Amal
Chief Minister (5k+ posts)
اسلام میں بیوی کے حقوق
اسلام سے قبل کی قوموں نے یہ حقیقت نظر انداز کر دی تھی کہ مرد اور عورت دونوں آدمؑ کی اولاد اور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان کا ازدواجی تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔
ایسے حالات میں رحمت اللعالمین ﷺ عالم نسواں کا مقدر سنوارنے کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ۔ ان کے لیے دور رس اصلاحات کیں اور دنیا کو درس دیا کہ کس طرح مصروفیات کے باوجود ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنایا جا سکتا ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عورت کا درجہ بہت پست تھا ۔ اس کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں مردوں کی محکوم اوردست نگر تھی ، اسلام پہلا مذہب ہے ، جس نے عورتوں کا درجہ بلند کیا ۔ ان کی مستقل حیثیت قائم کی، ان کے حقوق متعین کیے، وراثت میں حصہ دار بنایا ، ان کی املاک کا ان کو مالک بنایا ، چند کے سوا انہیں بیش تر امور میں مردوں کے برابر حقوق دیے ، ان کی پرورش کو اجر و ثواب قرار دیا، بیوی اور شوہر میں حقوق کی مساوات قائم کی ۔ بیوی کو شوہر کی رفیق زندگی بنایا۔ ماؤں کے قدموں تلے جنت رکھی، غرض یہ کہ اسلام نے ہر پہلو سے عورت کا درجہ بلند رکھا۔
اسلام میں احترام نسوانیت
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی معاشرتی تعلیمات کا بنیادی عنصر عورتوں کا احترام تھا ۔ آپ ﷺ نے عین شباب میں ڈھلتی ہوئی عمر کی بیوہ خاتون سے شادی کی، جو تاریخ میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد آنحضرت ﷺ کا معمول تھا ،کہ جب کوئی جانور ذبح کرتے تو مرحومہ کی ہم نشیں عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے ہاں گوشت بھجواتے تھے ۔ حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کو اُم المومنین کہنا ہی ثابت کرتا ہے کہ عورت کے رشتہ کو کس قدر تقدس دیا گیا ہے ۔
عورتوں کے مردوں پر حقوق
اسلام کا عورت کو دوسرا عطیہ مساوات ہے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت استثنائی صورت فراہم کرتی ہے۔ ترجمہ: مرد عورتوں پر محافظ و نگراں ہیں ، اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ وہ اپنے اموال میں سے ( عورتوںکی ضرورت و آرام کے لیے) خرچ کرتے ہیں۔
عربی زبان میں، کسی چیز کی ضروریات کو مہیا کرنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اور اس کی اصلاح کے ذمہ دار کو قوام کہا جاتا ہے، جیسے ہر فوج کا ایک کمانڈر اور ہر مملکت کا ایک فرماں روا ہونا ضروری ہے، جو نظام قائم رکھے اور فوج اور رعایا اس کے حکم پر عمل کرے ۔ اسی طرح گھر کی ریاست کا بھی ایک حاکم اعلیٰ ہونا چاہیے ، جو گھر کی ضروریات کا کفیل اور اس کی خوشحالی کا ذمہ دار ہو اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے، ورنہ گھر کی اس چھوٹی سی مگر اہم ریاست کا سکون و اطمینان برباد ہو کر رہ جائے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کو سونپی جائے ، اور اس بار گراں کو اٹھانے کی صلاحیت کس میں موجود ہے، اس کے دو ہی امیدوار ہیں شوہر اور بیوی ۔
قرآن حکیم نے شوہر کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی وجہ بھی بتادی ہے کہ اس میں دو خوبیاں ہیں۔ پہلی خوبی تو یہ کہ مرد اپنی جسمانی قوت ، معاملہ فہمی اور دور اندیشی میں بلاشبہ عورت سے بڑھا ہوا ہے ۔ اور مرد کی دوسری خوبی یہ ہے ،کہ بیوی بچوں کے جملہ اخراجات اور ان کے آرام و حفاظت کی تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہے ۔ اس لیے اپنی فطری و کسبی برتری کے باعث مرد ہی اس امر کا مستحق ہے کہ وہ گھر کی ریاست کا امیر ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت کے گلے میں مرد کی غلامی کا طوق ڈالا جا رہا ہے ۔ ان انتظامی امور کے علاوہ عورت کے اپنے حقوق ہیں جو مرد پر ایسے ہی واجب ہیں، جیسے مرد کے حقوق عورت کے ذمہ واجب ہیں جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ، اور ان کے بھی حقوق ہیں (مردوں پر) جیسے مردوں کے ان پر حقوق ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت کو جو مقام اسلام نے بخشا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ﷲ کی نگاہ میں عمل کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ( ترجمہ) مردوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ ہے .
اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی، بہت سے حقوق عطا کیے ہیں ۔ جن میں سے چند یہ ہیں
زہنی آسودگی کا اہتمام
احسن معاشرت
تفریح و دل بستگی کے جائز مواقع فراہم کرنا
معاشی تحفظ
ازدواجی معاملات میں عدل و توازن
زہنی آسودگی کا اہتمام
نکاح ، میاں بیوی کے درمیان عہد ہوتا ہے کہ وہ احکام الٰہی کے تحت خوش گوار ازدواجی تعلق رکھیں گے۔ قرآن پاک میں مردوں کو اس طرح اس معاہدہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے ۔ ترجمہ: وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ مردوں کو مزید اس طرح بھی تاکید کی گئی ہے ۔ ترجمہ: اور (عورتوں کے ساتھ) اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔
اس ضمن میں محسن انسانیت حضور اکرم ﷺ کے ارشادات قابل غور ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں کامل ایمان والا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں ، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے ، جس کا سلوک اپنی اہلیہ کے ساتھ سب سے اچھا ہو ۔
یہ شوہر کی زمہ داری ہے کے وہ گھر میں سکون رکھے ۔ عدل سے کام لے ۔ ماں ، بیوی بہن اور بیٹی کے حقوق ادا کرے اور تمام رشتوں سے ادا کروائے ۔ آپس میں سب رشتوں کو عدل اور سچ کے ساتھ ایک دوسرے کے احترام کا پابند کرے
احسن معاشرت
ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا
ترجمہ: اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے زندگی بسر کرو پس ، اگر وہ تمہیں (کسی سبب) ناپسند ہوں ، تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو ، مگر خدا نے تمہارے لیے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
اس ضمن میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان شوہر اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے ۔ اگر کوئی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادتیں پسندیدہ ہوں گی مثلاً اگر عورت خوبصورت نہیں یا اس میں کوئی اور خامی ہے ، تو اس وجہ سے قطع تعلق نہ کرے ، یا ہوسکتا ہے بیوی جھگڑالو یا بدصورت ہے تو ممکن ہے وہ اولاد ایسی دے ، جو اس شخص کی عزت میں اضافے کا سبب بنے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شوہر بلاوجہ بیوی کو طلاق نہ دے اور آپؐ کا ارشاد ہے ،ناپسندیدہ ترین جائز کام اﷲ کے نزدیک طلاق ہے۔
بیوی کے ساتھ رسول اﷲﷺ کے لطف و مدارات کا اندازہ آپ کی گھریلو زندگی کے واقعات سے ہوتا ہے ۔ آپ کا معمول تھا کہ ہر روز تمام ازواج مطہرات کے گھروں میں، جو قریب قریب تھے ، تشریف لے جاتے ۔ ہر ایک کے پاس کچھ دیر قیام فرماتے ، جب اس بیوی کا گھر آجاتا ، جن کے ہاں قیام کی باری ہوتی تو رات کو وہیں قیام فرماتے ۔ آپ ﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا آپ ﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں ۔ آپ ﷺ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی ۔ ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
تفریح و دل بستگی
ازواجی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے اور خانگی زندگی پُرمسرت بنانے کے لیے یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ شوہر بیوی کے لیے تفریح کا مناسب سامان بھی فراہم کرے ، احادیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ دوڑ لگائی تو ایک بار حضرت عائشہ ؓ رسول اﷲ ﷺ سے آگے نکل گئیں اور دوسری بار حضور رسالت مآب ﷺ حضرت عائشہ ؓ سے دوڑ میں آگے نکل گئے۔ حضور اکرم ﷺ نے عید کے موقع پر گھر کی دیوار کی اوٹ سے حضرت عائشہؓ کو صحابہ کرام کی جنگی ورزش کا منظر بھی دکھایا ۔
سرور کائنات ﷺ اپنی ازواج کی دل جوئی کے علاوہ ان کے ساتھ گھریلو کام کاج میں تعاون بھی فرماتے تھے ۔ اپنی پوشاک خود دھوتے، پیوند لگانا ہوتا تو اپنے دست مبارک سے کپڑے میں خود پیوند لگالیا کرتے تھے۔ بکری کا دودھ دوہتے تھے ، اپنی اونٹنی کو خود باندھتے تھے، ایک ہی برتن میں خادم کے ساتھ کھانا کھانے میں کبھی تکلف نہ فرماتے تھے ۔ اپنے گھر کی ضرورت پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے ۔ اگرچہ خود کتنی ہی تکلیف برداشت کرنا پڑے ۔ یہ ہے حضور محسن انسانیت ﷺ کی زندگی کا عملی نقشہ و نمونہ۔
معاشی تحفظ
گھر کا کام چلانے کے لیے سرمایہ کا بندوبست کرنا بھی مرد کی ذمہ داری ہے ۔ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خوش اسلوبی سے گھر کا بندوبست کرے ۔ اس سلسلے میں ایک بہت جامع حدیث ہے، حضور ُپرنور ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نسبت بازپرس ہوگی، مرد اپنی بیوی کا رکھوالا ہے اور اس سے اس کے متعلق احتساب ہوگا اور بیوی اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اس سے اس کے متعلق احتساب ہوگا۔
مرد کے فرائض نگہ بانی کی ایک اہم مشق یہ ہے کہ وہ کارزار حیات میں تگ ودو کرکے اپنے اہل و عیال کے لیے حلال روزی مہیا کرے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔
ایک صحابی نے حضور انور ﷺ سے دریافت کیا ، یا رسول اﷲ کسی شخص کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا اس کا حق یہ ہے کہ جب تو کھائے تو اسے کھلائے اور جب تو پہنے تو اسے پہنائے ، اس کے چہرے پر نہ مارے ، اس کے لیے بددعا کے الفاظ نہ نکالے اور اگر اس سے ترک تعلق کرے تو صرف گھر میں کرے۔
عدل و مساوات
عدل ، انسان کا بنیادی تقاضہ ہے ۔ اسے ازدواجی تعلقات میں جاری رکھنا چاہیے ۔ عورت کا حق یہ ہے کہ مرد اس کے ساتھ مکمل مساوات رکھے، یہاں تک کہ خوردونوش اور طعام و لباس کے معاملات میں بھی، خاوند کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ تمام امور معاشرت میں عدل و مساوات جاری رکھے۔
