کچھ عرصہ ہوا اس فورم پر ممبران کی پوسٹیں دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ کچھ غلط فہمیوں اور احساس کمتری کا شکار ہیں۔ یا غلط معلومات کے سبب ذہنی / دماغی انتشار کا شکار ہیں۔ انکی یہ غلط فہمیاں کئی طرح کی ہیں۔ کچھ لوگ علوم اسلامیہ کی تاریخ و تدوین سے لا تعلق ہیں اور غیر مسلم فلسفیوں کے الزامات سے پریشان ہوکر کئی طرح کی اہم علمی و ایمانی ابحاث کو رد کر دیتے ہیں۔
کئی نوجوان علم دین سے دوری کے باعث ان کی ان بحثوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ تو کئی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مناسب سمجھا کہ یہاں
بنیادی اسلامی علوم کی تدوین کی مختصر تاریخ درج کر دی جائے۔
تمام اہل علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اسلام کے اعلان و ترویج سے قبل عرب کا خطہ لکھائی پڑھائی سے محروم تھا۔ ہزاروں کی آبادی میں گنتی کے چند افراد لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اہل عرب اس دور میں کسی بھی مہذب معاشرے میں شمار نہ ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے نزول وحی کے آغاز کے بعد اسلام کا اعلان فرمایا۔ ابتدائی 13 سال تک انتہائی شدید مخالفت کے عالم میں صرف زبانی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا۔ صحابہ کرام جو کچھ سنتے وہ یاد کر لیتے۔ اپنے حافظے میں رقم کر لیتے۔ عربوں کے حافظے نہایت قوی تھے۔ مگر ساتھ ہی جو صحابہ کرام لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قرآنی آیات لکھتے بھی تھے۔
مگر پڑھائی لکھائی کا باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ 13 سن نبوی ﷺ میں ہجرت کے بعد حالات معمول پر آئے۔ میثاق مدینہ اور مواخات مدینہ کے بعد مسجد نبوی ﷺکی تعمیر بھی ہو چکی تو مسلمان کچھ سکون میں آئے۔ ان حالات میں تعلیم کا انتظام شروع ہوا۔
تقریبا سواسال گزرنے کے بعد غزوہ بدر وہ تاریخی واقعہ ہے جب مسلمانوں پر کفار نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔یہ وہ موقع تھا جب نبی رحمت ﷺ نے مسلمانوں کو مزید رغبت سے تعلیم پر مائل کرنے کے لئے کفار قیدیوں کو فدیے میں مسلمانوں کی تعلیم کاحکم دیا۔
اس کے بعد مسجد نبوی ﷺ میں ایک چبوترہ تھا جسے دنیا میں صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نامساعد مالی حالات میں صحابہ کرام کی کثیر جماعت اس چبوترے پر تعلیم حاصل کرتی۔ کتب میں وارد روایات کے مطابق مختلف اوقات میں 1000 یا اس سے زائد صحابہ تک بھی طلب علم کے لئے بیک وقت جمع ہوتے۔
چونکہ وہ خطہ نہ تو علمی ثقافت کا مرکز تھا۔ نہ ہی عرب بہت زیادہ متمدن تھے، اور اسلامی تعلیم بھی سادہ تھی۔ نزول قرآن بھی انکے سامنے ہورہا تھا۔ اللہ کا نبی ﷺ خود انمیں موجود تھا۔ انہیں کچھ زیادہ دشواری نہ تھی۔ جو کچھ پوچھنا ہوتا وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کر لیتے۔
حضور اکرم ﷺ کا زمانہ اسلام کا سب سے پہلا زمانہ تھا۔ اس دور کے معروضی حالات میں جب ابھی وحی کا نزول ہو رہا تھا، اور بیک وقت دشمن سے صف آرائی بھی ہوتی تھی۔ مختلف علوم میں تدوین کی نہ ضرورت بھی نہ ہی ممکن تھا۔ لہذا معروضی حالات کے مطابق ہی تعلیم اسلام ہوئی۔
بعد ازاں اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام کی سرحدیں شرق تا غرب پھیلنے لگیں۔ ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق اصلاحات ہوئیں۔ نئے شعبے قائم ہوئے۔ منتشر چیزوں کو جمع کیا گیا۔
امن کے ادوار میں صحابہ کرام کے تدریس کے مراکز قائم ہوئے۔ نامور علماء صحابہ کرام مین حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی المرتضی ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک اور امہات المؤمنین میں سیدہ عائشہ سرفہرست ہیں۔ سیدہ عائشہ صرف گھر میں لوگوں کے پوچھنے پر مسائل بتاتی تھیں۔
مذکورہ چند ناموں کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد ازاں صحابہ کرام سے انکے شاگردوں نے علم حاصل کیا۔ تابعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان تابعین میں کثیر تعداد نے اپنے ذوق کے مطابق علم کے مراکز قائم کئے۔ کسی کو احادیث رسول سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے احادیث سیکھیں۔ کسی کو حفظ و تفسیر سے دلچسپی، تو کسی کو تزکیہ میں رغبت،۔ کوئی الفاظ و لغات میں ماہر ہوا تو کسی نے علم درایت/ یعنی تحقیق اور اخذ مسائل میں مہارت حاصل کی۔
تابعین کے ادوار میں علوم جمع ہونا شروع ہوئے۔ انکی تدوین شروع ہوئی۔ انمین بڑے معروف ناموں میں سعید بن مسیب ، حماد اور اخیر دور کے تابعین میں امام اعظم ابوحنیفہ رضوان اللہ شامل ہیں۔ تحقیق علم پر ابتدائی دور میں سب سے اہم کارنامہ امام اعطم نے انجام دیا ۔ انہوں نے اپنے انتہائی قابل شاگردوں پر مشتمل ماہرین کا ایسا گروہ تشکیل دیا جو مختلف علوم پر مہارت رکھتے تھے۔ پیش آمدہ مسائل اس ماہرین کے پینل کے سامنے بیان ہوتے۔ ان مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں ماہرین رائے پیش کرتے اس طرح مختلف مسائل جمع ہوتے اور جواب آتے۔
تابعین میں ہی نہایت اہم افراد میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، زید اور باقر کے صاحبزادے جعفر الصادق اور
حسن بصری بھی تھے۔ ان ہستیوں نے امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں زہد ، تزکیہ، احسان وتصوف کی تعلیم دی۔
جیسا کہ اوپر ذکرہواتابعین نے بھی اپنے بہت بڑے علمی مراکز یعنی دروس قائم کئے۔ وہان سے لوگ علم دین سیکھتے تھے۔ تابعین کے شاگرد تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ امام مالک اور امام اعظم ہم زمانہ ہیں۔ مگر عمر میں امام اعظم امام مالک سے بڑے ہیں۔ شائد امام مالک تبع تابعین میں شامل ہیں۔
اس دور میں بھی بڑے کثیر علماء موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دئے۔ علوم اسلامیہ میں فقہ کے دوسرے بڑے امام ، امام مالک بن انس ہیں ۔ یہ امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے استاد ہیں۔ جبکہ امام شافعی امام محمد بن حسن کے بھی شاگرد ہیں۔کہا جاتا ہے جس دن امام اعظم کا وصال ہوا اس دن امام شافعی پیدا ہوئے۔ آپ دیگر بہت لوگوں کے ساتھ فقہ کے چوتھے معروف امام احمد بن حنبل کے استاد بھی ہیں۔
کتب احادیث میں امام اعظم کے مسانید مذکور ہیں۔ جبکہ امام مالک کے مجموعہ احادیث و آثار کو مؤطا امام مالک اور دوسرے کانام مؤطا امام محمد ہے۔ در اصل یہ مجموعہ آپ کے شاگردوں نے روایت کیا۔ کئی نسخے تھے جنمیں سے یہ 2 زیادہ معروف ہیں۔ امام شافعی نے الگ ذخیرہ حدیث جمع نہیں فرمایا۔ جبکہ امام احمد بن حنبل نے بہت بڑاذخیرہ حدیث مسند احمد بن حنبل کے نام سے جمع فرمایا جو 18 سے 40 جلدوں تک میں شائع ہورہا ہے۔
اس دور میں 2 بڑے علمی گروہ مشہور تھے۔ ایک کو اصحاب الرائے کہتے تھے۔ ایک کو اصحاب الحدیث۔
اصحاب الرائے دراصل درایت سے احکام اخذ کرتے تھے۔ جبکہ اصحاب الحدیث ظاہر الفاط سے حکم اخذ کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جسمیں احادیث کے کئی زخیرے جمع ہوئے۔ انمیں سے 2 کا ذکر کر چکا۔ جبکہ امام عبدالرزاق جو امام اعظم کے ہی شاگرد تھے کا بہت بڑا ذخیرہ مصنف عبد الرزاق کے نام سے معروف ہے۔یہ تقریبا6 سے 10 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ امام بخاری کے استاد امام ابن ابو شیبہ کا مجموعہ مصنف بھی معروف ہے۔
یہاں تک مذکور کتب حدیث صرف پہلے 3 ادوار میں یعنی صحابہ تا تابعین مذکور ہیں۔ اگرچہ اختلافات اور فرقہ واریت اس دور میں بھی تھی مگر پہلے ادوار میں پہچان ذرا آسان تھی۔ پہلے دور کے اختتام پر تقریبا 200 سال گزر گئے۔ اس کے اختتام پر امام احمد اور ابن ابو شیبہ کے شاگرد امام بخاری نے بھی دیگر لوگوں کی طرح احادیث جمع کیں۔ انکے علاوہ بھی کئی علماء نے علم حدیث میں خدمات سرانجام دیں مگر امام بخاری و مسلم کو تدوین حدیث میں نمایان نام ملا۔ پھر یہ سلسلہ مزید وسیع ہوا۔
ایک مرتبہ پھر فقہی تدوین پر بات کرتے ہیں۔
جیساکہ سبھی لوگوں کے علم میں ہے کہ عوام الناس قرآن و سنت براہ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ گھر سے اٹھ کر مسجد کے امام سے پوچھ کر عمل کر لیتے ہیں۔ مگر علماء امت نے دین کو نہایت تندہی سے سیکھ کر امت کے لئے آسان انداز میں اسلامی تعلیمات کو مدون کر کے پیش کیا۔
پہلے ادوار میں جو بھی علم دین حاصل کرتا الگ مدرسہ / کالج کھول کر تعلیم دینا شروع کر دیتا۔ اجتہاد کے لئے کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ اختلافات کی شدت کو دیکھتے ہوئے امت نے مسلسل اجتہاد کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچی کہ اجتہاد کے کچھ حدود متعین کر دی جائیں تاکہ بے لگام معاشرے میں دین اسلام مذاق ہی نہ بن کر رہ جائے۔
کئی صدیوں میں علماء کے رجحانات کو دیکھ کر انکو 4 بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس طرح فقہ اربعہ قائم ہوئی۔
پہلی 2 صدیوں میں علوام اسلامیہ کا فقہ وسنت/ حدیث پر جتنا زیادہ کام ہوا وہ دیگر شعبوں میں نہیں ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ 8 سے 10 صدیوں پہلےمجتہدین نے 4 فقہاء پر اکتفا کر کے امت کے لئے نہایت آسانی کا سامان مہیا کیا۔وگرنہ ہر خطے میں لوگ صرف طریقہ نماز پر کفر کے فتوے لگا لگا کر قتل عام کے بازار گرم رکھتے۔
کئی نوجوان علم دین سے دوری کے باعث ان کی ان بحثوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ تو کئی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مناسب سمجھا کہ یہاں
بنیادی اسلامی علوم کی تدوین کی مختصر تاریخ درج کر دی جائے۔
تمام اہل علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اسلام کے اعلان و ترویج سے قبل عرب کا خطہ لکھائی پڑھائی سے محروم تھا۔ ہزاروں کی آبادی میں گنتی کے چند افراد لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اہل عرب اس دور میں کسی بھی مہذب معاشرے میں شمار نہ ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے نزول وحی کے آغاز کے بعد اسلام کا اعلان فرمایا۔ ابتدائی 13 سال تک انتہائی شدید مخالفت کے عالم میں صرف زبانی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا۔ صحابہ کرام جو کچھ سنتے وہ یاد کر لیتے۔ اپنے حافظے میں رقم کر لیتے۔ عربوں کے حافظے نہایت قوی تھے۔ مگر ساتھ ہی جو صحابہ کرام لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قرآنی آیات لکھتے بھی تھے۔
مگر پڑھائی لکھائی کا باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ 13 سن نبوی ﷺ میں ہجرت کے بعد حالات معمول پر آئے۔ میثاق مدینہ اور مواخات مدینہ کے بعد مسجد نبوی ﷺکی تعمیر بھی ہو چکی تو مسلمان کچھ سکون میں آئے۔ ان حالات میں تعلیم کا انتظام شروع ہوا۔
تقریبا سواسال گزرنے کے بعد غزوہ بدر وہ تاریخی واقعہ ہے جب مسلمانوں پر کفار نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔یہ وہ موقع تھا جب نبی رحمت ﷺ نے مسلمانوں کو مزید رغبت سے تعلیم پر مائل کرنے کے لئے کفار قیدیوں کو فدیے میں مسلمانوں کی تعلیم کاحکم دیا۔
اس کے بعد مسجد نبوی ﷺ میں ایک چبوترہ تھا جسے دنیا میں صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نامساعد مالی حالات میں صحابہ کرام کی کثیر جماعت اس چبوترے پر تعلیم حاصل کرتی۔ کتب میں وارد روایات کے مطابق مختلف اوقات میں 1000 یا اس سے زائد صحابہ تک بھی طلب علم کے لئے بیک وقت جمع ہوتے۔
چونکہ وہ خطہ نہ تو علمی ثقافت کا مرکز تھا۔ نہ ہی عرب بہت زیادہ متمدن تھے، اور اسلامی تعلیم بھی سادہ تھی۔ نزول قرآن بھی انکے سامنے ہورہا تھا۔ اللہ کا نبی ﷺ خود انمیں موجود تھا۔ انہیں کچھ زیادہ دشواری نہ تھی۔ جو کچھ پوچھنا ہوتا وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کر لیتے۔
حضور اکرم ﷺ کا زمانہ اسلام کا سب سے پہلا زمانہ تھا۔ اس دور کے معروضی حالات میں جب ابھی وحی کا نزول ہو رہا تھا، اور بیک وقت دشمن سے صف آرائی بھی ہوتی تھی۔ مختلف علوم میں تدوین کی نہ ضرورت بھی نہ ہی ممکن تھا۔ لہذا معروضی حالات کے مطابق ہی تعلیم اسلام ہوئی۔
بعد ازاں اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام کی سرحدیں شرق تا غرب پھیلنے لگیں۔ ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق اصلاحات ہوئیں۔ نئے شعبے قائم ہوئے۔ منتشر چیزوں کو جمع کیا گیا۔
امن کے ادوار میں صحابہ کرام کے تدریس کے مراکز قائم ہوئے۔ نامور علماء صحابہ کرام مین حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی المرتضی ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک اور امہات المؤمنین میں سیدہ عائشہ سرفہرست ہیں۔ سیدہ عائشہ صرف گھر میں لوگوں کے پوچھنے پر مسائل بتاتی تھیں۔
مذکورہ چند ناموں کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد ازاں صحابہ کرام سے انکے شاگردوں نے علم حاصل کیا۔ تابعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان تابعین میں کثیر تعداد نے اپنے ذوق کے مطابق علم کے مراکز قائم کئے۔ کسی کو احادیث رسول سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے احادیث سیکھیں۔ کسی کو حفظ و تفسیر سے دلچسپی، تو کسی کو تزکیہ میں رغبت،۔ کوئی الفاظ و لغات میں ماہر ہوا تو کسی نے علم درایت/ یعنی تحقیق اور اخذ مسائل میں مہارت حاصل کی۔
تابعین کے ادوار میں علوم جمع ہونا شروع ہوئے۔ انکی تدوین شروع ہوئی۔ انمین بڑے معروف ناموں میں سعید بن مسیب ، حماد اور اخیر دور کے تابعین میں امام اعظم ابوحنیفہ رضوان اللہ شامل ہیں۔ تحقیق علم پر ابتدائی دور میں سب سے اہم کارنامہ امام اعطم نے انجام دیا ۔ انہوں نے اپنے انتہائی قابل شاگردوں پر مشتمل ماہرین کا ایسا گروہ تشکیل دیا جو مختلف علوم پر مہارت رکھتے تھے۔ پیش آمدہ مسائل اس ماہرین کے پینل کے سامنے بیان ہوتے۔ ان مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں ماہرین رائے پیش کرتے اس طرح مختلف مسائل جمع ہوتے اور جواب آتے۔
تابعین میں ہی نہایت اہم افراد میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، زید اور باقر کے صاحبزادے جعفر الصادق اور
حسن بصری بھی تھے۔ ان ہستیوں نے امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں زہد ، تزکیہ، احسان وتصوف کی تعلیم دی۔
جیسا کہ اوپر ذکرہواتابعین نے بھی اپنے بہت بڑے علمی مراکز یعنی دروس قائم کئے۔ وہان سے لوگ علم دین سیکھتے تھے۔ تابعین کے شاگرد تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ امام مالک اور امام اعظم ہم زمانہ ہیں۔ مگر عمر میں امام اعظم امام مالک سے بڑے ہیں۔ شائد امام مالک تبع تابعین میں شامل ہیں۔
اس دور میں بھی بڑے کثیر علماء موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دئے۔ علوم اسلامیہ میں فقہ کے دوسرے بڑے امام ، امام مالک بن انس ہیں ۔ یہ امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے استاد ہیں۔ جبکہ امام شافعی امام محمد بن حسن کے بھی شاگرد ہیں۔کہا جاتا ہے جس دن امام اعظم کا وصال ہوا اس دن امام شافعی پیدا ہوئے۔ آپ دیگر بہت لوگوں کے ساتھ فقہ کے چوتھے معروف امام احمد بن حنبل کے استاد بھی ہیں۔
کتب احادیث میں امام اعظم کے مسانید مذکور ہیں۔ جبکہ امام مالک کے مجموعہ احادیث و آثار کو مؤطا امام مالک اور دوسرے کانام مؤطا امام محمد ہے۔ در اصل یہ مجموعہ آپ کے شاگردوں نے روایت کیا۔ کئی نسخے تھے جنمیں سے یہ 2 زیادہ معروف ہیں۔ امام شافعی نے الگ ذخیرہ حدیث جمع نہیں فرمایا۔ جبکہ امام احمد بن حنبل نے بہت بڑاذخیرہ حدیث مسند احمد بن حنبل کے نام سے جمع فرمایا جو 18 سے 40 جلدوں تک میں شائع ہورہا ہے۔
اس دور میں 2 بڑے علمی گروہ مشہور تھے۔ ایک کو اصحاب الرائے کہتے تھے۔ ایک کو اصحاب الحدیث۔
اصحاب الرائے دراصل درایت سے احکام اخذ کرتے تھے۔ جبکہ اصحاب الحدیث ظاہر الفاط سے حکم اخذ کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جسمیں احادیث کے کئی زخیرے جمع ہوئے۔ انمیں سے 2 کا ذکر کر چکا۔ جبکہ امام عبدالرزاق جو امام اعظم کے ہی شاگرد تھے کا بہت بڑا ذخیرہ مصنف عبد الرزاق کے نام سے معروف ہے۔یہ تقریبا6 سے 10 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ امام بخاری کے استاد امام ابن ابو شیبہ کا مجموعہ مصنف بھی معروف ہے۔
یہاں تک مذکور کتب حدیث صرف پہلے 3 ادوار میں یعنی صحابہ تا تابعین مذکور ہیں۔ اگرچہ اختلافات اور فرقہ واریت اس دور میں بھی تھی مگر پہلے ادوار میں پہچان ذرا آسان تھی۔ پہلے دور کے اختتام پر تقریبا 200 سال گزر گئے۔ اس کے اختتام پر امام احمد اور ابن ابو شیبہ کے شاگرد امام بخاری نے بھی دیگر لوگوں کی طرح احادیث جمع کیں۔ انکے علاوہ بھی کئی علماء نے علم حدیث میں خدمات سرانجام دیں مگر امام بخاری و مسلم کو تدوین حدیث میں نمایان نام ملا۔ پھر یہ سلسلہ مزید وسیع ہوا۔
ایک مرتبہ پھر فقہی تدوین پر بات کرتے ہیں۔
جیساکہ سبھی لوگوں کے علم میں ہے کہ عوام الناس قرآن و سنت براہ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ گھر سے اٹھ کر مسجد کے امام سے پوچھ کر عمل کر لیتے ہیں۔ مگر علماء امت نے دین کو نہایت تندہی سے سیکھ کر امت کے لئے آسان انداز میں اسلامی تعلیمات کو مدون کر کے پیش کیا۔
پہلے ادوار میں جو بھی علم دین حاصل کرتا الگ مدرسہ / کالج کھول کر تعلیم دینا شروع کر دیتا۔ اجتہاد کے لئے کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ اختلافات کی شدت کو دیکھتے ہوئے امت نے مسلسل اجتہاد کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچی کہ اجتہاد کے کچھ حدود متعین کر دی جائیں تاکہ بے لگام معاشرے میں دین اسلام مذاق ہی نہ بن کر رہ جائے۔
کئی صدیوں میں علماء کے رجحانات کو دیکھ کر انکو 4 بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس طرح فقہ اربعہ قائم ہوئی۔
پہلی 2 صدیوں میں علوام اسلامیہ کا فقہ وسنت/ حدیث پر جتنا زیادہ کام ہوا وہ دیگر شعبوں میں نہیں ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ 8 سے 10 صدیوں پہلےمجتہدین نے 4 فقہاء پر اکتفا کر کے امت کے لئے نہایت آسانی کا سامان مہیا کیا۔وگرنہ ہر خطے میں لوگ صرف طریقہ نماز پر کفر کے فتوے لگا لگا کر قتل عام کے بازار گرم رکھتے۔
Last edited by a moderator: