
اسلام کی نئی تشریح کی ضرورت
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اور جو لوگ اپنے دور کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں، وہ جلد یا بدیر مٹ جاتے ہیں۔ آج کا مسلمان دورِ حاضر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، اس کے قول و فعل میں تضاد ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بند کرنے کی حمایت بھی کرتا ہے اور اسے استعمال بھی کرتا ہے، یہود و نصاریٰ پر لعنت بھی کرتا ہے اور امریکہ و یورپ کے ویزے کے لئے تڑپتا بھی ہے، مسلمان جن جن معاشروں میں رہ رہے ہیں، وہاں شدت پسندی کا عنصر بھی زیادہ ہے، آج ٹرمپ مسلمان مخالف نعرہ لگا کر امریکہ کا صدر بن گیا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کے،
لوگ بھی مسلمانوں سے تنگ ہیں۔آج کا مسلمان کسی بھی غیر مسلم معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا، وہ نہ صرف اپنے لئے آزار کا باعث بنتا ہے بلکہ اس معاشرے کے لئے بھی اذیت کا سامان کرتا ہے۔
اس کی کچھ سادہ سی وجوہات ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ صرف وہی حق پر ہیں اور باقی تمام مذاہب کے لوگ بھٹکے ہوئے ہیں اور دنیا کے ہر غیر مسلم کو دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر غیر مسلم کو دعوتِ اسلام دے کر مسلمان کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے کسی سکول کالج میں کوئی غیر مسلم مل جائے، سب کی کوشش ہوگی کہ اس کو مسلمان کردیا جائے۔۔ صرف یہی نہیں، بلکہ مغربی ممالک میں جہاں مسلمان خود اقلیت میں ہیں، وہاں بھی ان کی کوشش ہوگی کہ ان کو دعوتِ اسلام دے کر مسلمان کردیا جائے۔ ابھی حال ہی میں جاوید آفریدی نے ٹویٹر پر خوشخبری سنائی کہ ڈیرن سیمی کے جلد مسلمان ہونے کا امکان ہے۔۔۔ کرکٹ کو گولی مارو۔۔۔۔ اگر مسلمانوں کو کوئی ہندو، عیسائی یا یہودی دعوت دے کہ اسلام چھوڑ کر ہندومت، عیسائیت یا یہودیت قبول کرلو تو کیا ردعمل ہوگا۔۔ مسلمانوں کو اپنی یہ سوچ بدلنی ہوگی۔۔ اپنے مذہب کو سچا مانتے رہو، اس میں کوئی پریشانی نہیں، مگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی جینے دو، ان کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے دو۔۔
اسلام میں جہاد کا جو تصور ہے وہ مسلمانوں میں شدت پسندی کا اصل ذریعہ ہے۔ جہاد کو ری ڈیفائن کرنا ہوگا۔ آج کے دور میں جہاد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کیا جائے۔ اپنے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے تو خود کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مضبوط کریں اور اسی میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کریں۔ مسلح جہاد کا دائرہ کار محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلح جہاد کو صرف ان علاقوں میں جائز قرار دیا جائے جہاں سامراجی قوتوں کا قبضہ ہو، مزیدبرآں مسلح جہاد صرف اسی مخصوص ریاست کے اپنے لوگ کریں، سرحد کے باہر سے اس جہاد میں کوئی شریک نہ ہو۔۔۔ ہاں سرحد پار سے سیاسی و معاشرتی و سفارتی مدد کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مسلمانوں کو اس تصور سے بھی نکلنے کی ضرورت ہے کہ اسلام پوری دنیا پر چھانے کے لئے آیا ہے، خود کو دیگر قوموں کے برابر سمجھیں، اس تصور کی وجہ سے مسلمان خود کو دیگر مذاہب کے لوگوں سے بالاتر مخلوق سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں۔ یورپ میں جاتے ہیں تو ان لوگوں پر زبردستی اسلام ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل امریکہ میں تین مسلمان سر عام امریکہ کی سڑکوں پر اسلام نافذ کرتے پائے گئے، ایک نوجوان جوڑے کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے پھرنے پر پکڑ کر پیٹ ڈالا، ایک شخص کو شراب پینے پر زدو کوب کیا اور ایک لڑکی کا لباس نامناسب قرار دے کر اسے ہراساں کیا، امریکی عدالت نے تینوں کو جیل بھیج دیا۔ مسلمانوں کو اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ان کو خدا نے دوسروں پر داروغہ بنا کر بھیجا ہے۔
سب سے اہم بات جو ہم مسلمانوں کو سمجھنی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی صورت میں ہر شخص کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوچکا ہے جس پر وہ اپنے دل کی بات بلا روک ٹوک کہہ سکتا ہے۔ انٹرنیٹ / سوشل میڈیا کی اس آبادی میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ہمارے ہم خیال بھی اور ہم سے اختلاف کرنے والے بھی، ایسے لوگ بھی ہیں جو اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے خرافات بکتے ہیں، ایسے لوگوں کو اگنور کریں، ان کا پیچھا کرنے کی، یا واویلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ پوری دنیا پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔۔۔۔یہ ذمہ داری ہمارے مذہبی پیشواؤں پر عائد ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی نئی تشریح کریں، اسلام کو دورِ حاضر سے ہم آہنگ کریں، اسلام میں عدم برداشت کا رد کریں اور برداشت کا سبق دیں،تاکہ آج کا مسلمان دنیا کے لئے خطرہ بننے کی بجائے کارآمد بن سکے۔۔۔