اللہ کا بندہ
MPA (400+ posts)
اگر ہم ایک لمحے کے لئے نواز شریف کی منطق تسلیم کر لیں کہ دبئی اور قطر میں قرض کا حصول اور سرمایہ کاری بینک کے ذریعے نہیں ہوئی تھی بلکہ معاملہ باہمی افہام و تفہیم سے ہوا تھا تو بھی لین دین کے لئے قرآن کی واضح ھدایات اور قانونِ ٔ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ میں بیان ہوئی ہیں۔
۔(ترجمہ) اے ایمان والو، جب تم کسی معین مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور اس کو لکھے تمہارے مابین کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ۔ اور جسے لکھنا آتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ جس طرح اللہ نے اس کو سکھایا اس طرح وہ دوسروں کے لیے لکھنے کے کام آئے اور یہ دستاویز لکھوائے وہ جس پر حق عاید ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ سے، جو اس کا رب ہے، ڈرے اورا س میں کوئی کمی نہ کرے۔ اور اگر وہ، جس پر حق عاید ہوتا ہے، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اس پر اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ ٹھہرا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی۔ یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں۔ دو عورتیں اس لیے کہ ایک بھول جائے گی تو دوسری یاد دلا دے گی۔ اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں۔ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت تک کے لیے اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتو۔ یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین عدل، گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور اس امر کے زیادہ قرین قیاس ہیں کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ ہاں اگر معاملہ دست بدست لین دین اور دست گرداں نوعیت کا ہو تب اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور تم کوئی معاملہ خرید و فروخت کا کرو تو اس صورت میں بھی گواہ بنا لیا کرو۔ اور کاتب یا گواہ کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہاری بڑی پائدار نافرمانی ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
اس آیت سے یہ واضح ہے کہ
لین دین کے معاملات میں دستاویز لکھنا ضروری ہے۔
دستاویز پر دو عادل گواہوں کے دستخط ہونا بھی ضروری ہیں ورنہ وہ دستاویز کوئی قانونی اہمیت نہیں رکھتی
دستاویز لین دین کرنے والوں کے درمیان گواہوں کی موجودگی میں لکھی جائے گی۔
ان ہدایات سے یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص اس لین دین کے ایک مدت گذرنے کے بعد سن سنائی باتوں پر یہ دستاویز لکھے کہ ماضی میں ایسا لین دین ہوا تھا تو اس کی اہمیت دو کوڑی کی بھی نہیں، کیونکہ قرآن دستاویز کے ساتھ دو موقعے کے گواہ ضروری قرار دیتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عدالت قطری خط کو اسلام کے قانونِ شہادت پر پورا نہ اترنے کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتی؟
۔(ترجمہ) اے ایمان والو، جب تم کسی معین مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور اس کو لکھے تمہارے مابین کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ۔ اور جسے لکھنا آتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ جس طرح اللہ نے اس کو سکھایا اس طرح وہ دوسروں کے لیے لکھنے کے کام آئے اور یہ دستاویز لکھوائے وہ جس پر حق عاید ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ سے، جو اس کا رب ہے، ڈرے اورا س میں کوئی کمی نہ کرے۔ اور اگر وہ، جس پر حق عاید ہوتا ہے، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اس پر اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ ٹھہرا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی۔ یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں۔ دو عورتیں اس لیے کہ ایک بھول جائے گی تو دوسری یاد دلا دے گی۔ اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں۔ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت تک کے لیے اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتو۔ یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین عدل، گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور اس امر کے زیادہ قرین قیاس ہیں کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ ہاں اگر معاملہ دست بدست لین دین اور دست گرداں نوعیت کا ہو تب اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور تم کوئی معاملہ خرید و فروخت کا کرو تو اس صورت میں بھی گواہ بنا لیا کرو۔ اور کاتب یا گواہ کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہاری بڑی پائدار نافرمانی ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
اس آیت سے یہ واضح ہے کہ
لین دین کے معاملات میں دستاویز لکھنا ضروری ہے۔
دستاویز پر دو عادل گواہوں کے دستخط ہونا بھی ضروری ہیں ورنہ وہ دستاویز کوئی قانونی اہمیت نہیں رکھتی
دستاویز لین دین کرنے والوں کے درمیان گواہوں کی موجودگی میں لکھی جائے گی۔
ان ہدایات سے یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص اس لین دین کے ایک مدت گذرنے کے بعد سن سنائی باتوں پر یہ دستاویز لکھے کہ ماضی میں ایسا لین دین ہوا تھا تو اس کی اہمیت دو کوڑی کی بھی نہیں، کیونکہ قرآن دستاویز کے ساتھ دو موقعے کے گواہ ضروری قرار دیتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عدالت قطری خط کو اسلام کے قانونِ شہادت پر پورا نہ اترنے کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتی؟
Last edited: