اسلام کا معاشی نظام کیوں نہ کامیاب ہو سکا
اسلام کا مطالعہ مزید مطالہ کی دعوت دیتا ہے جس کو اکثر افراد ٹھکرا کے حتمی رہے قائم کرنے کی غلطی کرتے ہیں. میں لگزمبرگ جیسے ممالک میں(جہاں کوئی بھوکا نہی سوتا جہاں کوئی غریب نہی ہے جہاں پر جرائم کی شرح بہت کم اور انصاف کا بول بلا ہے ) گھومتے اکثر شکوہ کرتا ہوں کے دین ایے فطرت اور بہترین نظام حکومت اور معاشرتی انصاف کے دنیا کے کامیاب ترین مذهب میں ہی سب سے زیادہ طبقاتی تفریق اور بےانصافی ظلم اور جبر کے نظام کیوں رائج ہیں .
سوالوں پی اگر پابندی ہو تو تو سوچ گہری ہو جاتی ہے آج کل کے بناوٹی علماء کے پاس واحد ہتیار ان کی لفاظی اور گفتاری ہے میرے اس سوال کا بھی مختلف جیّد حضرت نے خوبصورتی سے جواب دے لیکن وہ مسلے ک حل کی طرف نشاندہی نہی کرتے تھے .
پھر حال ہے میں ایک صاحب اعتبار نے خوبصورتی سے وضاحت کی کے دور ایے حاضر میں اسلامی بنکاری کا نظام جس قدر خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بل کے بہت سے دیگر اسلامی ممالک میں جیّد علماء کو ماہانہ معاوضہ ادا کر کے اسلامی سرٹیفکیشن ک اعزاز کے ساتھ چلایا جا یا جا رہا ہے .جس پی علماء کا موقف یہ ہوتا ہے کے اسلام کو عصری تقاضوں کے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کو علماء وقت نے ہی پوری کرنی ہے عجیب یا محض اتفاق ہے کے انہی علماء میں سے اکثر علماء تصویر کو حرام کرار دے جانے کی جنگ میں ہراول دستہ بنے ہوے ہیں.
اسی تیرہ سے حال ہے میں حضرت عمرکے اس فرات کے کتے کا مذاق انہی حاکمین وقت نے اڑایاجو حضرت عمر کی حرمت کے دفاع ک دعویدار ہیں. اس مثال سے بھی یہ وضاحت ہوتی ہے کے اصول قائدے صرف ذاتی استمعال کے لئے ہیں
سعودی عرب میں اسلام اور مذهب قرآن سے زیادہ سعودی حکمران ہیں جنھیں قلی دینے کی باقائدہ سزا موت ہے. ان سب باتوں سے لگتا یہ ہے ک آج تک شائد اسلامی اقتصادی نظام کہیں پی رائج ہو ہی نہی سکا جب کے مختلف نظاموں کو اسلامی نظاموں کی مہر لگا ک پیش کیا جایا جاتا رہا ہے
اسلامی نظام میں اگر ہم نظر ڈالیں جو کے دور ایے نبی () تک غیر متنازع رہا ہے اس کے ہر ایک پہلو کو اپنانا ہوگا کچھ کو ترک کر کے کچھ سے اجتمای نتائج ممکن نہی ہیں
اس زمانے میں بھی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ دفاع پے خرچ کیا جاتا تھا جب کے آج ک دور میں ١٢ فیصد خرچ کرنے پے بھی ہمارے دوست احباب اپنے دوستوں کے اکسانے پی شور ڈالتے ہیں
(جاری ہے)
اسلام کا مطالعہ مزید مطالہ کی دعوت دیتا ہے جس کو اکثر افراد ٹھکرا کے حتمی رہے قائم کرنے کی غلطی کرتے ہیں. میں لگزمبرگ جیسے ممالک میں(جہاں کوئی بھوکا نہی سوتا جہاں کوئی غریب نہی ہے جہاں پر جرائم کی شرح بہت کم اور انصاف کا بول بلا ہے ) گھومتے اکثر شکوہ کرتا ہوں کے دین ایے فطرت اور بہترین نظام حکومت اور معاشرتی انصاف کے دنیا کے کامیاب ترین مذهب میں ہی سب سے زیادہ طبقاتی تفریق اور بےانصافی ظلم اور جبر کے نظام کیوں رائج ہیں .
سوالوں پی اگر پابندی ہو تو تو سوچ گہری ہو جاتی ہے آج کل کے بناوٹی علماء کے پاس واحد ہتیار ان کی لفاظی اور گفتاری ہے میرے اس سوال کا بھی مختلف جیّد حضرت نے خوبصورتی سے جواب دے لیکن وہ مسلے ک حل کی طرف نشاندہی نہی کرتے تھے .
پھر حال ہے میں ایک صاحب اعتبار نے خوبصورتی سے وضاحت کی کے دور ایے حاضر میں اسلامی بنکاری کا نظام جس قدر خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بل کے بہت سے دیگر اسلامی ممالک میں جیّد علماء کو ماہانہ معاوضہ ادا کر کے اسلامی سرٹیفکیشن ک اعزاز کے ساتھ چلایا جا یا جا رہا ہے .جس پی علماء کا موقف یہ ہوتا ہے کے اسلام کو عصری تقاضوں کے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کو علماء وقت نے ہی پوری کرنی ہے عجیب یا محض اتفاق ہے کے انہی علماء میں سے اکثر علماء تصویر کو حرام کرار دے جانے کی جنگ میں ہراول دستہ بنے ہوے ہیں.
اسی تیرہ سے حال ہے میں حضرت عمرکے اس فرات کے کتے کا مذاق انہی حاکمین وقت نے اڑایاجو حضرت عمر کی حرمت کے دفاع ک دعویدار ہیں. اس مثال سے بھی یہ وضاحت ہوتی ہے کے اصول قائدے صرف ذاتی استمعال کے لئے ہیں
سعودی عرب میں اسلام اور مذهب قرآن سے زیادہ سعودی حکمران ہیں جنھیں قلی دینے کی باقائدہ سزا موت ہے. ان سب باتوں سے لگتا یہ ہے ک آج تک شائد اسلامی اقتصادی نظام کہیں پی رائج ہو ہی نہی سکا جب کے مختلف نظاموں کو اسلامی نظاموں کی مہر لگا ک پیش کیا جایا جاتا رہا ہے
اسلامی نظام میں اگر ہم نظر ڈالیں جو کے دور ایے نبی () تک غیر متنازع رہا ہے اس کے ہر ایک پہلو کو اپنانا ہوگا کچھ کو ترک کر کے کچھ سے اجتمای نتائج ممکن نہی ہیں
اس زمانے میں بھی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ دفاع پے خرچ کیا جاتا تھا جب کے آج ک دور میں ١٢ فیصد خرچ کرنے پے بھی ہمارے دوست احباب اپنے دوستوں کے اکسانے پی شور ڈالتے ہیں
(جاری ہے)
Last edited by a moderator: