ویسے اس مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا ہے اس کو خوش فہمی ہے کہ یہ لیڈر بن چکا ہے اور اب زرداری یا نواز شریف اس سے ملنے اسکی کے پاؤں پڑیں گے کہ ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ اس بھگوڑے سے کوئی پوچھے اگر یہ دونوں پارٹیاں اسکو اپنئ پارٹی میں شامل کرلیں تو اسکے پاس انکو دینے کے لئے کیا ہے سوائے بیان بازی کے اور پارٹیاں اسکو لفٹ کراتی ہیں جو الیکٹبل ہوں جنکا کوئی مستقل آبائی حلقہ ہو اپنا زاتی ووٹر ہواس ووٹ بینک کے ساتھ پارٹی کے ووٹ مل کر الیکشن پر اثر ڈالتے ہیں لیکن پیراشوٹ سے آئے ہوئے لیڈر جسکا نا کوئی حلقہ ہو نا ہی ووٹ بینک اسکو پارٹی ورکر یا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے پارٹیاں لے تو لیتی ہیں لیکن بس ٹی وی پر آنے کے لئے کیونکہ جب ایسے بندے کو ٹکٹ دینے کا معاملہ آتا ہے تو جو پرانے پارٹی عہدیدار یا ورکرز یا وزرا یا پارلیمٹئرین ہوں جو چالیس پچاس سال سے یا کم ازکم ایک سابقہ الیکشن سے پارٹی کے ساتھ وہ پارٹی انکو نظر انداز کرکے اور نئی آنے والے نان الیکٹبل کو ٹکٹ دیکر اپنئ ہی پارٹی کے لوگوں کو ناراض نہیں کرتی اس لئے یہ بھگوڑا برائے فروخت کا بورڈ لگا کر جو چورن بیچنے کی کوشش کر رہا ہے وہ پیپلز پارٹی یا نون لیگ تو نہیں خریدنے والی ہاں البتہ لبیک یا جے یو آئی یا ایم کیو ایم جیسی پارٹی میں شامل ہوجاؤ تو چند ہزار ووٹ لے سکو گے ورنہ تو چند سو بھی نہیں ملیں گے اودھ نا ہی اس برائے فروخت کی گلے میں ڈالی ہوئی تختی کا کوئی فائدہ ہوگا