنبیت کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے
کچھ نونہال یہ کہ رہے ہیں کہ پانامہ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق آیا تو یہ نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سپریم کورٹ بھی وہ ہی کچھ کرتی ہے جو بھٹو کے ساتھ یا گیلانی کے ساتھ ہوا تو اس میں اور ماضی کی سپریم کورٹس میں کیا فرق رہ جاۓ گا . سپریم کورٹ صرف ڈائرکشن دے سکتا ہے الیکشن کمیشن کو اور کچھ نہیں کر سکتا اصل فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے کہ غلط اثاثوں کی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کرنا ہے یا نہیں کرنا
دیکھنے میں تو پاکستان میں کوئی بھی پاک صاف نہیں ہر کسی میں خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں یہ اب عوام ہی فیصلہ کرے گی اگلا الیکشن کون جیتتا ہے جو بھی عوام کا فیصلہ ہو سب کو قبول کرنا چاہئیے
- Featured Thumbs
- http://cccibara.com/wp-content/uploads/2016/11/establogo.jpg
Last edited by a moderator: