اوریا مقبول جان کو سیکولرازم کی نفرت میں حقائق نظر آنا بند ہو چکے ہیں۔
۔1۔ اسرائیل کا آئین توریت ہے ۔۔۔۔ مگر اسرائیلی ریاست میں قوانین ساڑھے تین ہزار پرانی توریت کے مطابق نہیں ہیں۔۔۔ اور بہت بہت شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے، وگرنہ وہاں بھی صدیوں پرانے ظالمانہ قوانین جوں کے توں نافذ ہو جاتے جنکی آجکی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
۔2۔ پاکستانی آئین کے حوالے سے بھی یہ اوریا مقبول جان کا دھوکا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے آئین کی بنیاد قرآن و سنت ہی قرار دی گئی ہے۔ مگر مسئلہ ہے کہ آجکے دور اور 1400 سالہ پرانے دور میں بہت فرق آ چکا ہے۔
چنانچہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے خلاف نہیں بلکہ آج کے حالات کے چیلنجز سے نپٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
مگر بہت مشکل ہے کہ یہ چھوٹی سی بات مذہب کے نام پر اندھے پن کا شکار لوگوں کو سمجھ آ سکے۔
پاکستان کا آئین ایک چھوٹی سے دستاویز ہے جو کسی طرح بھی قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہے۔ اسکی جزئیات یہ ہیں:۔
Text of the Constitution of Pakistan
- Preamble
- Part I: Introductory [Articles 1-6]
- Part II: Fundamental Rights and Principles of Policy [Articles 7-40]
- Chapter 1: Fundamental Rights [Articles 8-28]
- Chapter 2: Principles of Policy [Articles 29-40]
- Part III: The Federation of Pakistan [Articles 41-100]
- Chapter 1: The President [Articles 41-49]
- Chapter 2: Majlis-e-Shoora (Parliament) [Articles 50-89]
- Chapter 3: The Federal Government [Articles 90-100]
- Part IV: Provinces [Articles 101-140A]
- Chapter 1: The Governors [Articles 101-105]
- Chapter 2: Provincial Assemblies [Articles 106-128]
- Chapter 3: The Provincial Governments [Articles 129-140A]
- Part V: Relations between Federation and Provinces [Articles 141-159]
- Chapter 1: Distribution of Legislative Powers [Articles 141-144]
- Chapter 2: Administrative Relations between the Federation and Provinces [Articles 145-152]
- Chapter 3: Special Provisions [Articles 153-159]
- Part VI: Finance, Property, Contracts and Suits [Articles 160-174]
- Chapter 1: Finance [Articles 160-165A]
- Chapter 2: Borrowing and Audit [Articles 166-171]
- Chapter 3: Property, Contracts, Liabilities and Suits [Articles 172-174]
- Part VII: The Judicature [Articles 175-212]
- Chapter 1: The Courts [Articles 175-175A]
- Chapter 2: The Supreme Court of Pakistan [Articles 176-191]
- Chapter 3: The High Courts [Articles 192-203]
- Chapter 3A: Federal Shariat Court [Articles 203A-203J]
- Chapter 4: General Provisions Relating to the Judicature [Articles 204-212]
- Part VIII: Elections [Articles 213-226]
- Chapter 1: Chief Election Commissioner and Elections Commissions [Articles 213-221]
- Chapter 2: Electoral Laws and Conduct of Elections [Articles 222-226]
- Part IX: Islamic Provisions [Articles 227-231]
- Part X: Emergency Provisions [Articles 232-237]
- Part XI: Amendment of Constitution [Articles 238-239]
- Part XII: Miscellaneous [Articles 240-280]
- Chapter 1: Services [Articles 240-242]
- Chapter 2: Armed Forces [Articles 243-245]
- Chapter 3: Tribal Areas [Articles 246-247]
- Chapter 4: General [Articles 248-259]
- Chapter 5: Interpretation [Articles 260-264]
- Chapter 6: Title, Commencement and Repeal [Articles 265-266]
- Chapter 7: Transitional [Articles 267-280]
- Annex
- Schedules
آج سے 1400 سال پہلے ریاست کے تصورات ایسے موجود ہی نہیں تھے جیسے کہ آج موجود ہیں، جہاں انتخابات ہوتے ہیں، جہاں اسمبلیاں چننی جاتی ہیں، جہاں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے ۔ ان چیلنجز سے نپٹنے کے لیے آئین بنایا گیا ہے تاکہ ہر کوئی اپنے متعین کردہ دائرہ کار میں کام کرے اور ریاستی اداروں میں تصادم اور ٹکراؤ نہ ہو۔۔۔۔ جہاں ملٹری فورسز کو علم ہو کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہیں انکے حاکم نہیں ۔۔۔ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ کا ٹکراؤ نہ ہو اور انتظامیہ عدلیہ کے تحت ہو۔
جبکہ 1400 سال پہلے کا خلافت راشدہ کا نظام تباہ کاری کا شکار ہوا ۔ کیوں؟
اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی باقاعدہ آئین موجود نہ تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں 4 خلفاء آئے اور ہرایک کے انتخاب کے وقت مشکلات پیدا ہوئیں، اور 3 کی خلافت میں تو بات لڑائی تک پہنچ گئی۔
ہر خلیفہ الگ الگ طریقے سے منتخب کیا گیا، اور ہر ایک نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق ریاست کو چلایا کیونکہ کوئی باقاعدہ آئین موجود نہیں تھا۔
خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے تمام صوبوں پر فائز کبار صحابہ کو بطور گورنر معزول کیا، اور پھر اپنے خاندان بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو بطور گورنر تعینات کر دیا۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکا کیونکہ ریاست کا کوئی باقاعدہ آئین نہیں تھا۔
اسکے بعد علی ابن ابی طالب کے خلاف معاویہ ابن ابی سفیان اور جناب عائشہ نے جو خروج کیا اور 1 لاکھ سے اوپر مسلمانوں کا خون جو ایک دوسرے کے ہاتھوں بہا، اسکی وجہ بھی یہ تھی کہ کوئی آئین موجود نہیں تھا جو کہ ان خروج کرنے والے گروہوں کو روکتا۔
اوریا مقبول جان کو سیکولرازم کی نفرت میں حقائق نظر آنا بند ہو چکے ہیں۔
Bibi aap khud apni tehrir mey ulji hoi nazar aa rahi ho aap ki tehrir say bughaz bhi saaf dikh raha hai.... aap ka sara zor 1400 saal pehlay k muaashray par hai or saath aaj k dor ki misaal bhi daiti hain mujay bata dai koan manay gha islamic qanoon Altaf bhai. Nawaz. Zardari. Chalo in ko chorrtay hain kya hum khud oss pai amal kernay ko tayyar hain. Hum shia sunni wahabi brelvi ki khurafat mey parray howay loag hai hamara har kaam ulta hai or hum aaj k dorr mey beth k Rasool or Ashaabay Rasool mey burraiyan dhondhtay hain. Quran kehta hai Islam mey pooray dakhil ho jaon or hum aaj k dor k yahoodi hai jo kehtay hai k mujay ye hissa passand hai mei is pay amal karon gha. Baat zehan mey rakhna lafz Islam use kiya hai not shia ya sunni ya deoband ya wahabi ya brelvi. Allah hum sub ko hiddayat daiy ameen
آئیں میں قرارداد مقاصد بھی ہے اور صدر کے پاس قتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار بھیمیرے خیال میں تو پاکستانی اس معاملے میں یہود سے زیادہ سمارٹ اور محتاط نکلے ھیں، خود کو تورات سے منسلک کر کے یہودی ریاست اپنے تمام ظالمانہ اقدامات کے لیے نہ صرف عالمی پیمانے پر مذمت کی حقدار بنتی ھے بلکہ اندرون،ملک بھی ان اقدامات کے خود بخود غیر دستوری ھونے پر مہرِ تصدیق لگاےؑ جاتی ھے، ھم پاکستانیوں نے جس طرح حرف کی حرمت کو نیلام کیا ھے، اتنا تو ھے کہ قرآن مجید کروڑوں منافقوں کی جاھلانہ سوچوں سے بری الزمہ ھے، لے دے کے ایک قراردادِ مقاصد ھے جس کا منہ ھم چڑاتے رھتے ھیں
لے بهئی تُو تو گئی دعا هے اللہ تجهے ہدائیت دے اور تیرے شک دور کرے
شکریہ۔
میرے نزدیک یہاں مسئلہ شیعہ سنی وہابی بریلوی وغیرہ کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ سیکولرازم اور مذہب کے ٹکراؤ کا ہے۔
میں صاف طور پر سیکولر سٹیٹ کو آجکے حالات میں فوقیت دیتی ہوں، جس میں دین ایک پرائیویٹ مسئلہ ہے اور ہر ایک کو اپنے مذہب کی پیروی کا حق ہے۔
نیز تحقیق و غور و فکر کے بعد میرے ذہن میں مذہب کے اوپر کئی شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔
مجھے صاف طور پر مذہب اور انسانیت کا ٹکراؤ نظر آتا ہے۔
مجھے صاف طور پر مذہب اور سائنس کا بھی ٹکراؤ نظر آتا ہے۔
میں کسی دین کی فقط اس وجہ سے پیروی نہیں کرنا چاہتی کہ میں نے اپنے باپ دادا کو اس دین پر چلتے دیکھا ہے۔ نہیں، بلکہ دین پر دل سے مطمئین ہوئے اور دل سے ایمان لائے بغیر اسکی پیروی فقط منافقت کہلائے گی۔
اسرائیل کا آئین تورات ہے
مگر تورات ہے کہاں یہ کم سے کم مجھے تو نہیں پتا
اگر کسی کو پتا ہو تو براۓ کرم مجھ کو بتا دے شاید کبھی میں بھی دو چار لائن ہی پڑھ لو
آئیں میں قرارداد مقاصد بھی ہے اور صدر کے پاس قتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار بھی
دانشور پھر بھی پھٹے جوتے کی طرح منہ پھاڑ کر فرماتے ہیں. "پاکستان کا آئین ایک چھوٹی سے دستاویز ہے جو کسی طرح بھی قرآن و
"سنت سے متصادم نہیں ہے
انہی دانشوروں کے یہ اعتراض بھی ہوتا ہے کے تحفظ ناموس رسالت کر قانون شریعت کے خلاف ہے
اسرائیل کا آئین تورات ہے
مگر تورات ہے کہاں یہ کم سے کم مجھے تو نہیں پتا
اگر کسی کو پتا ہو تو براۓ کرم مجھ کو بتا دے شاید کبھی میں بھی دو چار لائن ہی پڑھ لو
لے بهئی تُو تو گئی دعا هے اللہ تجهے ہدائیت دے اور تیرے شک دور کرے
اوریا مقبول جان کو سیکولرازم کی نفرت میں حقائق نظر آنا بند ہو چکے ہیں۔
۔1۔ اسرائیل کا آئین توریت ہے ۔۔۔۔ مگر اسرائیلی ریاست میں قوانین ساڑھے تین ہزار پرانی توریت کے مطابق نہیں ہیں۔۔۔ اور بہت بہت شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے، وگرنہ وہاں بھی صدیوں پرانے ظالمانہ قوانین جوں کے توں نافذ ہو جاتے جنکی آجکی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
۔2۔ پاکستانی آئین کے حوالے سے بھی یہ اوریا مقبول جان کا دھوکا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے آئین کی بنیاد قرآن و سنت ہی قرار دی گئی ہے۔ مگر مسئلہ ہے کہ آجکے دور اور 1400 سالہ پرانے دور میں بہت فرق آ چکا ہے۔
چنانچہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے خلاف نہیں بلکہ آج کے حالات کے چیلنجز سے نپٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
مگر بہت مشکل ہے کہ یہ چھوٹی سی بات مذہب کے نام پر اندھے پن کا شکار لوگوں کو سمجھ آ سکے۔
پاکستان کا آئین ایک چھوٹی سے دستاویز ہے جو کسی طرح بھی قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہے۔ اسکی جزئیات یہ ہیں:۔
Text of the Constitution of Pakistan
- Preamble
- Part I: Introductory [Articles 1-6]
- Part II: Fundamental Rights and Principles of Policy [Articles 7-40]
- Chapter 1: Fundamental Rights [Articles 8-28]
- Chapter 2: Principles of Policy [Articles 29-40]
- Part III: The Federation of Pakistan [Articles 41-100]
- Chapter 1: The President [Articles 41-49]
- Chapter 2: Majlis-e-Shoora (Parliament) [Articles 50-89]
- Chapter 3: The Federal Government [Articles 90-100]
- Part IV: Provinces [Articles 101-140A]
- Chapter 1: The Governors [Articles 101-105]
- Chapter 2: Provincial Assemblies [Articles 106-128]
- Chapter 3: The Provincial Governments [Articles 129-140A]
- Part V: Relations between Federation and Provinces [Articles 141-159]
- Chapter 1: Distribution of Legislative Powers [Articles 141-144]
- Chapter 2: Administrative Relations between the Federation and Provinces [Articles 145-152]
- Chapter 3: Special Provisions [Articles 153-159]
- Part VI: Finance, Property, Contracts and Suits [Articles 160-174]
- Chapter 1: Finance [Articles 160-165A]
- Chapter 2: Borrowing and Audit [Articles 166-171]
- Chapter 3: Property, Contracts, Liabilities and Suits [Articles 172-174]
- Part VII: The Judicature [Articles 175-212]
- Chapter 1: The Courts [Articles 175-175A]
- Chapter 2: The Supreme Court of Pakistan [Articles 176-191]
- Chapter 3: The High Courts [Articles 192-203]
- Chapter 3A: Federal Shariat Court [Articles 203A-203J]
- Chapter 4: General Provisions Relating to the Judicature [Articles 204-212]
- Part VIII: Elections [Articles 213-226]
- Chapter 1: Chief Election Commissioner and Elections Commissions [Articles 213-221]
- Chapter 2: Electoral Laws and Conduct of Elections [Articles 222-226]
- Part IX: Islamic Provisions [Articles 227-231]
- Part X: Emergency Provisions [Articles 232-237]
- Part XI: Amendment of Constitution [Articles 238-239]
- Part XII: Miscellaneous [Articles 240-280]
- Chapter 1: Services [Articles 240-242]
- Chapter 2: Armed Forces [Articles 243-245]
- Chapter 3: Tribal Areas [Articles 246-247]
- Chapter 4: General [Articles 248-259]
- Chapter 5: Interpretation [Articles 260-264]
- Chapter 6: Title, Commencement and Repeal [Articles 265-266]
- Chapter 7: Transitional [Articles 267-280]
- Annex
- Schedules
آج سے 1400 سال پہلے ریاست کے تصورات ایسے موجود ہی نہیں تھے جیسے کہ آج موجود ہیں، جہاں انتخابات ہوتے ہیں، جہاں اسمبلیاں چننی جاتی ہیں، جہاں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے ۔ ان چیلنجز سے نپٹنے کے لیے آئین بنایا گیا ہے تاکہ ہر کوئی اپنے متعین کردہ دائرہ کار میں کام کرے اور ریاستی اداروں میں تصادم اور ٹکراؤ نہ ہو۔۔۔۔ جہاں ملٹری فورسز کو علم ہو کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہیں انکے حاکم نہیں ۔۔۔ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ کا ٹکراؤ نہ ہو اور انتظامیہ عدلیہ کے تحت ہو۔
جبکہ 1400 سال پہلے کا خلافت راشدہ کا نظام تباہ کاری کا شکار ہوا ۔ کیوں؟
اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی باقاعدہ آئین موجود نہ تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں 4 خلفاء آئے اور ہرایک کے انتخاب کے وقت مشکلات پیدا ہوئیں، اور 3 کی خلافت میں تو بات لڑائی تک پہنچ گئی۔
ہر خلیفہ الگ الگ طریقے سے منتخب کیا گیا، اور ہر ایک نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق ریاست کو چلایا کیونکہ کوئی باقاعدہ آئین موجود نہیں تھا۔
خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے تمام صوبوں پر فائز کبار صحابہ کو بطور گورنر معزول کیا، اور پھر اپنے خاندان بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو بطور گورنر تعینات کر دیا۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکا کیونکہ ریاست کا کوئی باقاعدہ آئین نہیں تھا۔
اسکے بعد علی ابن ابی طالب کے خلاف معاویہ ابن ابی سفیان اور جناب عائشہ نے جو خروج کیا اور 1 لاکھ سے اوپر مسلمانوں کا خون جو ایک دوسرے کے ہاتھوں بہا، اسکی وجہ بھی یہ تھی کہ کوئی آئین موجود نہیں تھا جو کہ ان خروج کرنے والے گروہوں کو روکتا۔
سیکولر برطانیہ میں "جمود" نہیں
سیکولرازم امریکہ میں بھی رائج ہے اور دنیا کے 99 فیصد سیکولرازم والے ممالک میں شائد تحریری آئین ہی موجود ہے۔
مگر فقط سیکولرازم کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اوریا مقبول جان نے برطانیہ کی 16ویں صدی کو پکڑ لیا اور سیکولرازم کو بدنام کرنے لگا۔ کیا یہ انصاف ہے؟
اور آج کے سیکولر برطانیہ میں "مذہب" کی طرح جمود نہیں ہے اور وہاں سولہویں صدی کا آئین نافذ نہیں ہو رہا۔
جبکہ مذہب کی جمود کی حالت یہ ہے کہ آج بھی زنا بالجبر کے کیسز میں خواتین سے 4 عینی گواہ طلب کیے جا رہے ہوتے ہیں، آج بھی ہر جرم کے لیے خوفناک جسمانی سزائیں تجویز کی جا رہی ہوتی ہیں۔
اسلام میں تمام جسمانی سزائیں اس لیے تھیں کیونکہ عرب میں جیل خانےنہیں ہوتے تھے
اسلام کے وقت عرب کے جاہل معاشرے میں باقاعدہ قید خانے نہیں تھے۔ اس لیے اسلام میں سزاوؤں کے تصور یہ نہیں آیا کہ جرم کی سزا میں مجرم کو 1 یا 2 سال کے لیے جیل خانے میں بھیج دو۔
نہیں، بلکہ اسلام نے اس وقت کے جاہل عرب معاشرے کے مطابق سیدھا سیدھا ہر جرم کی سزا جسمانی کوڑے، جسمانی ہاتھ کاٹ دینا، جسمانی سنگسار، جسمانی قتل کر دیا ۔۔۔۔ یا پھر دیت کے نام پر پیسے کو بطور سزا متعین کر دیا۔
مثلاً چوری کی حد اسلام نے سیدھی سیدھی ہاتھ کاٹ دینا مقرر کر دی۔ ایسا نہ کیا گیا کہ جیل میں ڈال کر مجرم کو اپنی اصلاح کا موقع دیا گیا ہو۔
اسی طرح زنا ہو یا تہمت زنا، یا ڈاکے کی، یا پھر شراب خوری وغیرہ کی۔۔۔۔ ان تمام حدود میں کوڑوں یا ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کی جسمانی سزائیں رکھی گئیں۔
اس حوالے سے مذہب اور مذہبی ریاست میں مکمل جمود موجود ہے اور وہی 1400 سالہ پرانی ظالمانہ سزائیں جاری ہیں۔
ہاں جسمانی جرائم (قتل کرنے وغیرہ میں) میں تو سزائیں پھر بھی جسمانی دی جا سکتی ہیں۔ مگر غیر جسمانی جرائم (چوری، شراب خوری، زنا ) وغیرہ میں جسمانی سزاوؤں کوہر صورت میں قید میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ مگر ایک مذہبی ریاست اپنے جمود کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے۔
شکریہ۔
مگر دعا کی نہیں بلکہ کسی چیز کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے "دلیل" کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ مجھے مسلمانوں کی طرف سے ملتی نہیں۔
میں اپنی کچھ گذارشات یہاں پیش کر چکی ہوں
اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ
اسلام اور انسایت کا ٹکراؤ
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|