Fawad Digital Outreach Team US State Department
صدر اوباما کا افطار ڈنر سے خطاب
گُڈ ایوننگ۔ آپ سب کو خوش آمدید۔ براہ مہربانی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیئے۔ آپ سب کو وہائٹ ہاؤس میں خوش آمدید۔ آپ کے لیئے ، ہمارے پورے ملک کے مسلمان امریکیوں، اور دنیا بھر کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لیئے ، میں اس مقدس مہینے میں اپنی بہترین تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ سب کو رمضان شریف مبارک۔
میں سفارت خانوں کے ارکان کو، اپنی انتظامیہ کے ارکان کو ;اور امریکی کانگریس کے ارکان کو بھی خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان ارکان میں Rush Holt, John Conyers اور Andre Carson شامل ہیں جو Keith Ellison کے ساتھ ساتھ امریکی کانگریس کے دو مسلمان ارکان میں سے ایک ہیں۔تو آپ سب کو خوش آمدید۔
یہاں وہائٹ ہاؤس میں کئی برسوں سے ، افطار پارٹیوں کی میزبانی کرنے کی روایت اسی طرح موجود ہے ، جیسے کہ ہم کرسمس پارٹیوں، سیڈرز اور دیوالی کی تقریبات کی میزبانی کرتے ہیں ۔ اور یہ تقریبات امریکی لوگوں کی زندگیوں میں مذہب کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ اور یہ ہمیں اس بنیادی سچائی کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں، اور ہم سب کو اپنے عقائد سے توانائی اور زندگی کے با مقصد ہونے کا احساس ملتا ہے ۔
ان تقریبات سے امریکیوں کی حیثیت سے ہمارے اپنے مقام کی بھی توثیق ہوتی ہے ۔ہمارے ملک کے بانیوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ہمارے عوام کی زندگیوں میں مذہب کے مقام کو عزت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی حفاظت کی جائے ۔تھامس جیفرسن نے مذہبی آزادی قائم کرنے کے ورجینیا کے قانون میں لکھا ہے، اور یہ انہی کے الفاظ ہیں، "تمام لوگوں کو مذہب کے معاملات میں اپنی آرا پر عمل کرنے اور ان پر قائم رہنے کی آزادی ہوگی۔" ہمارے آئین کی پہلی ترمیم میں مذہب کی آزادی کو ملک کا قانون قرار دیا گیا ۔ اور اس کے بعد سے اب تک اس کی پاسداری کی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں، ہماری سرحدوں کے اندر مذہب پھلتا پھولتا رہا ہے، کیوں کہ امریکیوں کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کی آزادی حاصل رہی ہے۔ اس میں یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ چاہیں تو کسی بھی مذہب کو نہ مانیں۔ یہ ہماری مملکت کے بانیوں کی عقل و دانش کا ثبوت ہے کہ امریکہ میں آج بھی مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔امریکہ ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ امن و آشتی میں اور باہم احترام کے جذبے کے ساتھ مِل جُل کر رہتےہیں۔ اس کا موازنہ دنیا کے ان علاقوں سے کیجیئے جہاں مذہبی تنازعات کا دور دورہ ہے ۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذہب کے بارے میں اختلافات بالکل نہیں ہیں۔ حال ہی میں، بعض بستیوں میں مسجدوں کی تعمیر پر توجہ مرکوز ہوئی ہے۔۔۔۔خاص طور سے نیویارک میں ۔ ہم سب کو لوئر مین ہٹن کی تعمیر کے سلسلے کی حساس نوعیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ 9/11 کے حملے ہمارے ملک کے لیے انتہائی ہولناک واقعات تھے۔ اور ان لوگوں کے دکھ اور تجربے کا اندازہ لگانا مشکل ہے جو اپنے عزیزوں سے محروم ہوئے۔ اس لیے میں اس مسئلے سے وابستہ جذبات کو سمجھتا ہوں اور گراؤنڈ زیرو درحقیقت ایک مقدس جگہ ہے۔
میں واضح طور سے کہنا چاہتا ہوں کہ، ایک شہری اور صدر کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اور اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کے وہی حقوق حاصل ہیں، جو اس ملک میں رہنے والے دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں۔ اور اس میں لوئر مین ہٹن میں مقامی قوانین اور آرڈی ننسوں کے مطابق نجی املاک پر کسی عبادت گاہ اور کسی کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کا حق شامل ہے۔ یہ امریکہ ہے اور مذہبی آزادی سے ہماری وابستگی پر آنچ نہیں آ نی چاہیے۔اور یہ اصول کہ یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور یہ کہ ان کے ساتھ حکومت کوئی مختلف سلوک روا نہیں رکھے گی، ہماری منفرد شناخت کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ اس ملک کے بانیوں کے حکم پر عمل ہونا چاہیے۔
ہمیں ان لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہیں ہم نے نائین الیون کو ایک المناک انداز میں کھودیا، اور ہمیں ہمیشہ ان کا احترام کرنا چاہیے جو اس حملے کے ردعمل میں سب سے پہلے آگے بڑھے ۔ ۔۔ ان فائرفائیٹرز سے لے کر جو دھوئیں سے بھری سیٹرھیاں چڑھے، ان فوجیوں تک ، جو آج افغانستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ہماری لڑائی کا مقصد کیا ہے۔ ہمارے دشمن مذہبی آزادی کا بالکل احترام نہیں کرتے۔ القاعدہ کا نصب العین اسلام نہیں ہے۔۔۔۔انہوں نے تو اسلام کو بری طرح مسخ کردیا ہے۔ یہ کوئی مذہبی راہنما نہیں ہیں یہ تو دہشت گرد ہیں جو بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کسی بھی دوسرے مذہب کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے- اور اس فہرست میں وہ بے گناہ مسلمان بھی شامل ہیں جو 9/11 کو ہلاک ہوئے تھے۔
تو یہ ہیں وہ لوگ جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں۔۔ وہ دہشت گرد جو انسانی جانوں اور انسانی آزادی کا بالکل احترام نہیں کرتے ۔ اور ہم یہ جنگ صرف اپنے ہتھیاروں کے بَل پر نہیں جیتیں گے۔۔ بلکہ اپنی اقدار کی طاقت سے جیتیں گے۔ اس جمہوریت کی طاقت سے ، جس کے ہم علمبردار ہیں۔ ان قوانین کی طاقت سے جن کا ہم نسل یا مذہی یا دولت یا حیثیت سے قطع نظر اطلاق کرتے ہیں ۔ تحمل اور روا داری کے اظہار کی ہماری صلاحیت ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے احترام کا اظہاربھی ہے ، جو ہم سے مختلف ہیں ۔۔۔۔اور امریکیوں کا مخصوص انداز زندگی ،دوسروں کو فنا کرنے کے درپے لوگوں سے یکسر الٹ ہے، جنہوں نے ستمبر کی ایک صبح ہم پر حملہ کیا تھا، اور جو آج بھی ہمارے خلاف مسلسل منصوبے بنارہےہیں۔
میں نے اپنے حلف برداری کے خطاب میں کہا تھا کہ ہمارے ورثے کی رنگا رنگی ہماری کمزوری نہیں بلکہ ہماری قوت ہے۔ ہم عیسائیوں، مسلمانوں، یہودیوں، ہندوؤں اور کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ ہماری تشکیل میں اس کرہ ارض کے ہر حصے کی زبان اور ثقافت شامل ہے۔اس تنوع کے سبب مشکل مباحث چِھڑ سکتے ہیں ۔یہ چیزیں صرف ہمارے دور سے ہی مخصوص نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی یہودی عبادت گاہوں یا کیتھولک گرجا گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں تنازعات دیکھے جاچکے ہیں۔
لیکن امریکی عوام بار ہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ ہم اپنی بنیادی اقدار کے ساتھ سچی وابستگی رکھتے ہوئے اور ان پر مزید شدت کے ساتھ قائم ر ہتے ہوئے, ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں ۔ اور آج بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور ایسا ہی ہوگا۔
اور آج رات ، ہمیں اس چیز کی یاددہانی کراتی ہے کہ رمضان ایک ایسے عقیدے کی خوشی منانے کا موقع ہے جواپنے عظیم تنوع کے لیئے مشہور ہے ۔ اور رمضان سے اس حقیقت کی یاددہانی ہوتی ہے کہ اسلام ہمیشہ سے امریکہ کا حصہ رہاہے۔ امریکہ کے لیے پہلے مسلمان سفیر کا تعلق تونس سے تھا اور ان کی میزبانی صدر جیفر سن نے کی تھی۔ انہوں نے اپنے مہمان کے لیے غروب آفتاب کے وقت عشائیے اہتمام کیا تھا کیونکہ وہ رمضان کا مہینہ تھا ۔یوں دوسوسال سے بھی زیادہ عرصے پہلے وائٹ ہاؤس میں دیا جانے والا عشائیہ وہ پہلا افطار بن گیا جو ہمارے علم میں ہے۔
بہت سے دوسرے تارکین وطن کی طرح، مسلمانوں کی نسلیں بھی یہاں اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے آئیں۔ انہوں نے کاشت کاری کی ، کاروبار کیے، ملوں اور فیکٹریوں میں کام کیا ۔ انہوں نے ریل کی پٹریاں بنانے میں مدد کی ۔ انہوں نے امریکہ کی تعمیر میں مدد کی ۔
انہوں نے 1890ء کی دہائی میں نیویارک شہر کے پہلے اسلامی سینٹر کی بنیاد رکھی ۔ انہوں نے نارتھ ڈکوٹا کےعلاقے میں امریکہ کی سب سے پہلی مسجد بنائی ۔ اور غالباً امریکہ کی سب سے پرانی مسجد ، جو باقی ہے، آج بھی ریاست آیوواکے علاقے Cedar Rapids میں زیر استعمال ہے۔
آج لاکھوں امریکی مسلمان ہماری قوم کی توانائی ہیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام پچاس ریاستوں میں قائم مساجد سمیت ،امریکی مسلمانوں کی آبادیاں اپنے پڑوسیوں کی بھی خدمت کرتی ہیں۔ امریکی مسلمان ،پولیس اہلکاروں ، فائر فائیٹرز اور ہنگامی مدد کے کارکنوں کے طور پر ہماری کمیونٹیوں کی حفاظت کررہےہیں۔امریکی مسلمان علماء ان اسلامی تعلیمات کی پرزور تائید کرتے ہوئے کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ انسانی جان بچائے ، نہ کہ کسی کی جان لے، دہشت گردی اور انتہاپسند ی کے خلاف اپنی آواز بلند کرچکے ہیں۔ اور امریکی مسلمان ہماری فوج میں وقار کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اگلے ہفتے پنٹاگان میں ہونے والے افطار میں ان تین فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا جنہوں نے عراق میں اپنی زندگیاں قربان کیں اور اب وہ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں دیگرامریکی ہیروز کے ساتھ ابدی نیند سو رہے ہیں۔
ان امریکی مسلمانوں نے اس سیکیورٹی کے لیے ،جس پر ہم انحصار کرتے ہیں ، اور ان آزادیوں کے لیے، جو ہمیں عزیز ہیں، اپنی جانوں کی قربانی دی۔ وہ امریکیوں کے اس نہ ٹوٹنے والے سلسلے کا حصہ ہیں جس کی جڑیں ہماری مملکت کے قیام سے پیوست ہیں ؛ ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والے وہ تمام امریکی جنہوں نے امریکہ سے وابستہ مستقبل کی توقعات کونئی نسلوں تک پہنچانے کے لیئے خدمات انجام دیں اور قربانیا ں دیں، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ امریکہ کی منفرد خصوصیت، یعنی ہمارے اتحاد کو کامل بنانے کی صلاحیت ،محفوظ رہے۔
کیوں کہ ہم بدستور خدائے بزرگ و برتر کے سائے میں، ایک نا قابل تقسیم قوم ہیں، اور ہم سب کے لیے آزادی اور انصاف صرف اس صورت میں حاصل کرسکتے ہیں اگر ہم، اسلام سمیت ،ہر مذہب کے اس بنیادی اصول کے تحت اپنی زندگیاں گذاریں کہ ہم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں ۔
آپ سب کی یہاں تشریف آوری کا شکریہ اور میں آپ کے لیے رمضان المبارک کی برکات کا متمنی ہوں اور اس کے ساتھ آپ سے یہ درخواست کہ آئیے کھاناتناول کریں۔
فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov