اسلامی علوم کی تدوین

انجام

MPA (400+ posts)
کچھ عرصہ ہوا اس فورم پر ممبران کی پوسٹیں دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ کچھ غلط فہمیوں اور احساس کمتری کا شکار ہیں۔ یا غلط معلومات کے سبب ذہنی / دماغی انتشار کا شکار ہیں۔ انکی یہ غلط فہمیاں کئی طرح کی ہیں۔ کچھ لوگ علوم اسلامیہ کی تاریخ و تدوین سے لا تعلق ہیں اور غیر مسلم فلسفیوں کے الزامات سے پریشان ہوکر کئی طرح کی اہم علمی و ایمانی ابحاث کو رد کر دیتے ہیں۔

کئی نوجوان علم دین سے دوری کے باعث ان کی ان بحثوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ تو کئی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مناسب سمجھا کہ یہاں
بنیادی اسلامی علوم کی تدوین کی مختصر تاریخ درج کر دی جائے۔

تمام اہل علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اسلام کے اعلان و ترویج سے قبل عرب کا خطہ لکھائی پڑھائی سے محروم تھا۔ ہزاروں کی آبادی میں گنتی کے چند افراد لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اہل عرب اس دور میں کسی بھی مہذب معاشرے میں شمار نہ ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے نزول وحی کے آغاز کے بعد اسلام کا اعلان فرمایا۔ ابتدائی 13 سال تک انتہائی شدید مخالفت کے عالم میں صرف زبانی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا۔ صحابہ کرام جو کچھ سنتے وہ یاد کر لیتے۔ اپنے حافظے میں رقم کر لیتے۔ عربوں کے حافظے نہایت قوی تھے۔ مگر ساتھ ہی جو صحابہ کرام لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قرآنی آیات لکھتے بھی تھے۔
مگر پڑھائی لکھائی کا باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ 13 سن نبوی ﷺ میں ہجرت کے بعد حالات معمول پر آئے۔ میثاق مدینہ اور مواخات مدینہ کے بعد مسجد نبوی ﷺکی تعمیر بھی ہو چکی تو مسلمان کچھ سکون میں آئے۔ ان حالات میں تعلیم کا انتظام شروع ہوا۔

تقریبا سواسال گزرنے کے بعد غزوہ بدر وہ تاریخی واقعہ ہے جب مسلمانوں پر کفار نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔یہ وہ موقع تھا جب نبی رحمت ﷺ نے مسلمانوں کو مزید رغبت سے تعلیم پر مائل کرنے کے لئے کفار قیدیوں کو فدیے میں مسلمانوں کی تعلیم کاحکم دیا۔
اس کے بعد مسجد نبوی ﷺ میں ایک چبوترہ تھا جسے دنیا میں صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نامساعد مالی حالات میں صحابہ کرام کی کثیر جماعت اس چبوترے پر تعلیم حاصل کرتی۔ کتب میں وارد روایات کے مطابق مختلف اوقات میں 1000 یا اس سے زائد صحابہ تک بھی طلب علم کے لئے بیک وقت جمع ہوتے۔
چونکہ وہ خطہ نہ تو علمی ثقافت کا مرکز تھا۔ نہ ہی عرب بہت زیادہ متمدن تھے، اور اسلامی تعلیم بھی سادہ تھی۔ نزول قرآن بھی انکے سامنے ہورہا تھا۔ اللہ کا نبی ﷺ خود انمیں موجود تھا۔ انہیں کچھ زیادہ دشواری نہ تھی۔ جو کچھ پوچھنا ہوتا وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کر لیتے۔

حضور اکرم ﷺ کا زمانہ اسلام کا سب سے پہلا زمانہ تھا۔ اس دور کے معروضی حالات میں جب ابھی وحی کا نزول ہو رہا تھا، اور بیک وقت دشمن سے صف آرائی بھی ہوتی تھی۔ مختلف علوم میں تدوین کی نہ ضرورت بھی نہ ہی ممکن تھا۔ لہذا معروضی حالات کے مطابق ہی تعلیم اسلام ہوئی۔

بعد ازاں اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام کی سرحدیں شرق تا غرب پھیلنے لگیں۔ ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق اصلاحات ہوئیں۔ نئے شعبے قائم ہوئے۔ منتشر چیزوں کو جمع کیا گیا۔

امن کے ادوار میں صحابہ کرام کے تدریس کے مراکز قائم ہوئے۔ نامور علماء صحابہ کرام مین حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی المرتضی ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک اور امہات المؤمنین میں سیدہ عائشہ سرفہرست ہیں۔ سیدہ عائشہ صرف گھر میں لوگوں کے پوچھنے پر مسائل بتاتی تھیں۔
مذکورہ چند ناموں کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد ازاں صحابہ کرام سے انکے شاگردوں نے علم حاصل کیا۔ تابعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان تابعین میں کثیر تعداد نے اپنے ذوق کے مطابق علم کے مراکز قائم کئے۔ کسی کو احادیث رسول سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے احادیث سیکھیں۔ کسی کو حفظ و تفسیر سے دلچسپی، تو کسی کو تزکیہ میں رغبت،۔ کوئی الفاظ و لغات میں ماہر ہوا تو کسی نے علم درایت/ یعنی تحقیق اور اخذ مسائل میں مہارت حاصل کی۔

تابعین کے ادوار میں علوم جمع ہونا شروع ہوئے۔ انکی تدوین شروع ہوئی۔ انمین بڑے معروف ناموں میں سعید بن مسیب ، حماد اور اخیر دور کے تابعین میں امام اعظم ابوحنیفہ رضوان اللہ شامل ہیں۔ تحقیق علم پر ابتدائی دور میں سب سے اہم کارنامہ امام اعطم نے انجام دیا ۔ انہوں نے اپنے انتہائی قابل شاگردوں پر مشتمل ماہرین کا ایسا گروہ تشکیل دیا جو مختلف علوم پر مہارت رکھتے تھے۔ پیش آمدہ مسائل اس ماہرین کے پینل کے سامنے بیان ہوتے۔ ان مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں ماہرین رائے پیش کرتے اس طرح مختلف مسائل جمع ہوتے اور جواب آتے۔

تابعین میں ہی نہایت اہم افراد میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، زید اور باقر کے صاحبزادے جعفر الصادق اور
حسن بصری بھی تھے۔ ان ہستیوں نے امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں زہد ، تزکیہ، احسان وتصوف کی تعلیم دی۔

جیسا کہ اوپر ذکرہواتابعین نے بھی اپنے بہت بڑے علمی مراکز یعنی دروس قائم کئے۔ وہان سے لوگ علم دین سیکھتے تھے۔ تابعین کے شاگرد تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ امام مالک اور امام اعظم ہم زمانہ ہیں۔ مگر عمر میں امام اعظم امام مالک سے بڑے ہیں۔ شائد امام مالک تبع تابعین میں شامل ہیں۔

اس دور میں بھی بڑے کثیر علماء موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دئے۔ علوم اسلامیہ میں فقہ کے دوسرے بڑے امام ، امام مالک بن انس ہیں ۔ یہ امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے استاد ہیں۔ جبکہ امام شافعی امام محمد بن حسن کے بھی شاگرد ہیں۔کہا جاتا ہے جس دن امام اعظم کا وصال ہوا اس دن امام شافعی پیدا ہوئے۔ آپ دیگر بہت لوگوں کے ساتھ فقہ کے چوتھے معروف امام احمد بن حنبل کے استاد بھی ہیں۔

کتب احادیث میں امام اعظم کے مسانید مذکور ہیں۔ جبکہ امام مالک کے مجموعہ احادیث و آثار کو مؤطا امام مالک اور دوسرے کانام مؤطا امام محمد ہے۔ در اصل یہ مجموعہ آپ کے شاگردوں نے روایت کیا۔ کئی نسخے تھے جنمیں سے یہ 2 زیادہ معروف ہیں۔ امام شافعی نے الگ ذخیرہ حدیث جمع نہیں فرمایا۔ جبکہ امام احمد بن حنبل نے بہت بڑاذخیرہ حدیث مسند احمد بن حنبل کے نام سے جمع فرمایا جو 18 سے 40 جلدوں تک میں شائع ہورہا ہے۔

اس دور میں 2 بڑے علمی گروہ مشہور تھے۔ ایک کو اصحاب الرائے کہتے تھے۔ ایک کو اصحاب الحدیث۔
اصحاب الرائے دراصل درایت سے احکام اخذ کرتے تھے۔ جبکہ اصحاب الحدیث ظاہر الفاط سے حکم اخذ کرتے تھے۔

یہ وہ دور تھا جسمیں احادیث کے کئی زخیرے جمع ہوئے۔ انمیں سے 2 کا ذکر کر چکا۔ جبکہ امام عبدالرزاق جو امام اعظم کے ہی شاگرد تھے کا بہت بڑا ذخیرہ مصنف عبد الرزاق کے نام سے معروف ہے۔یہ تقریبا6 سے 10 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ امام بخاری کے استاد امام ابن ابو شیبہ کا مجموعہ مصنف بھی معروف ہے۔
یہاں تک مذکور کتب حدیث صرف پہلے 3 ادوار میں یعنی صحابہ تا تابعین مذکور ہیں۔ اگرچہ اختلافات اور فرقہ واریت اس دور میں بھی تھی مگر پہلے ادوار میں پہچان ذرا آسان تھی۔ پہلے دور کے اختتام پر تقریبا 200 سال گزر گئے۔ اس کے اختتام پر امام احمد اور ابن ابو شیبہ کے شاگرد امام بخاری نے بھی دیگر لوگوں کی طرح احادیث جمع کیں۔ انکے علاوہ بھی کئی علماء نے علم حدیث میں خدمات سرانجام دیں مگر امام بخاری و مسلم کو تدوین حدیث میں نمایان نام ملا۔ پھر یہ سلسلہ مزید وسیع ہوا۔

ایک مرتبہ پھر فقہی تدوین پر بات کرتے ہیں۔
جیساکہ سبھی لوگوں کے علم میں ہے کہ عوام الناس قرآن و سنت براہ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ گھر سے اٹھ کر مسجد کے امام سے پوچھ کر عمل کر لیتے ہیں۔ مگر علماء امت نے دین کو نہایت تندہی سے سیکھ کر امت کے لئے آسان انداز میں اسلامی تعلیمات کو مدون کر کے پیش کیا۔
پہلے ادوار میں جو بھی علم دین حاصل کرتا الگ مدرسہ / کالج کھول کر تعلیم دینا شروع کر دیتا۔ اجتہاد کے لئے کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ اختلافات کی شدت کو دیکھتے ہوئے امت نے مسلسل اجتہاد کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچی کہ اجتہاد کے کچھ حدود متعین کر دی جائیں تاکہ بے لگام معاشرے میں دین اسلام مذاق ہی نہ بن کر رہ جائے۔

کئی صدیوں میں علماء کے رجحانات کو دیکھ کر انکو 4 بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس طرح فقہ اربعہ قائم ہوئی۔
پہلی 2 صدیوں میں علوام اسلامیہ کا فقہ وسنت/ حدیث پر جتنا زیادہ کام ہوا وہ دیگر شعبوں میں نہیں ہوا۔

میں سمجھتا ہوں کہ 8 سے 10 صدیوں پہلےمجتہدین نے 4 فقہاء پر اکتفا کر کے امت کے لئے نہایت آسانی کا سامان مہیا کیا۔وگرنہ ہر خطے میں لوگ صرف طریقہ نماز پر کفر کے فتوے لگا لگا کر قتل عام کے بازار گرم رکھتے۔
 
Last edited by a moderator:

انجام

MPA (400+ posts)
بہت زیادہ طول ، تمہید ، اور حوالہ جات سے بچتے ہوئے مختصر احوال بیان کیا۔ اگر کوئی دوست کسی چیز کی نشاندہی کرنا چاہے تو انکا شکریہ۔ کمی بیشی پر پیشی معذرت خواہ ہوں۔
کہیں غلطی محسوس کریں یا سمجھنے میں دشواری یا تفصیل کی ضرورت ہو تو مطلع فرمائیں۔
 

Liberal 000

Chief Minister (5k+ posts)
[FONT=&amp]میں سمجھتا ہوں کہ 8 سے 10 صدیوں پہلےمجتہدین نے[/FONT]
[FONT=&amp] 4 فقہاء پر اکتفا[/FONT]​
[FONT=&amp] کر کے امت کے لئے نہایت آسانی کا سامان مہیا کیا۔وگرنہ ہر خطے میں لوگ صرف طریقہ نماز پر کفر کے فتوے لگا لگا کر قتل عام کے بازار گرم رکھتے[/FONT]


What about Shias and their Hadith books?


[FONT=&amp]امام احمد اور ابن ابو شیبہ کے شاگرد امام بخاری نے بھی دیگر لوگوں کی طرح احادیث جمع کیں۔ انکے علاوہ بھی کئی علماء نے علم حدیث میں خدمات سرانجام دیں مگر امام بخاری و مسلم کو تدوین حدیث میں نمایان نام ملا۔ پھر یہ سلسلہ مزید وسیع ہوا۔ [/FONT]

They collected 3 lac Hadiths and selected few thousands out of 3 lakh

What is the guarantee that they selected the true ones?

What is the guarantee that they were not like the Mullahs of our time?

May be they selected all the concocted ones and rejected all the true Hadiths


The title for your thread may be " Islami Aloom ki Tadfeen "



Note

You wrote an excellent thread post according to mainstream Sunni view
plz do not mind I am entitled to have my own views
 
Last edited:

oscar

Minister (2k+ posts)
سُنی اسلام میں خیر القرون، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ثقاہت اور کذب جیسی بنیادی اصلاحات جن پر ان علوم کی ساری عمارت کھڑی ہے، خود اس قدر لولی لنگڑی ہیں کہ ان پر ایمان لانے کے لئے کھوپڑی کا بھوسے سے بھرا ہونا ضروری ہے۔


اس سے پیشتر کہ آپ اپنے واحد ہتھیار یعنی رفض کا طعنہ مار کر بھاگ نکلیں، اتنا کہہ دوں کہ میں خود شیعوں کو افراط و تفریط سے مبرا نہیں سمجھتا، لیکن اس تھریڈ میں انکے مسلمان ہونے پر ہی بحث پھنس جائے گی، اس لئے فی الحال سواد اعظم کا ذکر ہی کافی ہے۔ پھر بھی تفصیل سے بات کرنا چاھیں تو بندہ حاضر ہے




 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
What about Shias and their Hadith books?




They collected 3 lac Hadiths and selected few thousands out of 3 lakh

What is the guarantee that they selected the true ones?

What is the guarantee that they were not like the Mullahs of our time?

May be they selected all the concocted ones and rejected all the true Hadiths


The title for your thread may be " Islami Aloom ki Tadfeen "



Note

You wrote an excellent thread post according to mainstream Sunni view
plz do not mind I am entitled to have my own views

شیعہ جہاں قرآن و سنت کے تابع ہونگے انکی بات قبول ہوگی ۔ وگرنہ نہیں۔ کیونکہ بنیادی چیز قرآن و سنت ہیں۔
رہی بات انکی کتب کی ۔ تو انکی تدوین حدیث کی باقاعدہ تاریخ مری نظر میں سوائے تیسری ، چوتھی صدی کے۔ جو کچھ انہوں نے خود لکھا ہے۔ اس سے قبل کی کوئی مستند کتاب انہون نے درج نہیں کی۔ نہ ہی اس جمع و تدوین کی تفصیل مجھے معلوم ہو سکی۔ جبکہ میری مذکورہ کتب اب بھی دنیا بھر میں دستیاب ہیں اور شائع ہوتی ہیں۔
[FONT=&quot]اہلسنت کی کتب میں بھی کئی شیعہ راویوں کی احادیث درج ہیں۔[/FONT]
نیز سابقہ پوسٹ میں صحابہ کرام کی کتابت حدیث بارے ذکر نہیں کر سکا۔ کئی صحابہ کرام نے جہاں احادیث مبارکہ حفظ کیں وہیں انکو تحریر کر کے محفوظ کرنے کا آغاز بھی کر دیا۔ اسی وجہ سے تابعین کے زمانے میں ہی علم کی ترقی دیکھ کر اور علوم کی ترتیب دیکھ کر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں ہی علم کافی ترقی کر چکا تھا۔
دورصحابہ میں کئی مجموعہ ہائے احادیث لکھے گئے۔ انمیں سے حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت ابوہریرہ کے مجموعے خاصے معروف ہیں۔ صحیفہ صادقہ کے نام سے ابوہریرہ کا نسخہ ماضی قریب میں ڈاکٹر حمیداللہ صآحب کی تحقیق سے شائع ہوا۔
مؤطا امام مالک ،مؤطا امام محمد ،مصنف عبدالرزاق،اور مصنف ابن ابو شیبہ کی ابواب بندی سے علم حدیث کی پہلے ادوار میں تدوین کا واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رہی بات آپ کا امام بخاری بارے سوال تو جناب کسی بھی صحابی ،تابعی یا امام حدیث نے تمام احادیث جمع کرنے اور درج کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ نیز لاکھ احادیث بھی محدثین کے ہاں اس کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک ہی بات 10 لوگوں سے سنی تو وہ اس کو 1 نہیں بلکہ 10 گنتے ہیں۔

جو کچھ انہوں نے لکھا اس کے اصول بھی بیان کئے۔ کہ جو کچھ میں نے جمع کیا ان اصولوں کے تحت جمع کیا۔ علم حدیث میں حدیث کو پرکھنے کے بھی اصول ہیں۔
متن کوپرکھنے کے الگ قوعد ہیں اور سند یعنی بیان کرنے والے راویوں کی لڑی کو جانچنے کے الگ قواعد۔
علماء و ائمہ نے کہیں بھی بخاری کی کتاب نہیں بلکہ سنت/ حدیث رسول ﷺ کو مآخذ دین بنایا ہے۔ لہذا حدیث رسول ﷺ جس بھی کتاب میں ہو وہ قبول کی جائے گی۔

رہی بات کہ انکے احادیث کو قبول یا رد کرنے میں کس بات کا زیادہ امکان ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ
اگر انکی تحقیق قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہوتی تو بہت پہلے ہی مسترد کر دی گئی ہوتی۔
نیز یہ بھی ہے کہ اسلام ہمیں صرف وہم وگمان اور شک پر کسی بات کو رد نہیں کیا جاتا۔

وگرنہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مغل کے نام سے لکھنے والا انسان ہے یا روبوٹ؟ اس باتکیا ثبوت ہے؟
ہر بات اٹکل پچو سے نہیں چلتی۔

 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
azeezam anjaam sb, this is going to be hopefully a good thread if you will explain things about the sources of islamic information as you know them. Others have right to differ but that should not dishearten you. Those who disagree with you should similarly start their own threads and expalin things the way they understand things from their sources. This should create a good learning atmosphere for everyone. By having main threads full of information then people can discuss things about which they disagree giving their own reasons. That is the way to learn things.

regards and all the best.
 

انجام

MPA (400+ posts)
سُنی اسلام میں خیر القرون، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ثقاہت اور کذب جیسی بنیادی اصلاحات جن پر ان علوم کی ساری عمارت کھڑی ہے، خود اس قدر لولی لنگڑی ہیں کہ ان پر ایمان لانے کے لئے کھوپڑی کا بھوسے سے بھرا ہونا ضروری ہے۔


اس سے پیشتر کہ آپ اپنے واحد ہتھیار یعنی رفض کا طعنہ مار کر بھاگ نکلیں، اتنا کہہ دوں کہ میں خود شیعوں کو افراط و تفریط سے مبرا نہیں سمجھتا، لیکن اس تھریڈ میں انکے مسلمان ہونے پر ہی بحث پھنس جائے گی، اس لئے فی الحال سواد اعظم کا ذکر ہی کافی ہے۔ پھر بھی تفصیل سے بات کرنا چاھیں تو بندہ حاضر ہے

لایعنی باتوں پر لغو بحث ہی فضول ہے۔ لہذا خیرالقرون اور دیگر اصطلاحات جو ذکر کی ہیں وہ مروجہ معنوں میں ہی قابل قبول ہیں۔
اگر آپ شیعہ ہیں یا نہیں اسکا تو معلوم نہین۔ مگر میرے نزدیک ہر شیعہ کافر نہیں۔ شیعہ میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار کرے۔
اگرآپ کسی بھی چیز پر تعصبات سے بالا بات کرنا چاہیں تو دلیل اور تمیز سے ضرور کھلی دعوت ہے۔

 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
شیعہ جہاں قرآن و سنت کے تابع ہونگے انکی بات قبول ہوگی ۔ وگرنہ نہیں۔ کیونکہ بنیادی چیز قرآن و سنت ہیں۔
رہی بات انکی کتب کی ۔ تو انکی تدوین حدیث کی باقاعدہ تاریخ مری نظر میں سوائے تیسری ، چوتھی صدی کے۔ جو کچھ انہوں نے خود لکھا ہے۔ اس سے قبل کی کوئی مستند کتاب انہون نے درج نہیں کی۔ نہ ہی اس جمع و تدوین کی تفصیل مجھے معلوم ہو سکی۔ جبکہ میری مذکورہ کتب اب بھی دنیا بھر میں دستیاب ہیں اور شائع ہوتی ہیں۔
[FONT=&amp]اہلسنت کی کتب میں بھی کئی شیعہ راویوں کی احادیث درج ہیں۔[/FONT]
نیز سابقہ پوسٹ میں صحابہ کرام کی کتابت حدیث بارے ذکر نہیں کر سکا۔ کئی صحابہ کرام نے جہاں احادیث مبارکہ حفظ کیں وہیں انکو تحریر کر کے محفوظ کرنے کا آغاز بھی کر دیا۔ اسی وجہ سے تابعین کے زمانے میں ہی علم کی ترقی دیکھ کر اور علوم کی ترتیب دیکھ کر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں ہی علم کافی ترقی کر چکا تھا۔
دورصحابہ میں کئی مجموعہ ہائے احادیث لکھے گئے۔ انمیں سے حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت ابوہریرہ کے مجموعے خاصے معروف ہیں۔ صحیفہ صادقہ کے نام سے ابوہریرہ کا نسخہ ماضی قریب میں ڈاکٹر حمیداللہ صآحب کی تحقیق سے شائع ہوا۔
مؤطا امام مالک ،مؤطا امام محمد ،مصنف عبدالرزاق،اور مصنف ابن ابو شیبہ کی ابواب بندی سے علم حدیث کی پہلے ادوار میں تدوین کا واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رہی بات آپ کا امام بخاری بارے سوال تو جناب کسی بھی صحابی ،تابعی یا امام حدیث نے تمام احادیث جمع کرنے اور درج کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ نیز لاکھ احادیث بھی محدثین کے ہاں اس کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک ہی بات 10 لوگوں سے سنی تو وہ اس کو 1 نہیں بلکہ 10 گنتے ہیں۔

جو کچھ انہوں نے لکھا اس کے اصول بھی بیان کئے۔ کہ جو کچھ میں نے جمع کیا ان اصولوں کے تحت جمع کیا۔ علم حدیث میں حدیث کو پرکھنے کے بھی اصول ہیں۔
متن کوپرکھنے کے الگ قوعد ہیں اور سند یعنی بیان کرنے والے راویوں کی لڑی کو جانچنے کے الگ قواعد۔
علماء و ائمہ نے کہیں بھی بخاری کی کتاب نہیں بلکہ سنت/ حدیث رسول ﷺ کو مآخذ دین بنایا ہے۔ لہذا حدیث رسول ﷺ جس بھی کتاب میں ہو وہ قبول کی جائے گی۔

رہی بات کہ انکے احادیث کو قبول یا رد کرنے میں کس بات کا زیادہ امکان ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ
اگر انکی تحقیق قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہوتی تو بہت پہلے ہی مسترد کر دی گئی ہوتی۔
نیز یہ بھی ہے کہ اسلام ہمیں صرف وہم وگمان اور شک پر کسی بات کو رد نہیں کیا جاتا۔

وگرنہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مغل کے نام سے لکھنے والا انسان ہے یا روبوٹ؟ اس باتکیا ثبوت ہے؟
ہر بات اٹکل پچو سے نہیں چلتی۔



azeezam anjaam sb, is baat ko yaad rakhen koi source of information be bekaar nahin hoti chahye woh sachi ho yaa jhooti. khud jhoot se bhi sach ka pata chal sakta hai. yahee wajah hai kisi bhi source of inforamtion ko bekaar samajh ker zaaya nahin karna chahiye kyunkeh woh kisi na kisi baat ka saboot hoti hai.

aik aur baat yaad rakhne ki yeh hai sources main mojood malumaat ko samajhne main ikhtilaaf mumkin hai. lihaaza jis ke paas munaasib tareeqa ho ga malumaat ko samajhne ka us ki baat maani jaaye gi na keh her aik ki.

regards and all the best.
 

khan_sultan

Banned

لایعنی باتوں پر لغو بحث ہی فضول ہے۔ لہذا خیرالقرون اور دیگر اصطلاحات جو ذکر کی ہیں وہ مروجہ معنوں میں ہی قابل قبول ہیں۔
اگر آپ شیعہ ہیں یا نہیں اسکا تو معلوم نہین۔ مگر میرے نزدیک ہر شیعہ کافر نہیں۔ شیعہ میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار کرے۔
اگرآپ کسی بھی چیز پر تعصبات سے بالا بات کرنا چاہیں تو دلیل اور تمیز سے ضرور کھلی دعوت ہے۔

انجام صاحب صاحب اس بات کی تشریح آپ کیسے کریں گے کے سب شیعہ کافر نہیں ؟ اور کون کافر ہیں ؟
 
Last edited:

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)
بلاشبہ اسلامی علوم کی تدوین تاریخ کا ایک روشن باب ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پہلی تحقیق ہی کو آخری سمجھ لیا گیا اور انسانوں کی مرتب کردہ کتب کو ہر تنقید سے بالا قرار دے کر تحقیقِ مزید کے دروازے بند کر دئے گئے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے ،جو فقہ اسلامی کے مدّون او ّل ہیں ، اپنی فقہ کو دین اسلام کے مجموعی مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جمہوری انداز میں مرتّب کیا اور ٓزادانہ تحقیق و جستجو پہ زور دیا تا کہ شخصی تقلید راہ نہ پا سکے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی فقہ کو ایک مستقل مذہب کا درجہ دے کر اس کی تقلید کو ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح امام مالکؒ اپنی کتاب مؤطا(جسے انہوں نے خلیفہ منصور کی فرمائش پہ لکھا تھا) کو سلطنتِ عباسیہ کا قانون بنانے پر رضامند نہ ہوئے کیونکہ اس سے تقلید کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ان دونو ں جلیل القدر ائمہ نے عباسیوں کا آلۂ کار نہ بننے کی پاداش میں سخت تکلیفیں اٹھائیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ کی وفات کے بعدان کے شاگرد ابو یوسف نے سرکاری عہدہ قبول کر لیا اور ملوکیّت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فقۂ حنفی کو سلطنتِ عباسیہ کی سرکاری فقہ قرار دے دیا گیا اور آزادانہ تفقّہ فی الدّین کی راہیں عملًا بند کر دی گئیں۔ یہ اسلام میں تقلیدِ شخصی کا آغاز تھا۔ مشہور حنفی امام، ابوالحسن عبید اللہ کرخی(متوفیٰ ۹۵۲) احناف کا موقف یوں بیان کرتے ہیں
قرآن کی جو آیت اس طریقے کے مخالف ہو جس پر ہمارے اصحاب ہیں، وہ یا تو موؤل ہے یا منسوخ۔ (تاریخ فقہ اسلامی، ترجمہ عبدالسلام ندوی ص۴۲۱)
یہ پڑھ کر آدمی تھرا جاتا ہے کہ انسانوں کی رائےپر قرآن کو یا تو منسوخ کیا جائے یا اس کی اپنے اصحاب کی رائے کے مطابق تاویل کی جائے گی۔

اس کے بعد تدوینِ حدیث کا دور آیا جس میں محدّثین نےروایات کے بحر بے کراں میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق غوّاصی کر کے جوگوہر و خذف اپنی کتابوں میں جمع کیے اوران سب پر قال رسول اللہﷺ کی مہر تصدیق ثبت کی اوراسے حدیثِ رسولﷺ کے نام سے امّت کو کر پیش کر دیا ۔ قرآن کے چیلنج فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ(۲:۲۳،۱۰:۳۸) ( تو بنا لاؤ اس طرح کی ایک ہی سورت)۔ کا جواب تو کوئی نہ لا سکا اور نا ہی لا سکے گالیکن صحاح، مسانید، معاجم، جوامع اور سنن کے نام پر روایات کے دفاتر کے دفاتر قلمبند کر دئے گئے اور انہیں مثلہ‘ معہ‘ کے نام پر وحیٔ الٰہی کا مثل قرار دے دیا گیا۔ یوں روایات کے دفاتر نا صرف قرآن کے مقابل لا کر کھڑے کیے گئے بلکہ انہیں قرآن پہ فیصلہ کن حیثیت دے دی گئی، ابو عمرو عبدالرحمن بن محمد اوزاعی اور یحیٰ بن کثیر کےا قوال اس طرز عمل پر حجّت ہیں۔ ابو عمرو عبدالرحمن بن محمد اوزاعی کا قول ہے
الکتاب احوج الی السنة من السنة الی الکتاب
(قرآن حدیث کا محتاج ہے جبکہ حدیث قرآن کی محتاج نہیں)
اور یحیٰ بن کثیر کا قول:
السنة قاضیةعلی الکتاب ولیس الکتاب بقاض علی السنة
( حدیث کو قرآن پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے جبکہ قرآن کو حدیث پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں)

جس طرح مسندِ ابو حنیفہ کے نام سے جو مجموعہ حدیث مرتب کیا گیا اس کا امام ابو حنیفہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بعد کے حنفی علما نے اپنے مذہب کے مطابق مرتب کیا، اسی طرح مسندِ احمد بن حنبل جو روایاتِ حدیث کی سب سے بڑی کتاب ہے امام المحدثین احمد بن حنبل متوفیٰ ۲۴۱ ھ سے منسوب ہے لیکن ان کی مرتب کردہ نہیں۔ امام احمد صحاح ستہ کے تمام مصنفین کے شیخ یا شیخ الشیوخ ہیں، مؤطا امام مالک کے علاوہ تقریباً تمام کتب احادیث کے مرتبین نے ان سے استفادہ کیا ہے، وہ علم حدیث میں ایسی مرکز ی حیثیت رکھتے ہیں کہ علم حدیث کا ان بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مسندِ احمد ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہر فرقے کے حق یا مخالفت میں وافر حصہ رسدی فراہم کرتا ہے، فرقوں کی تشکیل و پشتیبانی میں جتنا حصہ اس کتاب نے ڈالا ہے کوئی اور اس کی شریک و سہیم نہیں ، صوفیا اور روافض نے اس مسند کو اپنے مقصد کے لئے جس طرح استعمال کیا ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ گو کہ مکذوبہ روایات سے کلیتاً تو حدیث کی کوئی کتاب محفوظ نہیں رہی، لیکن مسند احمد کے علاوہ، المصنف ابن ابی شیبہ اور حاکم کی مستدرک ایسی کتابیں ہیں جن میں ایسی روایات کثرت سے جگہ پا گئی ہیں جنہوں نے فرقہ بندی میں اہم کردار اد کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام احمد نے اپنی زندگی میں مسند نام کی کوئی کتاب مرتب ہی نہیں کی، اگر کی ہوتی تو تیسری صدی کے دوارن جوصحاح ستہ کے مؤلفین کا دور ہے اس مسند کا تذکرہ ضرور ہوتا۔ امام بخاری متوفیٰ ۲۵۶ ھ نے اپنی تاریخ کبیر میں اپنے استاد امام احمد کا تذکرہ کیا لیکن مسند کا اشارتاً بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ دیگر تمام مؤلفین صحاح ستہ بھی مسند کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ مسند کسی غیر معروف مؤلف کی کوئی چھوٹی موٹی تالیف تو تھی نہیں کہ سب ہی اس سے بے خبر رہتے۔ مسند احمد کا بطور کتاب تذکرہ چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں ملتا ہے۔
مسند احمد کی اسناد کو دیکھیں تو یہ امام احمد بن حنبل متوفیٰ ۲۴۱ھ سے عبداللہ بن احمد (۲۱۳ھ ۔ ۲۹۰ھ )سے ابو بکر احمد بن جعفر القطیعی(۲۷۳ھ ۔ ۳۶۸ھ ) سے الحسن بن علی ابن المذہب(۳۵۵ھ ۔ ۴۴۴ھ ) سے ابو القاسم ہبۃ اللہ (۴۳۲ھ ۔ ۵۲۵ھ ) تک آحاد در آحاد چلتی ہیں۔ عبداللہ بن احمدکے بعد راوی مجروح ہیں جبکہ ابن المذہب ضعیف الحدیث ہیں۔ سلسلہ اسناد کوسرسری دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن احمد کی وفات کے وقت ابو بکرقطیعی کی عمر صرف سترہ برس تھی، جبکہ ابن المذہب ، ابو بکرقطیعی کی وفات کے وقت فقط تیرہ سال کے تھے اور ہبۃ اللہ محض بارہ سال کے تھے کہ ابن المذہب چل بسے۔ اور یہ کوئی دو چار روایتوں کا معاملہ نہیں پوری مسند یعنی تیس ہزار روایتوں کی سماعت ہے جو چار نسلوں تک کبار سے صغار تک چلتی رہی، اور ہمارے محدثین نے محض امام احمد کی نسبت کی لاج رکھتے ہوئے ان مکذوبہ و موضوعہ روایات کے انبوہ کو قبول کر لیا، اس معاملے میں ہمارے محدثین نے کیسی چشم پوشی سے کام لیا ہے کہ حیرت و حسرت ہے۔
ابن حجر لسان المیزان میں خطیب بغدادی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن المذہب کا قطیعی سے مسند احمد کی سماعت صرف جزوی طور پر درست ہے ، مگر ابن المذہب نے غیر سماعت شدہ اجزا کو بھی سماعت شدہ کے ساتھ ملا لیا۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ابن المذہب روایتوں میں قابل اعتماد نہ تھے۔ ابن حجر خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ابن المذہب نےابو عمرو مہدی کے واسطے سےایک حدیث بیان کی تو میں نے کہا کہ ابن مہدی تو یہ حدیث روایت نہیں کرتے، تو ابن المذہب نے ابن مہدی کے نام پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بہت سی احادیث میرے پاس آتی ہیں جو غیر منسوب ہوتی ہیں، تو میں ان کو اپنی طرف نسبت دے دیتا ہوں، اس طرح اصل روایت میں اس نسبت کا الحاق ہو جاتاہے، ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابن المذہب کی یہ حرکتیں ان کے معاصرین کو ناپسند تھیں، مگر وہ پھر بھی ان حرکتوں سے باز نہ آئے، لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ ابن المذہب ایک متقی آدمی نہ تھے اور انہی کی طرح ان کے شیخ ابو بکر قطیعی بھی، اس وجہ سے مسند احمد میں ایسی ایسی روایتیں داخل ہو گئی ہیں جن کے نہ تو متن درست ہیں اور نہ ہی اسناد۔
اتنا کچھ جان لینے کے بعد کوئی ذی شعور صرف اسناد کی بنیاد پر مسند کی روایات کو قبول نہیں کر سکتا، بلکہ اس کی روایات کی اگر مستند کتابوں سے متابعات مل جائیں تو فبہا، ورنہ وہ مردود ہی ہیں۔

 
Last edited:
لایعنی باتوں پر لغو بحث ہی فضول ہے۔ لہذا خیرالقرون اور دیگر اصطلاحات جو ذکر کی ہیں وہ مروجہ معنوں میں ہی قابل قبول ہیں۔
اگر آپ شیعہ ہیں یا نہیں اسکا تو معلوم نہین۔مگر میرے نزدیک ہر شیعہ کافر نہیں۔ شیعہ میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار کرے۔
اگرآپ کسی بھی چیز پر تعصبات سے بالا بات کرنا چاہیں تو دلیل اور تمیز سے ضرور کھلی دعوت ہے۔
تصحیح: میرے نزدیک ہر شیعہ یا ہر سنی کافر نہیں۔ کیوں کہ شیعہ یا سنی میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار
کرے۔


---------------------------------

یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلکاً مرزائی بھی سنی ہیں۔ آپ صدیوں سے رشتہ اخوت ایمانی میں بندھے بھائی تھے لیکن پچھلی صدی میں دونوں بھائیوں کی ختم نبوت کے معاملے میں ایک معمولی سے اختلاف کو بنیاد بنا کر کوئی شکر رنجی ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ ریاستی سطح پر کافر ہو گئے اور آپ جمہوریت کے طفیل مسلمان بچ گئے۔
 

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)

تصحیح: میرے نزدیک ہر شیعہ یا ہر سنی کافر نہیں۔ کیوں کہ شیعہ یا سنی میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار
کرے۔


---------------------------------

یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلکاً مرزائی بھی سنی ہیں۔ آپ صدیوں سے رشتہ اخوت ایمانی میں بندھے بھائی تھے لیکن پچھلی صدی میں دونوں بھائیوں کی ختم نبوت کے معاملے میں ایک معمولی سے اختلاف کو بنیاد بنا کر کوئی شکر رنجی ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ ریاستی سطح پر کافر ہو گئے اور آپ جمہوریت کے طفیل مسلمان بچ گئے۔



ختم نبوت کے معاملے میں ایک معمولی سے اختلاف کو بنیاد بنا کر کوئی شکر رنجی ہو گئی تھی؟؟؟
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)


میں سمجھتا ہوں کہ چاروں فقہاء میں صرف طریقہ نماز پر بھی کئی اختلاف تھے مگرکفر کے فتوے لگا لگا علمیت نہیں بگھاری جاتی تھی، آج کا ماحول میڈیا ریٹنگ کا ہے، جس کے پاس ریٹنگ ہے وہ بڑا عالم ہے، چاہے وہ عالم سوء ہی کیوں نہ ہو۔
 

انجام

MPA (400+ posts)
حقیر اپنے تئیں نہیں سمجھتا کہ کسی کے ایمان یا کفر کا فیصلہ کرے۔ نہ ہی یہ عنوان کسی کو مسلمان یا کافر ثابت کرنے کے لئے شروع کیا گیا۔
اس فورم کا ممبر بن کر مختلف لوگوں کی تحریردیکھ کرواضح طور سے نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں کوئی بھی شخص عالم نہیں۔ مجھے بھی
بہت زیادہ عالم ہونے کا دعوی نہیں۔
راقم یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں فتوی کفر و شرک و گمراہی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ اس میں اتنا غلو کیا جاتا ہے کہ کئی مساجد کے امام اور مدارس کے استاد اپنے ہی مسلک کے دوسرے عالم تک کو اپنے معیار پر پورا نہ اترنے پر بڑی آسانی اور فراوانی سے یہ فتوے جاری فرماتے ہیں۔
[FONT=&amp]
لہذا ان نامعقول بحثوں کا کوئی فائدہ نہیں
۔۔[/FONT]​
 

انجام

MPA (400+ posts)
انجام صاحب صاحب اس بات کی تشریح آپ کیسے کریں گے کے سب شیعہ کافر نہیں ؟ اور کون کافر ہیں ؟

اس سوال کا مختصر جواب تو پہلے سے ہی موجود ہے۔ اسی لئے لاحاصل بحث کی ضرورت نہیں۔
 

انجام

MPA (400+ posts)

تصحیح: میرے نزدیک ہر شیعہ یا ہر سنی کافر نہیں۔ کیوں کہ شیعہ یا سنی میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار
کرے۔


---------------------------------

یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلکاً مرزائی بھی سنی ہیں۔ آپ صدیوں سے رشتہ اخوت ایمانی میں بندھے بھائی تھے لیکن پچھلی صدی میں دونوں بھائیوں کی ختم نبوت کے معاملے میں ایک معمولی سے اختلاف کو بنیاد بنا کر کوئی شکر رنجی ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ ریاستی سطح پر کافر ہو گئے اور آپ جمہوریت کے طفیل مسلمان بچ گئے۔

مرزئی صدیوں کی بات ہی نہیں۔ بلکہ مرزا مصروف پیدا ہی ڈیڑھ صدی قبل ہوا۔ انکے دین میں اضافی نبی کو ماننے کےسبب وہ کافر ہوئے۔ ریاست کسی کو کافر قرار دے یا قرار نہ دے جو بھی اسلامی تعلیمات میں اضافہ کرے یا کمی وہ کافر ٹھہرتا ہے۔

لگتا ہے آپ نے یہ معمولی اختلاف کا جملہ علامہ اشرف علی تھانوی سے لیا۔ انسے منقول کتب میں یہ بیان ملتا ہے۔
باقی اس پر مزید نوکمنٹ۔

 
[FONT=&quot]مرزئی صدیوں کی بات ہی نہیں۔ بلکہ مرزا مصروف پیدا ہی ڈیڑھ صدی قبل ہوا۔ انکے دین میں اضافی نبی کو ماننے کےسبب وہ کافر ہوئے۔ ریاست کسی کو کافر قرار دے یا قرار نہ دے جو بھی اسلامی تعلیمات میں اضافہ کرے یا کمی وہ کافر ٹھہرتا ہے۔[/FONT]

لگتا ہے آپ نے یہ معمولی اختلاف کا جملہ علامہ اشرف علی تھانوی سے لیا۔ انسے منقول کتب میں یہ بیان ملتا ہے۔
باقی اس پر مزید نوکمنٹ۔
کیا بات کرتے ہو بھئی؟
مرزائی کوئی ہندو تو نہیں تھے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو ہمیں کیا لینا دینا وہ کسی کو بھگوان بنائیں یا اوتار۔
ذہن پر زور دیں، آفیشلی کافر بننے سے پہلے مرزائی بھی صدیوں سے سنی ہی تھے اور اپنی عبادات کے ظواہر سے آج بھی کامل سنی لگتے ہیں۔

 

Back
Top