
اسلام آباد میں صحافیوں پر تشدد کے معاملے پر صحافی ثاقب بشیر نے کہا صحافیوں پر سر عام تشدد پر آئی جی اسلام آباد 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود مقدمہ درج کرنے سے انکاری کیوں ہیں ؟ دوسری طرف آئی جی صاحب وزیر داخلہ کو بتا رہے ہیں ہمارے معاملات طے پا گئے یہ جھوٹ کیوں بول اور پھیلا رہے ہیں ؟ ہمارا مطالبہ مقدمہ درج کرانا ہے وہ کرائیں گے
اسلام آباد پولیس نے جواب دیا محترم اس معاملے پر انکوائری کی جارہی ہے، آپ سے گزارش ہے کہ کارروائی میں شامل ہو کر اپنا موقف پیش کریں، تاکہ میرٹ پر کارروائی عمل میں لاکر انکوائری تکمیل تک پہنچائی جا سکے۔
سوشل میڈیا صارفین اور صحافی بھی میدان میں آگئے،حامد میر نے لکھا جناب آپ انکوائری نہیں کر رہے آپ اپنے قانون شکن ساتھیوں کو بچا رہے ہیں ثاقب بشیر کی تحریری درخواست تھانہ رمنا میں موجود ہے اور وہی انکا مؤقف ہے آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ آپ نے زیادتی کی لیکن آپ وزیرِداخلہ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
فیض محمود نے لکھا تشدد ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔۔ اور تشدد کون کررہے یہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ پھر مقدمہ نہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ مقدمہ درج کریں پھر تفتیش کریں۔
اویس یوسفزئی نے کہا فوٹیج میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس صحافی کو بری طرح پیٹ رہی ہے۔ اس پر کیا موقف چاہیے اب پولیس کو؟
سہیل راشد نے لکھا محترم پولیس ایسے ہی ٹوئٹر پر بتا دیں ایف آئی آر اندراج کی درخواست کل سے آپ کے پاس ہے ابھی تک اس پر کیا کارروائی ہوئی؟ کیا ایف آئی آر کی درخواست میں مکمل موقف درج نہیں ہے؟ کیا ابھی تک سی سی ٹی وی فوٹیج سے آپ نے اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی یا نہیں؟
اسماعیل الدین نے لکھا محترم، آپ کا کام سب سے پہلے ایف آئی آر درج کرنا ہے جو پولیس اہلکار اور افسر شامل ہیں ان کے نام ڈالنے ہیں اس کے بعد تفتیش اور تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ قانون سے اس حد تک بے خبری؟ عجیب ہے۔
محمد فیض خان نے لکھا تشدد کرنے یا مارنے سے پہلے آپ نے انکوائری کی تھی کہ کس کو اور کیوں مار رہے ہیں۔ ویسے بھی مارنے والے خود کیسے انکوائری کر سکتے ہیں اور انکوائری ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ پہلے ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے
زبیر علی خان نے کہا وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر ؟ ہمیں معلوم ہے کہ کس کے کہنے پر صحافیوں پر تشدد ہوا، وہاں مقدمہ درج کرواتے ہوئے تو پر جلتے ہیں بس پولیس اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کے کیے انکوائریوں کی ضرورت نہیں۔
محسن خان نے کہا پتا نہیں کون جاہل اس ٹویٹر ہینڈل کو آپریٹ کرتا ہے، اس گدھے کو اتنا نہیں پتا کہ سب سے پہلے مقدمہ درج ہوتا ہے پھر تفشیش ہوتی ہے، اور وہ کونسی انکوائری ہے جو ختم نہیں ہو رہی، صحافیوں پر بلاوجہ تشدد ہوا جو پوری دنیا نے دیکھا بس آپکی آنکھوں پر بغیرتی کی پٹی بندھی ہے۔