ازواج مطہرات ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی

Status
Not open for further replies.

ابابیل

Senator (1k+ posts)
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔

عائشہ نام، صدیقہ اور حمیرا لقب، ام عبداللہ کنیت، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی ہیں۔ ماں کا نام زینب تھا، ام رومان کنیت تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بعثت کے بار سال بعد شوال کے مہینہ میں پیدا ہوئیں، صدیق اکبر کا کاشانہ وہ برج سعادت تھا، جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پرتوفگن ہوئیں، اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں میں ہیں، جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز نہیں سنی، خود حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا انکو مسلمان پایا،[
بخاری ج1ص252]
حضرت عائشہ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا، وائل کی کنیت ابو الفقیعس تھی، وائل کے بھائی افلح، حضرت عائشہ کےرضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے وہ انکے سامنے آتی تھیں،[ایضاً ص320] رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ملنے آیا کرتا تھا،
[ایضاًص361]
نکاح:۔
تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حاصل ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب ہوئی تھیں، لیکن جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے انتقال کے بعد خولہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت حکیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیکر ام رومان سے کہا، اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ذکر کیا، تو چونکہ یہ ایک قسم کی وعدہ خلافی تھی، بولے کہ جبیر بن مطعم سے وعدہ کر چکا ہوں، لیکن مطعم نے خود اس بنا پر انکار کر دیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا انکے گھر گئیں تو تو گھر میں اسلام کا قدم آ جائے گا،
بحرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے خولہ کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کر دیا، پانچ سو درہم مہر قرار پایا، یہ سن دس نبوی کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا چھ برس کی تھیں،

یہ نکاح اسلام کی سادگی کی حقیقی تصویر تھا، عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا اسکا واقعہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، انکی انّا آئی اور انکو لے گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آکت نکاح پڑھا دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا خود کہتی ہیں کہ "جب میرا نکاح ہوا تو مجھکو کچھ خبر تک نہ ہوئی جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی، تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا، اسکے بعد میری بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا"[
طبقات ابن سعدج8ص40]
نکاح کے بعد مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تین سال تک رہا، سن تیرہ نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ساتھ تھے۔ اور اہل وعیال کو دشمنوں کے نرغہ میں چھوڑ آئے تھے جب مدینہ میں اطمینان ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن اریقط کو بھیجا کہ ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو لے آئیں، مدینہ میں آکر حضرت عائشہ سخت بخار میں مبتلاہوئیں، اشتداد مرض سے سر کے بال جھڑ گئے،[صحیح بخاری، باب الہجرة]صحت ہوئی تو ام رومان کو رسم عروسی ادا کرنے کا خیال آیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر نو سال کی تھی، سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں کہ ام رومان نے آواز دی، انکو اس واقعہ کی خبر تک نہ تھی، ماں کے پاس آئیں، انہوں نے منہ دھویا بال درست کیئے گھر میں لے گئیں انصار کی عورتیں انتظار میں تھیں، یہ گھر میں داخل ہوئیں تو سب نے مبارکباد دی، تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،
[صحیح بخاری تزویج عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا و سیرة النبی مجلد2]شوال میں نکاح ہوا تھا اور شوال ہی میں یہ رسم ادا کی گئی،

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح سے عرب کے بعض بیہودہ خیالات میں اصلاح ہوئی
(1)عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے، اسی بنا پر جب خولہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے آنحضرت صلی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ظاہر کیا، تو انہوں نے حیرت سے کہا"کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے" لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ انت اخ فی السلام تم تو صرف مذہبی بھائی ہو(2)اہل عرب شوال میں شادی نہیں کرتے تھے، زمانہ قدیم میں اس مہینہ میں طاعون آیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں،

عام حالات:۔

غزوات میں سے صرف غزوہ احد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شرکت کا پتہ چلتا ہے صحیح بخاری میں حجرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ"میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں[بخاری ج2ص581]
غزوہ بنی مصطلق میں کہ سن پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا آپکے ساتھ تھیں، واپسی میں انکا ہار کہیں گر گیا، پورے قافلے کو اترنا پڑا، نماز کا وقت آیا تو پانی نہ ملا، تمام صحابہ پریشان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی اور تیمم کی آیت نازل ہوئی، اس اجازت سے تمام لوگ خوش ہوئے، اسید بن حفیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا،"اے آلِ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ! تم لوگوں کے لیے سرمایہ برکت ہو،"
اسی لڑائی میں واقعہ افک پیش آیا۔ یعنی منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر تہمت لگائی احادیث اور سیر کی کتابوں میں اس واقعہ کو نہایت تفصیل کے ساتھ نقل کیاہے، لیکن جس واقعہ کی نسبت قرآن مجید میں مذکور ہے، کہ سننے کے ساتھ لوگوں نے یہ کیوں نہیں کہدیا کہ"بالکل افترا ہے"اسکو تفصیل کے ساتھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
سن نو ہجری میں تحریم اور ایلاء و تخییر کا واقعہ پیش آیا اور واقعہ تحریم کی تفصیل حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حالات میں آئے گی۔ البتہ واقعہ ایلاء کی تفصیل اس مقام پر کی جاتی ہے،

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زاہدانہ زندگی بسر فرماتے تھے۔ دو دو مہینے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، آئے دن فاقے ہوتے رہتے تھے، ازواج مطہرات گو شرف صحبت کی برکت سے تمام انبائے جسم سے ممتاز ہو گئیں تھیں۔ تاہم بشریت بالکل معدوم نہیں ہو سکتی تھی، خصوصاً وہ دیکھتی تھیں کہ فتوحات اسلام کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ اور غنیمت کا سرمایہ اس قدر پہنچ گیا ہے کہ اسکا ادنی حصہ بھی انکی راحت و آرام کے لیے کافی ہو سکتا ہے، ان واقعات کا اقتضا تھا کہ انکے صبر قناعت کا جام لبریز ہو جاتا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ بیچ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ادھر ادھر بیویاں بیٹھی ہیں، اور توسیع نفقہ کا تقاضا ہے، دونوں اپنی صاحبزادیوں کی تنبیہہ پر آمادہ ہو گئے، لیکن انہوں نے عرض کی کہ ہم آئندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زائد مصارف کی تکلیف نہ دینگے۔
دیگر ازواج اپن مطالبہ پر قائم رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکون خاطر میں یہ چیز اس قدر خلل انداز ہوئی، کہ آپ نے عہد فرمایا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے نہ ملیں گے اتفاق یہ کہ اسی زمانہ میں آپ گھوڑے سے گر پڑے اور ساق مبارک پر زخم آیا آپ نے بالا خانے پر تنہا نشینی اختیار کی، واقعات کے قرینہ سے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ آپ نے تمام ازواج کو طلاق دے دی؟ تو آپ نے فرمایا"نہیں" یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ اکبر پکار اٹھے،

جب ایلاء کی مدت یعنی ایک مہینہ گزر چکا تو آپ بالا خانہ سے اتر آئے، سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے، وہ ایک ایک دن گنتی تھیں، بولیں" یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے ایک مہینہ کے لیے عہد فرمایا تھا، ابھی تو انتیس ہی دن ہوئے ہیں،" ارشاد ہوا"مہینہ کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے۔"
اسکے بعد آیت تخییر نازل ہوئی، اس آیت کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ ازواج مطہرات کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں، دنیا اور آخرت، اگر تم دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمکو رخصتی جوڑے دیکر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کر دوں، اور اگر تم خدا اور رسول اور ابدی راحٹ کی طلبگار ہو تو خدا نے نیکوکاروں کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے، چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ان تمام معاملات میں پیش پیش تھیں، آپ نے انکو ارشاد الہی سے مطلع فرمایا، انہوں نے کہا"میں سب کچھ چھوڑ کر خدا اور سول کو لیتی ہوں،" تمام ازواج مطہرات نے بھی یہی جوابدیا،
[صحیح بخاری(جلد2ص793)و صحیح مسلم الایلاء]

ربیع الاول سن گیارہ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، تیرہ دن علیل رہے، جن میں آٹھ دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرہ میں اقامت فرمائی، خلق عمیم کی بنا پر ازواج مطہرات سے صاف طور پر اجازت نہیں طلب کی بلکہ پوچھا کہ کل میں کس کے گھر رہونگا؟دوسرا دن(دوشنبہ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں قیام فرمانے کا تھا، ازواج مطہرات نے مرضی اقدس سمجھ کر عرض کی کہ آپ جہاں چاہیں قیام فرمائیں، ضعف اس قدر زیادہ ہو گیا تھا کہ چلا نہیں جاتا تھا، حضرت علی وحضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہما دونوں بازو تھام کر بمشکل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرہ میں لائے،
وفات سے پانچ روز پہلے(جمعرات کو) آپکو یاد آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس کچھ اشرفیاں رکھوائی تھیں، دریافت فرمایا،"عائشہ !وہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ کیا محمد خدا سے بدگمان ہو کر ملے گا، جاؤ انکو خدا کی راہ میں خیرات کر دو،"
[مسندابن حنبل ج6ص49]

جس دن وفات ہوئی(یعنی دو شنبہ کے روز) بظاہر طبیعت کو سکون تھا لیکن دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا تھا، آپ پر غشی طاری ہوتی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ موت کو قبول کریں یا حیات دنیا کو ترجیح دیں۔ اس حالت میں اکثر آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے رہے مع الذین انعم اللہ علیھم اور کبھی یہ فرماتے اللہم فی الرفیق الاعلی وہ سمجھ گئیں کہ اب صرف رفاقت الہی مطلوب ہے۔
وفات سے ذرا پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ خدمت اقدس میں آئے، آپ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سینہ پر سر ٹیک کر لیٹے تھے، عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں مسواک تھی، مسواک کی طرف نظر جما کر دیکھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سمجھیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ سے مسواک لیکر دانتوں سے نرم کی، اور خدمت اقدس میں پیش کی، آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فخریہ یہ کہا کرتی تھیں کہ"تمام بیویوں میں مجھی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آخر وقت میں بھی میرا جھوٹا آپ نے منہ میں لگایا۔"

اب وفات کا وقت قریب آ رہا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا آپکو سنبھالے بیٹھی تھیں کہ دفعتہً بدن کا بوجھ معلوم ہوا، دیکھا تو آنکھیں پھٹ کر چھت سے لگ گئیں تھیں اور روح پاک صلی اللہ علیہ وسلم عالم اقدس میں پرواز کر گئی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سراقدس تکیہ پر رکھ دیا اور رونے لگیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ابواب مناقب کا سب سے زریں باب یہ ہے کہ انکے حجرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بننا نصیب ہوا، اور نعش مبارک اسی حجرہ کے ایک گوشہ میں سپردخاک کی گئی۔ چونکہ ازواج مطہرات کے لیے خدا نے دوسری شادی ممنوع قرار د ی تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے 48 سال بیوگی کی حالت میں بسر کیئے، اس زمانہ میں انکی زندگی کا مقصد واحد قرآن و حدیث کی تعلیم تھا، جسکا ذکر آئندہ آئے گا، آنحضرت صلی اللہ ولیہ وسلم کی وفات کے دو برس بعد سن تیرہ ہجری میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے انتقال فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے یہ سایہ شفقت بھی باقی نہ رہا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے، انہوں نے جس قدر حضرت عائشہ کی دلجوئی کی وہ خود اسطرح بیان فرماتی ہیں۔"ابن خطاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ پر بڑے بڑے احسانات کیئے،[مستدرک حاکم ج4ص78]حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام ازواج مطہرات کے لیے دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا تھا، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے وظیفہ بارہ ہزار تھا، جسکی وجہ یہ تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں،
[مستدرک]
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعہ شہادت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا مکہ میں مقیم تھیں، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے مدینہ جا کر انکو واقعات سے آگاہ کیا تو دعوت اصلاح کے لیے بصرہ گئیں اور وہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ پیش آئی، جو جنگ جمل کے نام سے مشہور ہے، جمل اونٹ کو کہتے ہیں، چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک اونٹ پر سوار تھیں، اور اس نے اس معرکہ میں بڑی اہمیت حاصل کی تھی، اسلیئے یہ جنگ بھی اسی کی نسبت سے مشہور ہو گئی، یہ جنگ اگرچہ بالکل اتفاقی طور پر پیش آ گئی تھی تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہمیشہ اسکا افسوس رہا۔

بخاری میں ہے کہ وفات کے وقت انہوں نے وصیت کی کہ"مجھے روضہ نبوی میں آپکے ساتھ دفن نہ کرنا، بلکہ بقیع میں ازواج کے ساتھ دفن کرنا، کیونکہ میں نے آپکے بعد ایک جرم[کتاب الجنائز و مستدرک حاکم جلد4ص8] کیا ہے" ابن سعد میں ہے کہ وہ جب یہ آیت پڑھتی تھیں وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَ"اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو۔" تو اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہو جاتا تھا،
[طبقات ابن سعد ص59جزثانی]
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اٹھارہ برس اور زندہ رہیں اور یہ تمام زمانہ سکون اور خاموشی میں گزرا،


وفات:۔

امیر معاویہ کا اخیر زمانہ خلافت تھا کہ رمضان سن اٹھاون ہجری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رحلت فرمائی، اس وقت سرسٹھ برس کا سن تھا، اور وصیت کےمطابق جنت البقیع میں رات کے وقت مدفون ہوئیں، قاسم بن محمد، عبداللہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن ابی عتیق، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہم نے قبر میں اتارا، اس وقت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا ، مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے، اس لیے انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی،

اولاد:۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اسکا نام عبداللہ تھا، اور اسی کے نام پر انہوں نے کنیت رکھی تھی، لیکن یہ قطعاً غلط ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی کنیت ام عبداللہ انکے بھانجے عبداللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جنکو انہوں نے متبنی بنایا تھا،

حلیہ:۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ و سفید تھا،

فضل و کمال:۔

علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو نہ صرف عورتوں پر نہ صرف دوسری امہات المومنین پر، نہ صرف خاص خاص سحابیوں پر بلکہ باستثنائے چند تمام صحابہ پر فوقیت حاصل تھی، جامع ترمذی میں حضرت ابوموسی اشعری سے روایت ہے،
"ہمکو کبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جسکو ہم نے عائشہ سے پوچھا ہو اور انکے پاس اس سے متعلق کچھ معلومات نہ ملے ہوں،"
امام زہری جو سرخیل تابعین تھے، فرماتے ہیں،
"عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالمہ تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے،
[طبقات ابن سعدجزو2قسم2ص26]
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے،
"قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ و شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھکر کسی کو نہیں دیکھا،"
امام زہری کی ایک شہادت ہے،
"اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا علم وسیع تر ہو گا۔"

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار مجتہدین صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں ہے، اور اس حیثیت سے وہ قس قدر بلند ہیں کہ بےتکلف انکا نام حضرت عمر، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ لیا جا سکتا ہے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں فتوے دیتی تھیں، اور اکابر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم پر انہوں نے جو دقیق اعتراضات کیئے ہیں انکو علامہ سیوطی نے ایک رسالہ میں جمع کر دیا ہے، اس رسالہ کا نام
عین الاصابہ

فی ما استدرکتہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا علی الصحابہ ہے
،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کثرین صحابہ میں داخل ہیں، ان سے
2210 حدیثیں مروی ہیں، جن میں 174 حدیثوں پہ شیخین نے اتفاق کیا ہے، امام بخاری نے منفرداً ان سے 54 حدیثیں روایت کی ہیں، 6 حدیثوں میں امام مسلم منفرد ہیں، بعض لوگوں کا قول ہے کہ امام شرعیہ میں سے ایک چوتھائی ان سے منقعول ہے،
علم کلام کے متعدد مسائل انکی زبان سے ادا ہوئے ہیں، چنانچہ رویت باری، علم غیب، عصمت انبیاء، معراج، ترتیب خلافت اور سماع موتیٰ وغیرہ کے متعلق انہوں نے جو خیالات ظاہر کیئے ہیں، انصاف یہ ہے کہ ان میں انکی وقت نظر کا پلہ بھاری نظر آتا ہے،
علم اسرارالدین کے متعلق بھی ان سے بہت سے مسائل مروی ہیں، چنانچہ قرآن مجید کی ترتیب نزول، مدینہ میں کامیابی اسلام کے اسباب، غسل جمعہ، نماز قصر کی علت، صوم عاشورہ کا سبب ، ہجرت کے معنی کی انہوں نے خاص تشریحیں کی ہیں،
طب کے متعلق وہی عام معلومات تھیں، جو گھر کی عورتوں کو عام طور پر ہوتی ہیں۔

البتہ تاریخ عرب میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، عرب جاہلیت کے حالات انکے رسم و رواج، انکے انساب اور انکی طرز معاشرت کے متعلق انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کیں ہیں، جو دوسری جگہ نہیں مل سکتیں، اسلامی تاریخ کے متعلق بھی بعض اہم واقعات ان سے منقول ہیں مثلاً آغازِ وحی کی کیفیت، ہجرت کے واقعات، واقعہ افک، نزول قرآن اور اسکی ترتیب، نماز کی صورتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے حالات، غزوہ بدر، احد، خندق، قریظہ کے واقعات، غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف کی کیفیت، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت، حجة الوداع کے ضروری حالات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات، خلافت صدیقی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کا دعوی میراث، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ملال خاطر اور پھر بیعت کے تمام مفصل حالات ان ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔

ادبی حیثیت سے وہ نہایت شیریں کلام اور فصیح اللسان تھیں، ترمذی میں موسی ابن طلحہ کا قول نقل کیا ہے،
مستد"میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔
"[مستدرک حاکم ج4ص11]
اگرچہ احادیث میں روایت بالمعنی کا عام طور پر رواج ہے، اور روایت باللفظ کم اور نہایت کم ہوتی ہے تاہم جہاں حضرت عائشہ کے اصل الفاظ محفوظ رہ گئے ہیں، پوری حدیث میں جان پڑ گئی ہے، مثلاً آغاز وحی کے سلسلہ میں فرماتی ہیں،
"آپ جو خواب دیکھتے تھے سپیدۂ سحر کی طرح نمودار ہو جاتا تھا،"
آپ پر جب وحی کی کیفیت طاری ہوتی، تو جبیں مبارک پر عرق آ جاتا تھا اسکو اسطرح ادا کرتی ہیں،
"پیشانی پر موتی ڈھلکتے تھے، "
واقعہ افک میں انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی تھی، اسکو اسطرح بیان فرماتی ہیں،
"میں نے سرمۂ خواب نہیں لگایا،"
صحیح بخاری میں انکے ذریعہ سے ام زرع کا جو قصہ مذکور ہے، وہ جان ادب ہے اور اہل ادب نے اسکی مفصل شرحیں اور حاشیے لکھے ہیں،

خطابت کے لحاظ سے بھی حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما کے سوا تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں ممتاز تھیں جنگ جمل میں انہوں نے جو تقریریں کی ہیں، وہ جوش اور زور کے لحاظ سے اپنا جواب نہیں رکھتیں، ایک تقریر میں فرماتی ہیں،
"لوگو! خاموش، تم پر میرا مادری حق ہے، مجھے نصحیت کی عزت حاصل ہے، سوا اس شخص کے جو خدا کا فرمانبردار نہیں ہے، مجھکو کوئی الزام نہیں دے سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پہ سر رکھے ہوئے وفات پائی ہے، میں آپکی محبوب ترین بیوی ہوں خدا نے مجھکو دوسروں سے ہر طرح محفوظ رکھا اور میری ذات سے مومن و منافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب تم پر خدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا،

پھر میرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے اور غار حرا میں دو کا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جو صدیق کے لقب سے مخاطب ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر اور اسکو طوق خلافت پہنا کر وفات پائی اسکے بعد جب مذہب اسلام کی رسی ہلنے ڈلنے لگی تو میرا ہی باپ تھا جس نے اسکے دونوں سرے تھام لیے، جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کا سرچشمہ خشک کر دیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی، تم لوگ اس وقت آنکھیں بند کیے غدر و فتنہ کے منتظر تھے اور شوروغوغا پر گوش برآواز تھے۔ اس نے شگاف کو برابر کیا، بیکارکو درست کیا، گرتوں کو سنبھالا، دلوں کی مدفون بیماریوں کو دور کیا، جو پانی سے سیراب ہو چکے تھے، انکو تھان تک پہنچادیا، جو پیاسے تھے انکو گھاٹ پر لے آیا، اور جو ایک بار پانی پی چکے تھے انکو دوبارہ پانی پلایا جب وہ نفاق کا سر کچل چکا، اور اہل شرک کے لیے آتشِ جنگ مشتعل کر چکا اور تمہارے سامان کی گٹھڑی کو ڈوری سے باندھ چکا تو خدا نے اسے اٹھا لیا۔،
ہاں میں سوال کا نشانہ بن گئی ہوں کہ کیوں فوج لیکر نکلی؟ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے، جسکو میں پامال کرنا چاہتی ہوں، جو کچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ تنبہہ اور اتمامِ حجت کے لیے۔"
[عقد الفرید باب، الخطیب وذکرواقعۂ جمل ص14]

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا گو شعر نہیں کہتی تھیں، تاہم شاعرانہ مذاق اس قدر عمدہ پایا تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ جو عرب کے مسلم الثبوت شاعر تھے، انکی خدمت میں اشعار سنانے کے لیے حاضر ہوئے تھے، امام بخاری نے ادب میں المفرد میں لکھا ہےکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کعب بن مالک کا پورا قصیدہ یاد تھا، اس قصیدہ میں کم وبیش چالیس اشعار تھے، کعب کے علاوہ انکو دیگر جاہلیت اور اسلامی شعراء کے اشعار بھی بکثرت یاد تھے، جنکو وہ مناسب موقعوں پر پڑھا کرتی تھیں چنانچہ وہ احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نہ صرف ان علوم کی ماہر تھیں، بلکہ دوسروں کو بھی ماہر بنا دیتی تھیں، چنانچہ انکے دامن تربیت میں جو لوگ پرورش پاکر نکلے، اگرچہ انکی تعداد دو سو کے قریب ہے لیکن ان میں جنکو زیادہ قرب و اختصاص حاصل تھا، وہ حسب ذیل ہیں،
عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، مسروق، عمرة، صفیہ بنت شیبہ، عائشہ بنت طلحہ، معاوة عدویہ،


اخلاق عادات:۔

اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بلند مرتبہ رکھتی تھیں، وہ نہایت قانع تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتیں، اگرچہ خود ستائی ناپسند تھی تاہم خود دار تھیں، شجاعت و دلیری بھی انکا خاص جوہر تھا،
انکا سب سے نمایاں وصف جودوسخا تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا، ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انکی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہوتے سب خیرات کر دیئے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا، اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے لیے کچھ نہیں ہے، فرمایا پہلے سے کیوں نہ یاد دلایا،
[مستدرک حاکم ج4ص13]
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جو انکے متبنی فرزند تھے انکی فیاضی دیکھ کر گھبرا گئے اور کہا کہ اب انکا ہاتھ روکنا چاہیے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو معلوم ہوا تو سخت برہم ہوئیں اور قسم کھائی کہ ان سے بات نہ کرینگی، چنانچہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مدت تک معتوب رہے اور بڑی دقت سے انکا غصہ فرو ہوا،
[صحیح بخاری باب مناقب قریش]

نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گزار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتیں، فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ آئے، اور مجھکو منع کرے تب بھی باز نہ آؤں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور اسکی اس قدر پابند تھیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہو جاتی تو نماز فجر سے پہلے اٹھ کر اسکو پڑھ لیتی تھیں، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں، ذکوان انکا غلام امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں۔
اکثر روزے رکھا کرتی تھیں، حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہر سال اس فرض کو ادا کرتی تھیں، غلاموں پر شفقت کرتیں، اور انکو خرید کر آزاد کرتی تھیں، انکے آزادک ردہ غلاموں کی تعدد
7 6ہے،[شرح بلوغ المرام کتاب العتق]

 
Last edited by a moderator:

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
الله تعالی ہم سب کو ان روشن ستاروں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
جھوٹ اتنا نہ بولو جتنا ثابت نہ کر سکو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر اور اسکو طوق خلافت پہنا کر وفات پائی

اگر نبی پاک حضرت ابو بکر کو خلیفہ نامزد کر گئے تھے تو حضرت ابو بکر نے یہ کیوں کہا تھا کہ یہ عمر ہیں اور یہ ابو عبیدہ ، ان میں سے جس کو چاہو خلیفہ چن لو ۔ جس پر لوگوں نے کہا کہ ہم تو آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں

میں پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ اتنے با خبر ہیں لیکن حضرت ابو بکر نہیں کیا آپ کے اس دعوے سے تکفیر کا پہلو نہیں نکلتا؟
 

ramay67

MPA (400+ posts)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جگہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا لکھنا چاہیے یہی مومن مسلمان کے لئےقرآن میں الله کا حکم ہے
 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
امام احمد مسند میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ :

دَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟


قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے



ایک اور روایت میں ہے کہ :
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.

ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-
 

Aftab Zaki

MPA (400+ posts)
اب ایک تفریقی اور تکفیری ٹولہ منہ میں آگ لگا کر بغض عائشہ صددیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مظاہرہ کرے گا
 

swing

Chief Minister (5k+ posts)
جن حضرات کو مسلمانوں کی ماؤں سے تکلیف ہے - ان سے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کے وہ ایسے تھریڈ پر آیا ہی نا کریں ، تاکے تکلیف محسوس کرنے سے بچیں رہیں اور انتظار کرے حوصلے سے اپنے اور ہمارے مرنے کا ،کے وہاں سوہنا رب سب بتلا دے گا جس پر لوگ جگھڑتے ہیں
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
1g4t3d.jpg
 

Alp Arsalan

Banned
Her father, Hazrat Abu Bakr R.A. lead 17 prayers of Muslims in Medina in Masjid Nabvi. This includes one Salat where Sahaba put Hazrat Omar R.A as Imam but Prophet Mohemmed; when heard his voice, said (something like that) put Abu Bakr as imam.
 

oscar

Minister (2k+ posts)
جان اور ایمان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ ٹائیٹل درست کر کے "ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن" کی بجائے "الزوج المطہرہ رضی اللہ تعالی عنہا" کر دیں
بیچارے پاکستانیوں کو (آپ سمیت) چودہ سو سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صرف ایک شادی کا پتہ چل سکا ہے۔اس حساب سے جمع کے صیغے کی ضرورت اگلے پانچ چھ ھزار سال تک یقیناً نہیں پڑے گی
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
جان اور ایمان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ ٹائیٹل درست کر کے "ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن" کی بجائے "الزوج المطہرہ رضی اللہ تعالی عنہا" کر دیں
بیچارے پاکستانیوں کو (آپ سمیت) چودہ سو سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صرف ایک شادی کا پتہ چل سکا ہے۔اس حساب سے جمع کے صیغے کی ضرورت اگلے پانچ چھ ھزار سال تک یقیناً نہیں پڑے گی

سلسله ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن"

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا

آیندہ ذکر
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا

ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن، بنات طاہرات رضی اللہ تعالی عنہن
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)


These shia morons are looking for support when it comes to their imams and keep crying foul just like jews. Are they not following jews every step of the way? In fact their mehdi will also be a jew as he will speak hebrew and will make judgement NOT according to Quran but according old testaments.
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top