اسمگلروں نے کس طرح ہتھوڑوں سے تشدد کر کے پاکستانیوں کو سمندر میں پھینکا؟

2cc48a70-d615-11ef-94cb-5f844ceb9e30.jpg.webp

مراکش کے ساحل کے قریب پیش آنے والے ایک المناک واقعے میں یورپ جانے کے خواہشمند 86 تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی تیرہ دن تک سمندر میں پھنسے رہنے کے بعد شدید مشکلات کا شکار ہوئی۔ اس واقعے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے جن میں 44 پاکستانی شامل تھے۔

کشتی میں سوار افراد نے بھوک، پیاس، اور سمگلروں کے تشدد کا سامنا کیا۔ تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم واکنگ بارڈرز کی ہلینا ملینو نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کشتی کے مسافر نہایت اذیت ناک حالات میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق کشتی کے سفر کا آغاز 2 جنوری کو ہوا، جب یہ مسافر سپین کے کنیری جزیرے کی طرف روانہ ہوئے۔ تاہم 5 جنوری کو سمندر کے بیچوں بیچ کشتی کو روک دیا گیا اور مسافروں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ بچ جانے والے افراد کے مطابق سمگلر نہ صرف ان پر تشدد کرتے رہے بلکہ بعض کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔

عزیر بٹ، جو اس کشتی میں سوار تھے اور پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھتے ہیں، نے بتایا کہ سمگلروں نے ان کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء اور موبائل فونز چھین کر کشتی کو ایک ویران مقام پر لاکر چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشتی میں موجود مسافروں نے کئی راتیں کھلے آسمان تلے گزاریں، جہاں سردی اور بھوک سے ان کی حالت مزید بگڑتی گئی۔

مہتاب شاہ، جو اس ہولناک سفر سے بچ نکلنے والوں میں شامل ہیں، نے بتایا کہ جب اندھیرا چھٹنے کے بعد صبح ہوئی تو سمگلروں نے ایک اور کشتی کے ذریعے قریب آکر کچھ مسافروں کو قریب بلایا۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹے ہتھوڑے تھے، جن سے انہوں نے چار نوجوانوں کو نشانہ بنایا۔ ان لڑکوں کو منڈی بہاوالدین سے بلایا گیا تھا، اور سمگلروں نے انہیں ہتھوڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے سر اور چہروں پر ضربیں لگائیں، اور پھر انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔

مہتاب شاہ یاد کے مطابق 10 دنوں تک سمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کر کے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں مسلسل یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ اگلا شکار وہ خود ہوں گے۔ مہتاب شاہ نے بتایا کہ سمگلروں کی موجودگی میں ہر دن ایک نئی اذیت لے کر آتا تھا، اور مسافروں کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کس سے مدد طلب کریں۔

کشتی میں سوار افراد نے سمندر کے پانی پر گزارا کرنے کی کوشش کی، مگر زیادہ تر مسافر بیماری اور بھوک کی شدت سے نڈھال ہو چکے تھے۔ کئی مسافروں نے اپنے اہل خانہ کے لیے وصیتیں اور آخری پیغامات چھوڑے کہ اگر وہ زندہ نہ بچ سکیں تو ان کا پیغام گھر والوں تک پہنچا دیا جائے۔

15 جنوری کو مراکشی حکام نے کشتی میں سوار 36 افراد کو ریسکیو کیا۔ یہ کاروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی جب مسافر موت کے قریب پہنچ چکے تھے۔ سپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس نے 10 جنوری کو اس کشتی کے حوالے سے معلومات حاصل کی تھیں لیکن فضائی کھوج کے دوران اسے تلاش نہیں کیا جا سکا تھا۔ واکنگ بارڈرز کے مطابق، انہوں نے کئی دن پہلے حکام کو لاپتہ کشتی کے بارے میں مطلع کر دیا تھا، مگر امداد وقت پر نہ پہنچ سکی۔

پاکستان میں اس واقعے کے بعد انسانی سمگلروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کئی مقدمات درج کیے ہیں اور انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ متاثرین کی اکثریت کا تعلق سیالکوٹ، گجرات، اور منڈی بہاؤالدین کے علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقات اس بات پر مرکوز ہیں کہ کس طرح انسانی سمگلروں نے ان افراد کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کا انتظام کیا اور کن سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت شامل تھی۔

اس حادثے میں ہلاک ہونے والے دو کزنز، عاطف اور سفیان، کے رشتہ دار احسن شہزاد نے بتایا کہ سپین پہنچانے کے لیے فی کس 35 لاکھ روپے ایجنٹوں کو ادا کیے گئے تھے۔ عاطف اور سفیان دونوں پہلے دبئی میں کام کرتے تھے، مگر بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے رشتہ داروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی لاشوں کو پاکستان واپس لایا جائے تاکہ ان کی آخری رسومات ادا کی جا سکیں۔
 

Back
Top