اسلامی تاریخ کا دورصحابه

ابابیل

Senator (1k+ posts)
اللہ کی توفیق کے بعد انہی عالی مرتبت بندوں کی لامتناہی کوششوں سے اللہ تعالیٰ کا کلمہ زمین کے کونے کونے میں پہنچا اور دین کا پرچم ہر خطۂ زمیں پر لہرایا !!
رضوان اللہ عنہم اجمعین ‫!!!


اسلامی تاریخ کا دورصحابه


اگر ہم اپنی تاریخ کو عمیق نظر سے دیکھیں تو ہمیں اس کا وہ دَور یا عرصہ روشن ترین اور دودھ سے زیادہ سفید نظر آئے گا ، جس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے زندگی بسر کی۔
اور یہی وہ پاکیزہ گروہ تھا جس نے اپنے شانوں پر اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔۔۔
اور یہی مقدس ہستیاں ، انبیائے کرام کے بعد اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں!

فرقوں کی بہتات کی بنا پر مسلمان قوم کی تاریخ بےپناہ تحریف کا شکار رہی کیونکہ ان میں ہر فرقہ اس کوشش میں مصروف رہا کہ ۔۔۔
وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔
اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو گئے !

مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے چوتھے خلیفۂ راشد ، داماد اور عمِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا۔
اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں ۔۔۔۔ اور پھر اسی "کھیل" کے دوران دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حق غصب کرنے ، ان پر ظلم کرنے ونیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا ، بلکہ ۔۔۔۔ اس محبت نما دشمنی میں اولادِ علی (رضی اللہ عنہ) کو منصوص علیہم ائمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔

صحیح تحقیق کے مطابق تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ ۔۔۔
ہمیں کبار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے احوال اور اُن (رضی اللہ عنہم) کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ :
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کچھ صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ بعض حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس ۔۔۔۔
تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔

** حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے بیاہ دی تھی۔
**بحوالہ: الکافی ، ج:5 ، ص:346**
** حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس (رضی اللہ عنہا) سے شادی کر لی تھی (یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے)۔
** امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹوں کے نام
ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم)
کے ناموں پر رکھے۔
**بحوالہ: معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309**
** حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا۔
**بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279**
** حضرت جعفر صادق بن محمد ہاشمی کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق نے دو مرتبہ جنا ہے۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق کی دختر تھیں)۔
**بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255**

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی تھی۔

دوسری طرف ایک اور گروہ ہے جو آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام کے جو فضائل و مناقب ہیں ، وہ فضائل و مناقب تک انہیں دینا نہیں چاہتے۔

ان دونوں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے۔
یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ ۔۔۔۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے۔
اور
اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔

اہل بیت خود بھی صحابہ کرام کے عمومی گروہ میں شامل ہیں۔
اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا۔

اصحابِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر والا وشیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق معصومیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور انبیاء کرام کے سوا کسی کو معصوم نہیں بنایا۔
بےشک اس مقدس گروہ کے چند صحابہ کرام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد چند تسامحات بھی ہوئے ۔۔۔
لیکن ان تسامحات کی حیثیت ان کی نیکیوں کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے پہاڑوں کے مقابلے میں ریت کے چند ذرات اور سیلاب کے مقابلے میں بارش کے چند قطرات !!

لہذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ صحابہ کرام کے احسانات کا حق ادا کرتے ہوئے ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کریں اور ان کے تسامحات کے چٹخارہ دار بیانات سے باز رہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق و صواب کی راہ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین !


=============
اقتباسات بحوالہ :
آئینۂ ایامِ تاریخ ، عثمان بن محمد ناصری / عبدالجبار سلفی
 
Last edited by a moderator:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

اب جو بھی اس تھریڈ پر فرقہ وارانہ گفتگو کا آغاز کرے اس کو رپورٹ کیا جائے
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
یہ وہ رشتے تھے جو محبت کی بنیادوں پر قایم کیے گئے تھے
یہ اس درس کا نتیجہ ہے جو نبی اکرم نے وحشی قوم کو الله کے پسندیدہ بندوں میں تبدیل کر دیا
یہ وہ درس ہے جو رہتی دنیا کے لئے قائم ہے
آج ہماری زندگیاں بھی ان ہی خطوط پر قائم کی جائیں تو ہم بھی الله کے محبوب بندے بن جائیں گے
بہترین اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے
ہمیں اپنی زندگیاں اسی خوبصورت اسوہ کو اپنا کر بدلنی چاہیے
اسی کو اپنا کر ہی آخرت میں سر خرو ہو سکتے ہیں
الله ہم سب کو ہدایت عطا فرما
 

yasir18

Councller (250+ posts)
It was during the rule of Abbasids that false Ahadith about the high rank of ahl-al-bayt emerged. The Abbasids punished many of those people responsible for this lie about the Prophet (PBUH) but they could not stop this evil. Due to large number of these ahadith, it is very difficult to distinguish between the true and false ones even today. The people behind these ahadith were not supporters of ahl-al-bayt but their only purpose was to divide the Muslim Ummah with their falsehood.
 

oscar

Minister (2k+ posts)
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
It was during the rule of Abbasids that false Ahadith about the high rank of ahl-al-bayt emerged. The Abbasids punished many of those people responsible for this lie about the Prophet (PBUH) but they could not stop this evil. Due to large number of these ahadith, it is very difficult to distinguish between the true and false ones even today. The people behind these ahadith were not supporters of ahl-al-bayt but their only purpose was to divide the Muslim Ummah with their falsehood.


کلام الہی ، قران حکیم کی حفاظت اس کے خالق نے خود اٹھا رکھی ہے
رہتی دنیا تک اس میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا
گزشتہ ١٤٠٠ سالوں میں بہت سے لوگوں اور گروہوں نے اپنی کوشش کر لی
کلام رسول ، احادیث کی حفاظت کی ذمہ داری امت اسلامیہ پر ہے
اس کے لئے علم حدیث کے تحت "أسماء الرجال" کا علم ایجاد کیا گیا
آج اور رہتی دنیا تک اس کے علماء موجود رہیں گے
دین اسلام سے متنفر گروہ کی احادیث میں رد و بدل ان
شاء الله کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی
 

alibaba007

Banned


اس فرق کو سمجھئے:

آپ کا نظریہ: فلاح کا دارومدار "صحابیت" پر ہے۔ اگر کسی نے رسول (ص) کو 1 بار دیکھ لیا تو وہ صحابی بن گیا اور اس "صحابیت" کی بنیاد پر "اجمعین صحابہ" پہلے سے ہی فلاح پا چکے ہیں اور جنتی ہیں۔
نوٹ: یہ ایک "بدعتی" عقیدہ ہے جو کہ بعد میں گھڑا گیا۔ خود صحابہ اس بدعتی عقیدے کے قائل نہ تھے اور نہ ہی انکے دور تک کوئی ایسا "اجمعین" کے نام سے عقیدہ موجود تھا۔ اس بدعتی عقیدے کو "صحابہ پرستش" کی بیماری میں مبتلا لوگوں نے بعد میں گھڑا۔

فلاح کا دارومدار فقط اور فقط "نیک اعمال" پر ہے۔ اسلامی شریعت میں اس اصول میں کسی صحابی یا غیر صحابی کا فرق نہیں۔
اگر کسی صحابی نے نیک عمل کیا ہے تو اسکی جزا ہے۔ اور اگر اس نے عمل بد کیا ہے، تو اس پر اس صحابی کو گناہ بھی ہے اور عذاب بھی۔
کچھ افعالِ بد ایسے ہیں جنکی وجہ سے پچھلے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے نبی کے سامنے اپنی آواز اونچی کی، اسکے تمام اعمال برباد ہوئے۔
(القرآن 49:2) اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلندآواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے مومن کا جان بوجھ کر قتل کیا، اس پر "ابدی" عذاب ہے۔
(القرآن 4:93) اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے۔

تاریخ نے ایسوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے رسول (ص) کی آواز پر اپنی آواز بلند کی، رسول (ص) کی بات کو ہذیان کہہ کر قطع کر ڈالا۔ اور تاریخ ان کو بھی بے نقاب کرتی ہے جنہوں نے ذاتی فائدے کے لیے پہلے عثمان ابن عفان پر پانی بند کیا، پھر نعثل و کافر کہا، پھر سازش کر کے قتل کروا ڈالا، پھر خود ہی قتل کروا کر قصاص کے نام پر خلیفہ وقت کے خلاف جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے اور خود خلافت حاصل کرنے کے چکر میں ہزاروں مسلمانوں کو جان بوجھ کر جنگوں میں قتل کروا ڈالا، حالانکہ ان پر حواب کے کتے بھی بھونک رہے تھے، مگر جان بوجھ کر انہوں نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار جھوٹی گواہیاں دلوائیں (حواب کا واقعہ متفق علیہ ہے جہاں ان پر کتے بھونکے اور انہوں نے اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسمیں کھائیں)۔



اللہ کا "ہجرت" کرنے والے سابقون صحابہ، جنگ بدر کے صحابہ، بیعت رضوان کے صحابہ پر غضبناک ہونا اور سزا کی وعید
(سورۃ توبہ، آیت 100) اور مہاجرین اور انصار میں سے جو ایمان لانے میں سبقت کرنے

والے ہیں اور جن لوگوں نے حسنِ عمل میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے۔ اور وہ

اللہ سے راضی ہیں۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے بہشت مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

(القرآن 57:10) تم میں سے جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے اگرچہ اللہ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

ان دونوں آیات میں اللہ تعالی "صحابیت" سے خوش ہونے کا ذکر نہیں کر رہا ہے، بلکہ ققط اور فقط "نیک عمل" پر خوش ہونے کا ذکر کر رہا ہے، اور ان نیک اعمال کا اجر بتلا رہا ہے۔

اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا سب سے افضل فعل تھا اور اللہ نے قرآن میں اس فعل پر سب سے زیادہ اجر دینے کا وعدہ کیا۔ پھر بدری صحابہ کو ثواب ہے اور پھر بیعت رضوان کے صحابہ کے نیک فعل پر اللہ خوش ہوا۔

مگر اسی قرآن میں، یہی اللہ، انہی صحابہ (ہجرت کرنے والے، بدر اور بیعت رضوان میں حصہ لینے والوں) پر زبردست طریقے سے انکے "برے عمل" پر غضبناک ہوا، اور انہیں شدید سزا کی وعید سنائی۔ یہ آیت دیکھئے:۔


سورۃ توبہ، آیت 38 اور 39:۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿
٣٩﴾
ترجمہ:۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

بیعت رضوان ہوئی تھی 6 یا 7 ہجری میں ۔۔۔۔ جبکہ یہ جنگ موتہ کا واقعہ ہے جو کہ سن 8 ہجری (شوال) یا 9 ہجری میں رسول (ص) کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل پیش آیا، جس میں صحابہ نے ایک "غلط فعل" انجام دیتے ہوئے جنگ میں جاتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کیا۔ اس غلط فعل پر اللہ تعالی کھل کر ان پر غضبناک ہو رہا ہے، اور انہیں انتہائی شدید سزا کی وعید سنا رہا ہے۔

فلاح کا دارومدار نہ صحابیت پر ہے اور نہ ہی اللہ نے کسی کو "پروانہ عام" عطا کیا ہے، بلکہ فلاح کا دارومدار فقط اور فقط نیک اعمال پر ہے، جبکہ غلط اعمال پر تنقید ہے، وعید ہے، گناہ ہے اور عذاب ہے۔ قرآن کے کوئی "ڈبل سٹینڈرڈز" نہیں ہیں، بلکہ قرآن کا فقط ایک سٹینڈرڈ ہے، اور وہ ہے "نیک اعمال پر ثواب، اور برے افعال پر گناہ"۔

اور کبھی صحابہ نے "اجمعین" صحابہ کو "جنتی" نہ جانا، بلکہ انکے بدافعال پر ان پر تنقید کی، مگر صحابہ پرستش میں مبتلا مخالفین حضرات خود کو رسول (ص) اور صحابہ سے بھی بڑھ کر مفسر قرآن سمجھنے لگے اور قرآنی آیات سے کھلواڑ کرتے ہوئے نئے "بدعتی" اور گمراہی سے بھرپور عقیدے گھڑ لیے کہ "صحابیت" اجمعین صحابہ کے لیے فلاح کا پروانہ ہے۔

اور جنت اور باغات اور نہریں ہر "ایمان والے" کے لیے ہیں جو کہ نیک اعمال کرتا ہے، چاہے یہ ایمان والا صحابی نیک عمل کرے، یا پھر ایمان والا آج کا امتی نیک عمل کرے۔


قرآن 32:19:۔
أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ:۔
چنانچہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ان کے لئے دائمی سکونت کے باغات ہیں، (اللہ کی طرف سے ان کی) ضیافت و اِکرام میں اُن (اَعمال) کے بدلے جو وہ کرتے رہے تھے۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
@alibaba - like always your post is full of non plus and ambiguous statements. simple question if Hazrat Ali Radi Allahu Anhu respected the the 3 Caliphs before him, then who gives you (a non entity) any right to abuse them? May be you know better than Ali RA and hence you should be the Imam?
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

کلام الہی ، قران حکیم کی حفاظت اس کے خالق نے خود اٹھا رکھی ہے
رہتی دنیا تک اس میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا
گزشتہ ١٤٠٠ سالوں میں بہت سے لوگوں اور گروہوں نے اپنی کوشش کر لی
کلام رسول ، احادیث کی حفاظت کی ذمہ داری امت اسلامیہ پر ہے
اس کے لئے علم حدیث کے تحت "أسماء الرجال" کا علم ایجاد کیا گیا
آج اور رہتی دنیا تک اس کے علماء موجود رہیں گے
دین اسلام سے متنفر گروہ کی احادیث میں رد و بدل ان
شاء الله کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی


agree with you 100% and because they shia had no argument to the words of Allah, thy came up with the idea of taqayyah and the idea that some imaginary personality has the REAL Quran. only problem is that the birth of that imaginary Imam cannot even be confirmed by their own accounts.
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

لہذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ صحابہ کرام کے احسانات کا حق ادا کرتے ہوئے ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کریں اور ان کے تسامحات کے چٹخارہ دار بیانات سے باز رہیں۔
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


اس فرق کو سمجھئے:

آپ کا نظریہ: فلاح کا دارومدار "صحابیت" پر ہے۔ اگر کسی نے رسول (ص) کو 1 بار دیکھ لیا تو وہ صحابی بن گیا اور اس "صحابیت" کی بنیاد پر "اجمعین صحابہ" پہلے سے ہی فلاح پا چکے ہیں اور جنتی ہیں۔
نوٹ: یہ ایک "بدعتی" عقیدہ ہے جو کہ بعد میں گھڑا گیا۔ خود صحابہ اس بدعتی عقیدے کے قائل نہ تھے اور نہ ہی انکے دور تک کوئی ایسا "اجمعین" کے نام سے عقیدہ موجود تھا۔ اس بدعتی عقیدے کو "صحابہ پرستش" کی بیماری میں مبتلا لوگوں نے بعد میں گھڑا۔

•فلاح کا دارومدار فقط اور فقط "نیک اعمال" پر ہے۔ اسلامی شریعت میں اس اصول میں کسی صحابی یا غیر صحابی کا فرق نہیں۔
• اگر کسی صحابی نے نیک عمل کیا ہے تو اسکی جزا ہے۔ اور اگر اس نے عمل بد کیا ہے، تو اس پر اس صحابی کو گناہ بھی ہے اور عذاب بھی۔
•کچھ افعالِ بد ایسے ہیں جنکی وجہ سے پچھلے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے نبی کے سامنے اپنی آواز اونچی کی، اسکے تمام اعمال برباد ہوئے۔
(القرآن 49:2) اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلندآواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے مومن کا جان بوجھ کر قتل کیا، اس پر "ابدی" عذاب ہے۔
(القرآن 4:93) اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے۔

تاریخ نے ایسوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے رسول (ص) کی آواز پر اپنی آواز بلند کی، رسول (ص) کی بات کو ہذیان کہہ کر قطع کر ڈالا۔ اور تاریخ ان کو بھی بے نقاب کرتی ہے جنہوں نے ذاتی فائدے کے لیے پہلے عثمان ابن عفان پر پانی بند کیا، پھر نعثل و کافر کہا، پھر سازش کر کے قتل کروا ڈالا، پھر خود ہی قتل کروا کر قصاص کے نام پر خلیفہ وقت کے خلاف جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے اور خود خلافت حاصل کرنے کے چکر میں ہزاروں مسلمانوں کو جان بوجھ کر جنگوں میں قتل کروا ڈالا، حالانکہ ان پر حواب کے کتے بھی بھونک رہے تھے، مگر جان بوجھ کر انہوں نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار جھوٹی گواہیاں دلوائیں (حواب کا واقعہ متفق علیہ ہے جہاں ان پر کتے بھونکے اور انہوں نے اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسمیں کھائیں)۔



اللہ کا "ہجرت" کرنے والے سابقون صحابہ، جنگ بدر کے صحابہ، بیعت رضوان کے صحابہ پر غضبناک ہونا اور سزا کی وعید
(سورۃ توبہ، آیت 100) اور مہاجرین اور انصار میں سے جو ایمان لانے میں سبقت کرنے

والے ہیں اور جن لوگوں نے حسنِ عمل میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے۔ اور وہ

اللہ سے راضی ہیں۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے بہشت مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

(القرآن 57:10) تم میں سے جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے اگرچہ اللہ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

ان دونوں آیات میں اللہ تعالی "صحابیت" سے خوش ہونے کا ذکر نہیں کر رہا ہے، بلکہ ققط اور فقط "نیک عمل" پر خوش ہونے کا ذکر کر رہا ہے، اور ان نیک اعمال کا اجر بتلا رہا ہے۔

اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا سب سے افضل فعل تھا اور اللہ نے قرآن میں اس فعل پر سب سے زیادہ اجر دینے کا وعدہ کیا۔ پھر بدری صحابہ کو ثواب ہے اور پھر بیعت رضوان کے صحابہ کے نیک فعل پر اللہ خوش ہوا۔

مگر اسی قرآن میں، یہی اللہ، انہی صحابہ (ہجرت کرنے والے، بدر اور بیعت رضوان میں حصہ لینے والوں) پر زبردست طریقے سے انکے "برے عمل" پر غضبناک ہوا، اور انہیں شدید سزا کی وعید سنائی۔ یہ آیت دیکھئے:۔


سورۃ توبہ، آیت 38 اور 39:۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿
٣٩﴾
ترجمہ:۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

بیعت رضوان ہوئی تھی 6 یا 7 ہجری میں ۔۔۔۔ جبکہ یہ جنگ موتہ کا واقعہ ہے جو کہ سن 8 ہجری (شوال) یا 9 ہجری میں رسول (ص) کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل پیش آیا، جس میں صحابہ نے ایک "غلط فعل" انجام دیتے ہوئے جنگ میں جاتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کیا۔ اس غلط فعل پر اللہ تعالی کھل کر ان پر غضبناک ہو رہا ہے، اور انہیں انتہائی شدید سزا کی وعید سنا رہا ہے۔

فلاح کا دارومدار نہ صحابیت پر ہے اور نہ ہی اللہ نے کسی کو "پروانہ عام" عطا کیا ہے، بلکہ فلاح کا دارومدار فقط اور فقط نیک اعمال پر ہے، جبکہ غلط اعمال پر تنقید ہے، وعید ہے، گناہ ہے اور عذاب ہے۔ قرآن کے کوئی "ڈبل سٹینڈرڈز" نہیں ہیں، بلکہ قرآن کا فقط ایک سٹینڈرڈ ہے، اور وہ ہے "نیک اعمال پر ثواب، اور برے افعال پر گناہ"۔

اور کبھی صحابہ نے "اجمعین" صحابہ کو "جنتی" نہ جانا، بلکہ انکے بدافعال پر ان پر تنقید کی، مگر صحابہ پرستش میں مبتلا مخالفین حضرات خود کو رسول (ص) اور صحابہ سے بھی بڑھ کر مفسر قرآن سمجھنے لگے اور قرآنی آیات سے کھلواڑ کرتے ہوئے نئے "بدعتی" اور گمراہی سے بھرپور عقیدے گھڑ لیے کہ "صحابیت" اجمعین صحابہ کے لیے فلاح کا پروانہ ہے۔

اور جنت اور باغات اور نہریں ہر "ایمان والے" کے لیے ہیں جو کہ نیک اعمال کرتا ہے، چاہے یہ ایمان والا صحابی نیک عمل کرے، یا پھر ایمان والا آج کا امتی نیک عمل کرے۔


قرآن 32:19:۔
أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ:۔
چنانچہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ان کے لئے دائمی سکونت کے باغات ہیں، (اللہ کی طرف سے ان کی) ضیافت و اِکرام میں اُن (اَعمال) کے بدلے جو وہ کرتے رہے تھے۔


میرا خیال ہے آپ لوگ اپنی فسادی سوچ سے باز نہیں آؤ گے ، میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ اس فسادی روش کو چھوڑ کر مثبت بات کیا کرو، یہ اختیار کا فیصلہ آپ لوگوں کے پاس کب سے آ گیا ، تم لوگ تو خود عمل نہیں کرتے ، دوسروں کو کیسے قائل کر سکتے ہو . اس میں جتنے قران کے حوالے دے گئے ہیں ،ان پر خود کتنا عمل کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ فرقہ وارانہ سوچ گمراہی ہے اور الله کے اس فرمان کی نفی کہ فرقوں میں مت پڑو ، آپ لوگ خوف خدا کرو
اڈمن! انتباہ کے باوجود یہ صاحب آغاز کرنے والے ہیں تا کہ یہ لوگ فرقہ واریت کا زہر مزید گھولیں ، ایسے افراد کا نوٹس لیا جائے

 

alibaba007

Banned
@alibaba - like always your post is full of non plus and ambiguous statements. simple question if Hazrat Ali Radi Allahu Anhu respected the the 3 Caliphs before him, then who gives you (a non entity) any right to abuse them? May be you know better than Ali RA and hence you should be the Imam?

تیری گھڑنتو کہانیاں نہیں چلیں گی
یہ دیکھ جن صحابہ کا تو قصیدہ پڑھ رہا ہے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرہ صلواۃ اللہ علیہہ ناراض اور غضبناک ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں اور مولا علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ وہ صحابہ ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوں

5uXOCGC.jpg


 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
کسی بھی مسلمان کے لئے انبیاء کے بعد اس سر زمین پر سب سے مقدس ہستیاں اصحاب رسول کی ہیں
ہماری حیثیت ان کی جوتیوں کے خاک کے برابر بھی نہیں
یہاں ہم اپنے ان محترم ہستیوں کی عظمت بیان کر رہے ہیں

اس فورم پر یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ جب بھی کسی مذہبی موضوع پر بات شروع کی جاتی ہیں چند ذہنی مفلوج حضرات اپنی تمام تر نفرتوں اور خباثت کے ساتھ آ دھمکتے ہیں اور موضوع کو دوسری طرف لے جاتے ہیں

اس فورم کے منتظمین حضرات سے گزارش ہیں کہ یہاں موجود ایسے شرپسندوں کو پٹا ڈالا جاۓ
ہمارے دین میں کوئی اختلافی معاملات نہیں ہیں جن پر بحث جاۓ
دینی موضوعات اور مسایل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور معلومات کی ایک دوسروں کے ساتھ کی فراہمی مقصود ہوتا ہے
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)


اس فرق کو سمجھئے:

آپ کا نظریہ: فلاح کا دارومدار "صحابیت" پر ہے۔ اگر کسی نے رسول (ص) کو 1 بار دیکھ لیا تو وہ صحابی بن گیا اور اس "صحابیت" کی بنیاد پر "اجمعین صحابہ" پہلے سے ہی فلاح پا چکے ہیں اور جنتی ہیں۔
نوٹ: یہ ایک "بدعتی" عقیدہ ہے جو کہ بعد میں گھڑا گیا۔ خود صحابہ اس بدعتی عقیدے کے قائل نہ تھے اور نہ ہی انکے دور تک کوئی ایسا "اجمعین" کے نام سے عقیدہ موجود تھا۔ اس بدعتی عقیدے کو "صحابہ پرستش" کی بیماری میں مبتلا لوگوں نے بعد میں گھڑا۔

•فلاح کا دارومدار فقط اور فقط "نیک اعمال" پر ہے۔ اسلامی شریعت میں اس اصول میں کسی صحابی یا غیر صحابی کا فرق نہیں۔
• اگر کسی صحابی نے نیک عمل کیا ہے تو اسکی جزا ہے۔ اور اگر اس نے عمل بد کیا ہے، تو اس پر اس صحابی کو گناہ بھی ہے اور عذاب بھی۔
•کچھ افعالِ بد ایسے ہیں جنکی وجہ سے پچھلے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے نبی کے سامنے اپنی آواز اونچی کی، اسکے تمام اعمال برباد ہوئے۔
(القرآن 49:2) اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلندآواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

قرآن کہتا ہے کہ جس نے مومن کا جان بوجھ کر قتل کیا، اس پر "ابدی" عذاب ہے۔
(القرآن 4:93) اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے۔

تاریخ نے ایسوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے رسول (ص) کی آواز پر اپنی آواز بلند کی، رسول (ص) کی بات کو ہذیان کہہ کر قطع کر ڈالا۔ اور تاریخ ان کو بھی بے نقاب کرتی ہے جنہوں نے ذاتی فائدے کے لیے پہلے عثمان ابن عفان پر پانی بند کیا، پھر نعثل و کافر کہا، پھر سازش کر کے قتل کروا ڈالا، پھر خود ہی قتل کروا کر قصاص کے نام پر خلیفہ وقت کے خلاف جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے اور خود خلافت حاصل کرنے کے چکر میں ہزاروں مسلمانوں کو جان بوجھ کر جنگوں میں قتل کروا ڈالا، حالانکہ ان پر حواب کے کتے بھی بھونک رہے تھے، مگر جان بوجھ کر انہوں نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار جھوٹی گواہیاں دلوائیں (حواب کا واقعہ متفق علیہ ہے جہاں ان پر کتے بھونکے اور انہوں نے اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسمیں کھائیں)۔



اللہ کا "ہجرت" کرنے والے سابقون صحابہ، جنگ بدر کے صحابہ، بیعت رضوان کے صحابہ پر غضبناک ہونا اور سزا کی وعید
(سورۃ توبہ، آیت 100) اور مہاجرین اور انصار میں سے جو ایمان لانے میں سبقت کرنے

والے ہیں اور جن لوگوں نے حسنِ عمل میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے۔ اور وہ

اللہ سے راضی ہیں۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے بہشت مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

(القرآن 57:10) تم میں سے جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے اگرچہ اللہ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

ان دونوں آیات میں اللہ تعالی "صحابیت" سے خوش ہونے کا ذکر نہیں کر رہا ہے، بلکہ ققط اور فقط "نیک عمل" پر خوش ہونے کا ذکر کر رہا ہے، اور ان نیک اعمال کا اجر بتلا رہا ہے۔

اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا سب سے افضل فعل تھا اور اللہ نے قرآن میں اس فعل پر سب سے زیادہ اجر دینے کا وعدہ کیا۔ پھر بدری صحابہ کو ثواب ہے اور پھر بیعت رضوان کے صحابہ کے نیک فعل پر اللہ خوش ہوا۔

مگر اسی قرآن میں، یہی اللہ، انہی صحابہ (ہجرت کرنے والے، بدر اور بیعت رضوان میں حصہ لینے والوں) پر زبردست طریقے سے انکے "برے عمل" پر غضبناک ہوا، اور انہیں شدید سزا کی وعید سنائی۔ یہ آیت دیکھئے:۔


سورۃ توبہ، آیت 38 اور 39:۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿
٣٩﴾
ترجمہ:۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

بیعت رضوان ہوئی تھی 6 یا 7 ہجری میں ۔۔۔۔ جبکہ یہ جنگ موتہ کا واقعہ ہے جو کہ سن 8 ہجری (شوال) یا 9 ہجری میں رسول (ص) کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل پیش آیا، جس میں صحابہ نے ایک "غلط فعل" انجام دیتے ہوئے جنگ میں جاتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کیا۔ اس غلط فعل پر اللہ تعالی کھل کر ان پر غضبناک ہو رہا ہے، اور انہیں انتہائی شدید سزا کی وعید سنا رہا ہے۔

فلاح کا دارومدار نہ صحابیت پر ہے اور نہ ہی اللہ نے کسی کو "پروانہ عام" عطا کیا ہے، بلکہ فلاح کا دارومدار فقط اور فقط نیک اعمال پر ہے، جبکہ غلط اعمال پر تنقید ہے، وعید ہے، گناہ ہے اور عذاب ہے۔ قرآن کے کوئی "ڈبل سٹینڈرڈز" نہیں ہیں، بلکہ قرآن کا فقط ایک سٹینڈرڈ ہے، اور وہ ہے "نیک اعمال پر ثواب، اور برے افعال پر گناہ"۔

اور کبھی صحابہ نے "اجمعین" صحابہ کو "جنتی" نہ جانا، بلکہ انکے بدافعال پر ان پر تنقید کی، مگر صحابہ پرستش میں مبتلا مخالفین حضرات خود کو رسول (ص) اور صحابہ سے بھی بڑھ کر مفسر قرآن سمجھنے لگے اور قرآنی آیات سے کھلواڑ کرتے ہوئے نئے "بدعتی" اور گمراہی سے بھرپور عقیدے گھڑ لیے کہ "صحابیت" اجمعین صحابہ کے لیے فلاح کا پروانہ ہے۔

اور جنت اور باغات اور نہریں ہر "ایمان والے" کے لیے ہیں جو کہ نیک اعمال کرتا ہے، چاہے یہ ایمان والا صحابی نیک عمل کرے، یا پھر ایمان والا آج کا امتی نیک عمل کرے۔


قرآن 32:19:۔
أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ:۔
چنانچہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ان کے لئے دائمی سکونت کے باغات ہیں، (اللہ کی طرف سے ان کی) ضیافت و اِکرام میں اُن (اَعمال) کے بدلے جو وہ کرتے رہے تھے۔

اصحابِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر والا وشیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق معصومیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور انبیاء کرام کے سوا کسی کو معصوم نہیں بنایا۔
بےشک اس مقدس گروہ کے چند صحابہ کرام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد چند تسامحات بھی ہوئے ۔۔۔
لیکن ان تسامحات کی حیثیت ان کی نیکیوں کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے پہاڑوں کے مقابلے میں ریت کے چند ذرات اور سیلاب کے مقابلے میں بارش کے چند قطرات !!
 

alibaba007

Banned

میرا خیال ہے آپ لوگ اپنی فسادی سوچ سے باز نہیں آؤ گے ، میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ اس فسادی روش کو چھوڑ کر مثبت بات کیا کرو، یہ اختیار کا فیصلہ آپ لوگوں کے پاس کب سے آ گیا ، تم لوگ تو خود عمل نہیں کرتے ، دوسروں کو کیسے قائل کر سکتے ہو . اس میں جتنے قران کے حوالے دے گئے ہیں ،ان پر خود کتنا عمل کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ فرقہ وارانہ سوچ گمراہی ہے اور الله کے اس فرمان کی نفی کہ فرقوں میں مت پڑو ، آپ لوگ خوف خدا کرو
اڈمن! انتباہ کے باوجود یہ صاحب آغاز کرنے والے ہیں تا کہ یہ لوگ فرقہ واریت کا زہر مزید گھولیں ، ایسے افراد کا نوٹس لیا جائے




چوھدری صاحب جواب نہیں سبحان اللہ اب آیات قرانی اور ان سے فیض بھی آپ کی نظر میں فساد اور فرقہ واریت ہو گئی اور آپ نےکب سے نعوذ بااللہ خدائی اختیا ر ہاتھوں میں لے کر دوسروں کے عمل کا حساب ما نگنا شروع کردیا
ہاں، ہاں اب پکارئیے ماڈریٹر اور ایڈمن کو
المدد،المدد یا موڈریٹر المدد

المدد،المدد یا ایڈمن المدد
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)


آپ بھائیوں سے درخواست ہے کہ ان خبیث شر انگیزیاں پھیلانے والے را افضیوں کو نظر انداز کریں اور جواب نہ دیں
یہ موضوع کو دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں
اگر فورم کے منتظمین حضرات انہیں پٹا نہیں ڈال رہے تو ان کے مقصد کو آگے نہ بڑھائیں
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


چوھدری صاحب جواب نہیں سبحان اللہ اب آیات قرانی اور ان سے فیض بھی آپ کی نظر میں فساد اور فرقہ واریت ہو گئی اور آپ نےکب سے نعوذ بااللہ خدائی اختیا ر ہاتھوں میں لے کر دوسروں کے عمل کا حساب ما نگنا شروع کردیا
ہاں، ہاں اب پکارئیے ماڈریٹر اور ایڈمن کو
المدد،المدد یا موڈریٹر المدد

[/right]
المدد،المدد یا ایڈمن المدد

آپ نے اپنی فسادی نیت کا بخوبی اظہار کر دیا ہے
قرآن عمل کے لئے ہے حوالوں کے لئے نہیں ،آپ لوگ الله کے ہاں پھر اپنا جواب تیار رکھیں
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بھوک اور پریشانی کی حالت کی اطلاع دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے حجروں پر معلوم کرایا کہ کسی کے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ معلوم ہوا کہ کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ اکرام سے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں مہمانی کروں گا، ان کو گھر لے گئے۔

گھر جا کر اپنی بی بی سے فرمایا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ ان کے اکرام میں کوئی کسر نہ رہے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم بچوں کو بہلا کر سُلا دو اور جب سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے سامنے بیٹھ جاویں گے اور تُو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اسے بُجھا دینا تا کہ مہمان یہ نہ دیکھے کہ ہم نہیں کھا رہے کیونکہ اگر اس کو معلوم ہو گیا کہ ہم نہیں کھا رہے تو وہ اصرار کرے گا کہ ہم بھی ساتھ کھائیں۔ اس طرح پھر وہ بھوکا رہ جائے گا۔

چنانچہ بیوی نے بچوں کو بہلا کر سُلا دیا اور یہ کھانا کھانے بیٹھے اور بیوی نے چراغ درست کرنے کے بہانے سے چراغ بجھا دیا اور سارا کھانا مہمان کو ہی کھلا دیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گزاری۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس ایثار پر اللہ تعالٰی بڑا راضی ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ:
اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انھیں شدید محتاجی ہو
(قرآن کریم پارہ: ۲۸ ع ۴)
(خزائن العرفان ص ۷۷۰، روح البیان ص ۲۸۹ جلد ۴)

سبحان اللہ! حضور کے صحابہ کی شان ہی نرالی ہے۔ ان کے ایثار و قربانی کے جذبے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے ان کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ اور اب تو دور یہاں تک پہنچ گیا کہ ہم مہمان کے آنے تک کو اچھا خیال نہیں کرتے کہ آ کر ہم پر بوجھ بن جائے گا۔